باب : باغ میں سے گزرنے کا حق یا کھجور کے درختوں میں پانی پلانے کا حصہ
)
Sahi-Bukhari:
Distribution of Water
(Chapter: To pass through a garden or to have a share in datepalms)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اگر کسی شخص نے پیوندی کرنے کے بعد کھجور کا کوئی درخت بیچا تو اس کا پھل پیچنے والے ہی کا ہوتا ہے۔ اور اس باغ میں سے گزرنے اور سیراب کرنے کا حق بھی اسے حاصل رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا پھل توڑ لیا جائے۔ صاحب عریہ کو بھی یہ حقوق حاصل ہوں گے۔ تشریح : امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے اور ایک روایت امام احمد سے بھی ایسے ہی ہے۔ امام شافعی سے مروی ہے کہ اگر بائع نے اس غلام کو کسی مال کا مالک بنا دیا تھا۔ تو وہ مال خریدار کا ہوگیا، مگر یہ کہ بائع شرط کرلے۔ باب کی مناسبت اس طرح سے ہے کہ جب عریہ کا دینا جائز ہوا تو خواہ مخواہ عریہ والا باغ میں جائے گااپنے پھلوں کی حفاظت کرنے کو۔ یہ جو فرمایا کہ اندازہ کرکے اس کے برابر خشک کھجور کے بدل بیج ڈالنے کی اجازت دی ہے اس کا مطلب یہ کہ مثلاً ایک شخص دو تین درخت کھجور کے بطور عریہ کے لے۔ وہ ایک اندازہ کرنے والے کو بلائے وہ اندازہ کردے۔ کہ درخت پر جو تازی کھجور ہے وہ سوکھنے کے بعداتنی رہے گی اور یہ عریہ والا اتنی سوکھی کھجور کسی شخص سے درخت کا میوہ لے کر اس کے ہاتھ بیج ڈالے تو یہ درست ہے حالانکہ یوں کھجور کو کھجور کے بدل اندازہ کرکے بیچنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال رہتا ہے۔ مگر عریہ والے اکثر محتاج بھوکے لوگ ہوتے ہیں تو ان کو کھانے کے لیے ضرورت پڑتی ہے اس لیے ان کے لیے یہ بیع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز فرما دی۔
2379.
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو کوئی کھجور کا درخت پیوندکاری کے بعد خریدے تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کے لیے ہے الایہ کہ خریدار پھل لینے کی شرط طے کر لے۔ اسی طرح اگر کسی نے ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہے تو وہ مال بیچنے والے کا ہو گا الایہ کہ خریدار مال لینے کی شرط لگا دے۔‘‘ حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث صرف غلام کے متعلق ہے۔
تشریح:
(1) اس حدیث کے مطابق اگر پیوند کی ہوئی کھجوروں کو فروخت کیا گیا تو ان کا پھل بیچنے والے کا ہو گا۔ جب پھل کا مالک یہ ہے تو اسے باغ میں جانے کے لیے راستہ اور انہیں سیراب کرنے کے لیے پانی کا حصہ بھی دیا جائے گا۔ (2) غلام کے متعلق حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث کو موطا امام مالک میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے کہ غلام کا مال فروخت کرنے والے کا ہے لیکن جب خریدار شرط لگا لے تو اس صورت میں غلام کا مال خریدار کو مل جائے گا۔ بہرحال پیوند کیے ہوئے باغات کے متعلق عام قاعدہ یہی ہو گا کہ جس شخص نے پیوندکاری کی، اس کے بعد باغ فروخت کر دیا تو پھل کا حق دار وہی ہو گا، خریدار کو اگلے سال پھل ملے گا لیکن اگر خریدنے والے نے شرط لگا دی تو معاملہ شرط کی بنیاد پر ہو گا۔ (فتح الباري:64/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2298
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2379
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2379
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2379
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ مساقاۃ سقي سے بنا ہے۔ اس کے معنی پانی دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں اگر کوئی شخص اپنا تیار شدہ باغ یا درخت کسی شخص کو اس شرط پر دے کہ وہ اسے پانی دے گا اور دیکھ بھال کرے گا، جو پھل ہو گا اسے دونوں تقسیم کر لیں گے تو اس معاملے کو مساقات کہا جاتا ہے۔ مساقات دراصل مزارعت ہی کی ایک قسم ہے، فرق صرف یہ ہے کہ زراعت زمین میں ہوتی ہے اور مساقات باغات وغیرہ میں۔ مزارعت کی طرح یہ معاملہ بھی جائز ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے باغات یہودیوں کو دے دیے تھے کہ ان باغات میں وہ کام کریں اور جو کچھ پھل ہوں گے ان میں سے نصف ان کو دے دیے جائیں گے۔ مساقات کے شرائط و ارکان وہی ہیں جو مزارعت کے ہیں لکن امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو مخصوص اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں کیا بلکہ آپ نے زمین کی آبادکاری کے لیے نظام آبپاشی کی افادیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے مذکورہ عنوان قائم کیا ہے کیونکہ غلے کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آبپاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعے سے پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو اناج غذائیت سے بھرپور پیدا ہوتا ہے۔ آبپاشی کی اہمیت کے سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین سے نہر نکالنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: تمہیں اجازت دے دینی چاہیے کیونکہ اس میں تمہارا بھی فائدہ ہے لیکن حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اس پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! نہر ضرور نکالی جائے گی، خواہ تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے، پھر آپ نے وہاں سے نہر نکالنے کا حکم دیا۔ (موطأ امام محمد) اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں زمینوں کو آباد کرنے کے لیے آبپاشی کا بندوبست ہوتا تھا۔چونکہ مزارعت اور بٹائی کے لیے پانی کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے مساقات کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ انہوں نے مطلق طور پر اس عنوان کے تحت پانی وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ آپ نے اس میں کل چھتیس احادیث ذکر کی ہیں جن میں پانچ معلق اور اکتیس موصول ہیں۔ ان میں سترہ احادیث مکرر اور انیس خالص ہیں۔ پانچ احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تقریباً سترہ عنوان قائم کیے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:(1) پانی پلانے کے احکام۔ (2) اپنی زمین میں کنواں کھودنے والا کسی نقصان کا ضامن نہیں ہو گا۔ (3) مسافر کو پانی نہ پلانا گناہ ہے۔ (4) نہروں کی بندش کا بیان۔ (5) پانی پلانے کی فضیلت۔ (6) نہروں سے لوگوں اور جانوروں کا پانی پلانا۔ اس عنوان کے تحت بنجر زمین آباد کرنے اور جاگیر دینے کے مسائل بھی ذکر ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اہل مدینہ کی مخصوص اصطلاح میں مساقات کو معاملہ، مزارعت کو مخابرہ، اجارے کو بیع، مضاربت کو مقارضہ اور نماز کو سجدہ کہا جاتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوانات اور پیش کردہ احادیث قابل مطالعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی چیز میں دو حق جمع ہو جائیں، مثلاً: کسی باغ کے متعلق حق ملکیت اور حق انتفاع جمع ہوں تو حق انتفاع رکھنے کے لیے مالک کو کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ اسے چاہیے کہ وہ باغ کو پانی دینے اور پھل توڑنے کے لیے راستہ دینے کی سہولت فراہم کرے۔ (فتح الباری:5/63) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ حدیث پہلے متصل سند سے بیان ہو چکی ہے۔ (صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2204) اس حدیث کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ کا کلام ہے جو انہوں نے مذکورہ احادیث سے اخذ کیا ہے۔ یہ حدیث کا حصہ نہیں۔
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اگر کسی شخص نے پیوندی کرنے کے بعد کھجور کا کوئی درخت بیچا تو اس کا پھل پیچنے والے ہی کا ہوتا ہے۔ اور اس باغ میں سے گزرنے اور سیراب کرنے کا حق بھی اسے حاصل رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا پھل توڑ لیا جائے۔ صاحب عریہ کو بھی یہ حقوق حاصل ہوں گے۔ تشریح : امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے اور ایک روایت امام احمد سے بھی ایسے ہی ہے۔ امام شافعی سے مروی ہے کہ اگر بائع نے اس غلام کو کسی مال کا مالک بنا دیا تھا۔ تو وہ مال خریدار کا ہوگیا، مگر یہ کہ بائع شرط کرلے۔ باب کی مناسبت اس طرح سے ہے کہ جب عریہ کا دینا جائز ہوا تو خواہ مخواہ عریہ والا باغ میں جائے گااپنے پھلوں کی حفاظت کرنے کو۔ یہ جو فرمایا کہ اندازہ کرکے اس کے برابر خشک کھجور کے بدل بیج ڈالنے کی اجازت دی ہے اس کا مطلب یہ کہ مثلاً ایک شخص دو تین درخت کھجور کے بطور عریہ کے لے۔ وہ ایک اندازہ کرنے والے کو بلائے وہ اندازہ کردے۔ کہ درخت پر جو تازی کھجور ہے وہ سوکھنے کے بعداتنی رہے گی اور یہ عریہ والا اتنی سوکھی کھجور کسی شخص سے درخت کا میوہ لے کر اس کے ہاتھ بیج ڈالے تو یہ درست ہے حالانکہ یوں کھجور کو کھجور کے بدل اندازہ کرکے بیچنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال رہتا ہے۔ مگر عریہ والے اکثر محتاج بھوکے لوگ ہوتے ہیں تو ان کو کھانے کے لیے ضرورت پڑتی ہے اس لیے ان کے لیے یہ بیع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز فرما دی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو کوئی کھجور کا درخت پیوندکاری کے بعد خریدے تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کے لیے ہے الایہ کہ خریدار پھل لینے کی شرط طے کر لے۔ اسی طرح اگر کسی نے ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہے تو وہ مال بیچنے والے کا ہو گا الایہ کہ خریدار مال لینے کی شرط لگا دے۔‘‘ حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث صرف غلام کے متعلق ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کے مطابق اگر پیوند کی ہوئی کھجوروں کو فروخت کیا گیا تو ان کا پھل بیچنے والے کا ہو گا۔ جب پھل کا مالک یہ ہے تو اسے باغ میں جانے کے لیے راستہ اور انہیں سیراب کرنے کے لیے پانی کا حصہ بھی دیا جائے گا۔ (2) غلام کے متعلق حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث کو موطا امام مالک میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے کہ غلام کا مال فروخت کرنے والے کا ہے لیکن جب خریدار شرط لگا لے تو اس صورت میں غلام کا مال خریدار کو مل جائے گا۔ بہرحال پیوند کیے ہوئے باغات کے متعلق عام قاعدہ یہی ہو گا کہ جس شخص نے پیوندکاری کی، اس کے بعد باغ فروخت کر دیا تو پھل کا حق دار وہی ہو گا، خریدار کو اگلے سال پھل ملے گا لیکن اگر خریدنے والے نے شرط لگا دی تو معاملہ شرط کی بنیاد پر ہو گا۔ (فتح الباري:64/5)
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺنے فرمایا: "جس نے کھجور کا درخت پیوند لگانے کے بعد فروخت کیا تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے۔ اسے باغ میں جانے، وہاں سے گزرنے اور سیراب کرنے کا بھی حق حاصل رہتا ہے تاآنکہ وہ اپنا پھل اٹھالے، صاحب عریہ کو بھی یہ حق حاصل ہوں گے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ پیوندکاری کے بعد اگر کسی شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچا تو (اس سال کی فصل کا) پھل بیچنے والے ہی کا رہتا ہے۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے (کہ پھل بھی خریدار ہی کا ہوگا) تو یہ صورت الگ ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کوئی مال والا غلام بیچا تو وہ مال بیچنے والے کا ہوتا ہے۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے تو یہ صورت الگ ہے۔ یہ حدیث امام مالک سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر ؓ سے بھی مروی ہے اس میں صرف غلام کا ذکر ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah (RA) said, I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say "If somebody buys date-palms after they have been pollinated, the fruits will belong to the seller unless the buyer stipulates the contrary. If somebody buys a slave having some property, the property will belong to the seller unless the buyer stipulate that it should belong to him."