باب: نہروں میں سے آدمی اور جانور سب پانی پی سکتے ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: Drinking water by people and animals from rivers)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2372.
حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کی تھیلی اور اس کے سر بندھن کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو بہتر بصورت دیگر تم اس سے جو چاہو کرو۔‘‘ اس نے کہا: اگر بھولی بھٹکی بکری ملے تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ’’یا تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گے، یا تمھارےبھائی کا حصہ بنے گی یا بھیڑیے کا لقمہ ہو گی۔‘‘ اس نے پھر دریافت کیا: اگر بھولا بھٹکا اونٹ ملے تو؟ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اس سے کیا سروکار ہے؟ اس کا مشکیزہ اور موزہ سب اس کے ساتھ ہے۔ وہ پانی پر پہنچ جائے گا اور درخت کے پتے کھا لے گا تاآنکہ اس کا مالک اس کو پالے گا۔‘‘
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے بھولے بھٹکے اونٹ کو پکڑنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اسے بھوک اور پیاس کا ڈر نہیں ہوتا۔ وہ خود نہروں، چشموں اور برساتی نالوں پر جا سکتا ہے اور وہاں سے پانی پی سکتا ہے، اسے کوئی بھی روکنے والا نہیں ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ وافر مقدار میں پانی انسانوں اور حیوانوں کے لیے پیدا کیا ہے، اس پانی کا اللہ کے سوا اور کوئی مالک نہیں۔ جب ان ندی نالوں سے حیوانات کے لیے پانی پینے کا جواز ثابت ہوا تو انسان جوان سے زیادہ ضرورت مند ہیں، ان کے لیے جواز تو بطریق اولیٰ ثابت ہو گا۔ بہرحال قدرتی چشموں، دریاؤں اور نالوں کا پانی کسی کے لیے مختص نہیں ہے اور ان سے پانی پینے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ (2) آج کل ایسے حیوانات کی حفاظت کے لیے مویشی خانے بنے ہوتے ہیں، آوارہ جانوروں کو وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ مویشی خانے میں آوارہ جانور جتنے دن رہے گا اس کا مالک اس کے چارے اور پانی وغیرہ کے اخراجات ادا کر کے وہاں سے حاصل کرے گا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2291
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2372
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2372
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2372
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ جو نہریں راستے پر واقع ہوں۔ ان میں آدمی اور جانور سب پانی پی سکتے ہیں۔ وہ کسی کے لیے خاص نہیں ہوسکتیں۔
حضرت زید بن خالد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھنے لگا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کی تھیلی اور اس کے سر بندھن کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا مالک آجائے تو بہتر بصورت دیگر تم اس سے جو چاہو کرو۔‘‘ اس نے کہا: اگر بھولی بھٹکی بکری ملے تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا: ’’یا تم اس سے فائدہ اٹھاؤ گے، یا تمھارےبھائی کا حصہ بنے گی یا بھیڑیے کا لقمہ ہو گی۔‘‘ اس نے پھر دریافت کیا: اگر بھولا بھٹکا اونٹ ملے تو؟ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اس سے کیا سروکار ہے؟ اس کا مشکیزہ اور موزہ سب اس کے ساتھ ہے۔ وہ پانی پر پہنچ جائے گا اور درخت کے پتے کھا لے گا تاآنکہ اس کا مالک اس کو پالے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے بھولے بھٹکے اونٹ کو پکڑنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اسے بھوک اور پیاس کا ڈر نہیں ہوتا۔ وہ خود نہروں، چشموں اور برساتی نالوں پر جا سکتا ہے اور وہاں سے پانی پی سکتا ہے، اسے کوئی بھی روکنے والا نہیں ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ وافر مقدار میں پانی انسانوں اور حیوانوں کے لیے پیدا کیا ہے، اس پانی کا اللہ کے سوا اور کوئی مالک نہیں۔ جب ان ندی نالوں سے حیوانات کے لیے پانی پینے کا جواز ثابت ہوا تو انسان جوان سے زیادہ ضرورت مند ہیں، ان کے لیے جواز تو بطریق اولیٰ ثابت ہو گا۔ بہرحال قدرتی چشموں، دریاؤں اور نالوں کا پانی کسی کے لیے مختص نہیں ہے اور ان سے پانی پینے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ (2) آج کل ایسے حیوانات کی حفاظت کے لیے مویشی خانے بنے ہوتے ہیں، آوارہ جانوروں کو وہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ مویشی خانے میں آوارہ جانور جتنے دن رہے گا اس کا مالک اس کے چارے اور پانی وغیرہ کے اخراجات ادا کر کے وہاں سے حاصل کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے، ان سے منبعت کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور آپ سے لقطہ (راستے میں کسی کی گم ہو ئی چیز جو پاگئی ہو) کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی تھیلی اور اس کے بندھن کی خوب جانچ کر لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو۔ اس عرصے میں اگر اس کا مالک آجائے (تو اسے دے دو) ورنہ پھر وہ چیز تمہاری ہے۔ سائل نے پوچھا، اور گمشدہ بکری؟ آپ نے فرمایا، وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا پھر بھیڑئیے کی ہے۔ سائل نے پوچھا اور گمشدہ اونٹ؟ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ اسے سیراب رکھنے والی چیز ہے اور اس کا گھر ہے، پانی پر بھی وہ جاسکتا ہے اور درخت (کے پتے) بھی کھا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پا جائے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid (RA): A man came to Allah's Apostle (ﷺ) and asked about Al-Luqata (a fallen thing). The Prophet (ﷺ) said, "Recognize its container and its tying material and then make a public announcement about it for one year and if its owner shows up, give it to him; otherwise use it as you like." The man said, "What about a lost sheep?" The Prophet (ﷺ) said, "It is for you, your brother or the wolf." The man said "What about a lost camel?" The Prophet (ﷺ) said, "Why should you take it as it has got its water-container (its stomach) and its hooves and it can reach the places of water and can eat the trees till its owner finds it?"