باب: اس بارے میں کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Urinating in stagnant water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
238.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ہم (دنیا میں) آخر میں آنے والے ہیں لیکن (قیامت کو) سبقت کر جانے والے ہیں۔‘‘
تشریح:
1۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کہ ہم آخر میں آنے والے ہیں مگر سبقت کرجانے والے ہیں، اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، اگرچہ بعض شارحین نے مناسبت پیدا کرنے کے لیے دورازکار تاویلات کا سہارا لیا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اسے بطور علامت ذکر کیا ہے تاکہ اس کے ماخذ کی طرف اشارہ ہوجائے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے دوشاگرد ہیں:* عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج * ہمام بن منبہ۔ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے جو احادیث سنیں، انھیں قلم بند کرکے اپنے اپنے صحیفوں میں محفوظ کر لیا۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ ان دونوں کے مرتب کردہ صحیفوں سے احادیث بیان کرتے ہیں۔ امام مسلم ؒ ان سے بیان کرتے وقت پہلے بطور علامت یہ جملہ لاتے ہیں: (فذكر أحاديث منها) پھر قال رسول اللہ ﷺ سے حدیث کا آغاز کرتے ہیں، لیکن امام بخاری ؒ ان سے بیان کرتے وقت: (نحن الآخرون السابقون) کاجملہ شرو ع میں لاتے ہیں۔ ویسے امام بخاری ؒ نے مستقل طورپرمکمل حدیث کتاب الجمعہ (875) میں بیان کی ہے۔ حضرت عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ انداز دیکھا جاسکتا ہے: الوضوء(حدیث:238)، الجہاد (حدیث 2956)،الدیات (حدیث 6887) ،التوحید (74959) بعض مقامات پر اس جملے کے بغیربھی احادیث بیان کی ہیں، مثلاً: کتاب التوحید، حدیث 7506،7501،7504۔7505۔ شاید باب میں ایک جگہ ذکر کرنے کو کافی خیال کر لیا گیا ہو۔ اسی طرح ہمام بن منبہ کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث:6624 وکتاب التعبیر، حدیث :7036) بعض اوقات اس جملے کے بغیر بھی اس طریق سے احادیث بیان کی ہیں: احادیث الانبیاء (حدیث :3472) التوحید: (7498) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ اعرج اورہمام کے علاوہ بھی جب حضرت طاؤس کے طریق سے بیان کرتے ہیں تو بعض اوقات ان الفاظ کو شروع میں لاتے ہیں، مثلاً: کتاب الجمعہ (حدیث:896)، احادیث الانبیاء (حدیث :3486) 2۔ امام بخاری ؒ کا دوسری حدیث بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ اگر رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ایک راستہ کھل جائے گا، جب اس طرح لوگ اس میں پیشاب کرنے لگیں گے تو ایک نہ ایک دن وہ پانی متغیر ہوکرنجس ہوجائے گا، پھر وہ غسل اور وضو کے قابل نہیں رہے گا، اس لیے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس دروازے کو بند کرنے کے پیش نظر ہے، تاکہ لوگ کثرت سے پیشاب کرنے کی وجہ سے اسے ناقابل استعمال نہ کردیں۔ 3۔ حدیث میں الدائم کے بعد الذی لایجري کے الفاظ بطور صفت کاشفہ نہیں، بلکہ انھیں احتراز کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی ماء دائم کی دو اقسام ہیں:* ماء دائم غیر جاری، جیسے تالاب اور جوہڑ وغیرہ * ماء دائم جاری، جیسے کنویں، جن کا پانی بہنے والے سوتوں کےذریعے سے اوپر آتا رہتا ہے۔ لیکن مذکورہ صفت حکم سے متعلق نہیں کہ اس سے ماء دائم جاری میں پیشاب کرنے کی اجازت ثابت کرنے لگیں، کیونکہ مفہوم مخالف ہرجگہ نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کی قیود کے فوائد دوسرے ہوتے ہیں،مثلاً: یہاں پانی میں پیشاب کرنے کی قباحت کو نمایاں کرنا مقصود ہے، گویا ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب سے منع کیا، خاص طور پر وہ پانی جو جاری بھی نہ ہو، اس سے پیشاب کرنے کی قباحت کو ظاہرکرنا مقصود ہے۔ 4۔ اصحاب ظواہرنے اس حدیث کو اپنے ذوق کے مطابق عجیب معنی پہنائے ہیں، لکھا ہے کہ ممانعت پیشاب کے ساتھ خاص ہے۔ اگر اس میں کوئی پاخانہ کردے تو کوئی حرج نہیں، نہ اس کی ممانعت ہے، یعنی اس پانی سے خود بھی اور دوسرے بھی وضو اور غسل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ پیشاب کرنے والا کسی برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یا پیشاب قریب میں کرے کہ وہاں سے خودبہہ کر پانی میں چلا جائے تو اس سے بھی وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (محلی بن حزم:35/1) 5۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کیوں بیان کی گئی ہے جبکہ اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں؟ اسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، لیکن’’اصحاب تدبر‘‘ کے ہاں احادیث بخاری میں تشکیک پیداکرنا ایک محبوب مشغلہ ہے، اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، چنانچہ لکھا ہے: لیکن سوال یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو بے جوڑ باتوں کو یہاں کیوں لیا ہے جبکہ باب کی رعایت سے ان کا تعلق روایت کے آخری ٹکڑے سے تھا، وہ اس کو لے لیتے اور پہلے ٹکڑے کو چھوڑدیتے۔‘‘ (تدبرحدیث:329/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
240
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
238
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
238
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
238
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ہم (دنیا میں) آخر میں آنے والے ہیں لیکن (قیامت کو) سبقت کر جانے والے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کہ ہم آخر میں آنے والے ہیں مگر سبقت کرجانے والے ہیں، اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، اگرچہ بعض شارحین نے مناسبت پیدا کرنے کے لیے دورازکار تاویلات کا سہارا لیا ہے۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اسے بطور علامت ذکر کیا ہے تاکہ اس کے ماخذ کی طرف اشارہ ہوجائے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے دوشاگرد ہیں:* عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج * ہمام بن منبہ۔ ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے جو احادیث سنیں، انھیں قلم بند کرکے اپنے اپنے صحیفوں میں محفوظ کر لیا۔ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ ان دونوں کے مرتب کردہ صحیفوں سے احادیث بیان کرتے ہیں۔ امام مسلم ؒ ان سے بیان کرتے وقت پہلے بطور علامت یہ جملہ لاتے ہیں: (فذكر أحاديث منها) پھر قال رسول اللہ ﷺ سے حدیث کا آغاز کرتے ہیں، لیکن امام بخاری ؒ ان سے بیان کرتے وقت: (نحن الآخرون السابقون) کاجملہ شرو ع میں لاتے ہیں۔ ویسے امام بخاری ؒ نے مستقل طورپرمکمل حدیث کتاب الجمعہ (875) میں بیان کی ہے۔ حضرت عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ انداز دیکھا جاسکتا ہے: الوضوء(حدیث:238)، الجہاد (حدیث 2956)،الدیات (حدیث 6887) ،التوحید (74959) بعض مقامات پر اس جملے کے بغیربھی احادیث بیان کی ہیں، مثلاً: کتاب التوحید، حدیث 7506،7501،7504۔7505۔ شاید باب میں ایک جگہ ذکر کرنے کو کافی خیال کر لیا گیا ہو۔ اسی طرح ہمام بن منبہ کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث:6624 وکتاب التعبیر، حدیث :7036) بعض اوقات اس جملے کے بغیر بھی اس طریق سے احادیث بیان کی ہیں: احادیث الانبیاء (حدیث :3472) التوحید: (7498) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ اعرج اورہمام کے علاوہ بھی جب حضرت طاؤس کے طریق سے بیان کرتے ہیں تو بعض اوقات ان الفاظ کو شروع میں لاتے ہیں، مثلاً: کتاب الجمعہ (حدیث:896)، احادیث الانبیاء (حدیث :3486) 2۔ امام بخاری ؒ کا دوسری حدیث بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ اگر رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ایک راستہ کھل جائے گا، جب اس طرح لوگ اس میں پیشاب کرنے لگیں گے تو ایک نہ ایک دن وہ پانی متغیر ہوکرنجس ہوجائے گا، پھر وہ غسل اور وضو کے قابل نہیں رہے گا، اس لیے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس دروازے کو بند کرنے کے پیش نظر ہے، تاکہ لوگ کثرت سے پیشاب کرنے کی وجہ سے اسے ناقابل استعمال نہ کردیں۔ 3۔ حدیث میں الدائم کے بعد الذی لایجري کے الفاظ بطور صفت کاشفہ نہیں، بلکہ انھیں احتراز کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی ماء دائم کی دو اقسام ہیں:* ماء دائم غیر جاری، جیسے تالاب اور جوہڑ وغیرہ * ماء دائم جاری، جیسے کنویں، جن کا پانی بہنے والے سوتوں کےذریعے سے اوپر آتا رہتا ہے۔ لیکن مذکورہ صفت حکم سے متعلق نہیں کہ اس سے ماء دائم جاری میں پیشاب کرنے کی اجازت ثابت کرنے لگیں، کیونکہ مفہوم مخالف ہرجگہ نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کی قیود کے فوائد دوسرے ہوتے ہیں،مثلاً: یہاں پانی میں پیشاب کرنے کی قباحت کو نمایاں کرنا مقصود ہے، گویا ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب سے منع کیا، خاص طور پر وہ پانی جو جاری بھی نہ ہو، اس سے پیشاب کرنے کی قباحت کو ظاہرکرنا مقصود ہے۔ 4۔ اصحاب ظواہرنے اس حدیث کو اپنے ذوق کے مطابق عجیب معنی پہنائے ہیں، لکھا ہے کہ ممانعت پیشاب کے ساتھ خاص ہے۔ اگر اس میں کوئی پاخانہ کردے تو کوئی حرج نہیں، نہ اس کی ممانعت ہے، یعنی اس پانی سے خود بھی اور دوسرے بھی وضو اور غسل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی جائز ہے کہ پیشاب کرنے والا کسی برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یا پیشاب قریب میں کرے کہ وہاں سے خودبہہ کر پانی میں چلا جائے تو اس سے بھی وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (محلی بن حزم:35/1) 5۔ اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کیوں بیان کی گئی ہے جبکہ اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں؟ اسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، لیکن’’اصحاب تدبر‘‘ کے ہاں احادیث بخاری میں تشکیک پیداکرنا ایک محبوب مشغلہ ہے، اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، چنانچہ لکھا ہے: لیکن سوال یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو بے جوڑ باتوں کو یہاں کیوں لیا ہے جبکہ باب کی رعایت سے ان کا تعلق روایت کے آخری ٹکڑے سے تھا، وہ اس کو لے لیتے اور پہلے ٹکڑے کو چھوڑدیتے۔‘‘ (تدبرحدیث:329/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا مجھے ابوالزناد نے خبر دی کہ ان سے عبدالرحمن بن ہرمزالاعرج نے بیان کیا، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ ہم (لوگ) دنیا میں پچھلے زمانے میں آئے ہیں (مگر آخرت میں) سب سے آگے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "We (Muslims) are the last (people to come in the world) but (will be) the foremost (on the Day of Resurrection)." The same