باب: کپڑے میں تھوک اور رینٹ وغیرہ لگ جانے کے بارے میں
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Spitting or blowing out the nose or doing similar action in one's own garment)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
عروہ نے مسور اور مروان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺحدیبیہ کے زمانے میں نکلے ( اس سلسلہ میں ) انھوں نے پوری حدیث ذکر کی ( اور پھر کہا ) کہ نبی ﷺ نے جتنی مرتبہ بھی تھوکا وہ لوگوں کی ہتھیلی پر پڑا۔ پھر وہ لوگوں نے اپنے چہروں اور بدن پر مل لیا۔
241.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے کپڑے میں تھوکا۔ امام بخاری ؒ کہتے ہیں: اس حدیث کو ابن مریم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ انھوں نے کہا: ہم نے یحییٰ بن ایوب سے بواسطہ حمید سنا، انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس ؓ سے نبی ﷺ کی یہی روایت سنی۔
تشریح:
1۔ اقذار کے متعلق وضاحت کی جارہی ہے جو قذر کی جمع ہے۔ قابل نفرت چیز کو قذر کہا جاتا ہے۔ اس کی دوقسمیں ہیں: * قابل نفرت کے ساتھ ساتھ نجس بھی ہو، جیسے بول وبراز اورمنی وغیرہ۔ *قابل نفرت ہونے کے باوجود ناپاک نہ ہو، جیسے تھوک، بلغم اور پسینہ وغیرہ۔ اس باب میں امام بخاری ان اقذار کا حکم بیان کرتے ہیں جو قابل نفرت تو ہیں لیکن نجس نہیں۔ اس کے بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیدا ہوئی کہ حضرت سلمان فارسی ؓ اور ابراہیم نخعی ؒ تھوک اور ناک سے بہنے والی رطوبت کو منہ اور ناک سے الگ ہونے کے بعد نجس خیال کرتے تھے۔ اس مسئلے میں امام بخاری ؒ جمہور کے ہم نوا ہیں کہ تھوک اوربلغم وغیرہ پاک ہیں، اگر کپڑے کو لگ جائیں تو کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر یہ چیزیں پانی میں گرجائیں تو اس سے پانی نجس نہیں ہوتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کے استعمال سے دوسروں کو گھن آئے لیکن ہر گھن والی چیز کا ناپاک ہونا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ابن حزم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؒ اورابراہیم نخعی کے نزدیک لعاب دہن نجس ہے بشرطیکہ منہ سے الگ ہوجائے۔ (فتح الباري:459/1) 2۔ علامہ عینی نے لکھا ہے: تھوک کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ اگر منہ پاک ہوگا تو تھوک بھی پاک ہوگا اوراگر تھوک ایسے شخص کا ہو جس نے شراب نوشی کی ہے تو اس وقت اس کا تھوک بھی نجس ہوگا اور جوٹھا بھی ناپاک ہوگا۔ (عمدةالقاري:681/2) 3۔ مروان کے والد فتح مکہ کے دن اسلام لائے تھے، بعض وجوہات کی بناپر رسول اللہ ﷺ نے انھیں جلا وطن کردیا تھا، حضرت مروان بھی ان کے ساتھ طائف چلے گئے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے دورخلافت میں باپ حکم اور بیٹے مروان دونوں کو مدینہ طیبہ بلا لیا تھا۔ مروان حدیبیہ کے موقع پر موجود نہ تھے، پھر ان سے مذکورہ روایت کی کیا حیثیت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل روایت تو حضرت مسورؓ سے ہے اور اس کے ساتھ مروان کی روایت کو بطور تائید ملا دیا گیا ہے، لیکن اعتراض پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جو شخص موقع پر وہاں موجود نہیں تھا اس کی روایت سے تقویت حاصل کرنا چہ معنی دارد؟ ممکن ہے کہ حضرت مروان نے صلح حدیبیہ سے متعلق اس روایت کو کسی اور صحابی سے سنا ہو۔ واللہ أعلم۔ مفصل روایت صلح حدیبیہ کے باب میں بیان ہوگی۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ کا کپڑے میں تھوکنا اس وجہ سے تھا کہ آپ نے مسجد میں دیوار کے ساتھ تھوک لگا ہوا دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ دوران نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت ہوتو اپنی بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوکے، پھر آپ نے چادر کے کونے پر تھوک کر اس کے کناروں کو مل دیا اور فرمایا کہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن کپڑے میں تھوکنے کی صورت اس وقت ہے جب اسے جلدی فراغت کی ضرورت ہو جیساکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان (باب:39) بایں الفاظ قائم کیا ہے: (إذا بدره البزاق فليأخذ بطرف ثوبه)’’جب تھوک کا غلبہ ہوتوچادر کے کسی کنارے میں تھوک دے۔‘‘ اگرچہ مذکورہ حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی، تاہم صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:465/1) چونکہ وہ روایت امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھی، لہٰذا عنوان میں اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث:1228(550)) ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اگرنماز میں اس کی ضرورت پیش آجائے تو اسے منہ میں جمع کرنے کی بجائے اپنے بائیں طرف تھوک لے اور اگر بائیں جانب کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہوتو یہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے اور اگرغلبے کی صورت ہوتو کپڑے میں تھوک کراسے مل لے۔ لیکن موجودہ حالات میں بائیں جانب یا قدموں کے نیچے تھوکنے کے بجائے کپڑے والی صورت ہی متعین ہے۔ واللہ أعلم ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
243
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
241
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
241
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
241
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
عروہ نے مسور اور مروان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺحدیبیہ کے زمانے میں نکلے ( اس سلسلہ میں ) انھوں نے پوری حدیث ذکر کی ( اور پھر کہا ) کہ نبی ﷺ نے جتنی مرتبہ بھی تھوکا وہ لوگوں کی ہتھیلی پر پڑا۔ پھر وہ لوگوں نے اپنے چہروں اور بدن پر مل لیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے کپڑے میں تھوکا۔ امام بخاری ؒ کہتے ہیں: اس حدیث کو ابن مریم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ انھوں نے کہا: ہم نے یحییٰ بن ایوب سے بواسطہ حمید سنا، انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس ؓ سے نبی ﷺ کی یہی روایت سنی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اقذار کے متعلق وضاحت کی جارہی ہے جو قذر کی جمع ہے۔ قابل نفرت چیز کو قذر کہا جاتا ہے۔ اس کی دوقسمیں ہیں: * قابل نفرت کے ساتھ ساتھ نجس بھی ہو، جیسے بول وبراز اورمنی وغیرہ۔ *قابل نفرت ہونے کے باوجود ناپاک نہ ہو، جیسے تھوک، بلغم اور پسینہ وغیرہ۔ اس باب میں امام بخاری ان اقذار کا حکم بیان کرتے ہیں جو قابل نفرت تو ہیں لیکن نجس نہیں۔ اس کے بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیدا ہوئی کہ حضرت سلمان فارسی ؓ اور ابراہیم نخعی ؒ تھوک اور ناک سے بہنے والی رطوبت کو منہ اور ناک سے الگ ہونے کے بعد نجس خیال کرتے تھے۔ اس مسئلے میں امام بخاری ؒ جمہور کے ہم نوا ہیں کہ تھوک اوربلغم وغیرہ پاک ہیں، اگر کپڑے کو لگ جائیں تو کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر یہ چیزیں پانی میں گرجائیں تو اس سے پانی نجس نہیں ہوتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کے استعمال سے دوسروں کو گھن آئے لیکن ہر گھن والی چیز کا ناپاک ہونا ضروری نہیں۔ حافظ ابن حجرؒ نے ابن حزم کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سلمان فارسی ؒ اورابراہیم نخعی کے نزدیک لعاب دہن نجس ہے بشرطیکہ منہ سے الگ ہوجائے۔ (فتح الباري:459/1) 2۔ علامہ عینی نے لکھا ہے: تھوک کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ اگر منہ پاک ہوگا تو تھوک بھی پاک ہوگا اوراگر تھوک ایسے شخص کا ہو جس نے شراب نوشی کی ہے تو اس وقت اس کا تھوک بھی نجس ہوگا اور جوٹھا بھی ناپاک ہوگا۔ (عمدةالقاري:681/2) 3۔ مروان کے والد فتح مکہ کے دن اسلام لائے تھے، بعض وجوہات کی بناپر رسول اللہ ﷺ نے انھیں جلا وطن کردیا تھا، حضرت مروان بھی ان کے ساتھ طائف چلے گئے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے دورخلافت میں باپ حکم اور بیٹے مروان دونوں کو مدینہ طیبہ بلا لیا تھا۔ مروان حدیبیہ کے موقع پر موجود نہ تھے، پھر ان سے مذکورہ روایت کی کیا حیثیت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل روایت تو حضرت مسورؓ سے ہے اور اس کے ساتھ مروان کی روایت کو بطور تائید ملا دیا گیا ہے، لیکن اعتراض پھر بھی باقی رہتا ہے کہ جو شخص موقع پر وہاں موجود نہیں تھا اس کی روایت سے تقویت حاصل کرنا چہ معنی دارد؟ ممکن ہے کہ حضرت مروان نے صلح حدیبیہ سے متعلق اس روایت کو کسی اور صحابی سے سنا ہو۔ واللہ أعلم۔ مفصل روایت صلح حدیبیہ کے باب میں بیان ہوگی۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ کا کپڑے میں تھوکنا اس وجہ سے تھا کہ آپ نے مسجد میں دیوار کے ساتھ تھوک لگا ہوا دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ دوران نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت ہوتو اپنی بائیں طرف یا قدموں کے نیچے تھوکے، پھر آپ نے چادر کے کونے پر تھوک کر اس کے کناروں کو مل دیا اور فرمایا کہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن کپڑے میں تھوکنے کی صورت اس وقت ہے جب اسے جلدی فراغت کی ضرورت ہو جیساکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان (باب:39) بایں الفاظ قائم کیا ہے: (إذا بدره البزاق فليأخذ بطرف ثوبه)’’جب تھوک کا غلبہ ہوتوچادر کے کسی کنارے میں تھوک دے۔‘‘ اگرچہ مذکورہ حدیث سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی، تاہم صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:465/1) چونکہ وہ روایت امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھی، لہٰذا عنوان میں اس کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث:1228(550)) ان احادیث کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اگرنماز میں اس کی ضرورت پیش آجائے تو اسے منہ میں جمع کرنے کی بجائے اپنے بائیں طرف تھوک لے اور اگر بائیں جانب کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہوتو یہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے اور اگرغلبے کی صورت ہوتو کپڑے میں تھوک کراسے مل لے۔ لیکن موجودہ حالات میں بائیں جانب یا قدموں کے نیچے تھوکنے کے بجائے کپڑے والی صورت ہی متعین ہے۔ واللہ أعلم ۔
ترجمۃ الباب:
عروہ نے حضرت مسور اور مروان سے نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ حدیبیہ کے سال نکلے۔ اس کے بعد انہوں نے حدیث بیان کی۔ اس میں ہے کہ نبی ﷺنے جب تھوکا تو لوگوں میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرا اور انہوں نے اسے اپنے منہ اور بدن پر مل لیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے حمید کے واسطے سے بیان کیا، وہ حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے (ایک مرتبہ) اپنے کپڑے میں تھوکا۔ ابوعبداللہ امام بخاری ؓ علیہ نے فرمایا کہ سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو طوالت کے ساتھ بیان کیا۔ انھوں نے کہا ہم کو خبر دی یحییٰ بن ایوب نے، کہا مجھ سے حمید نے بیان کیا، کہا میں نے انس سے سنا، وہ آنحضرت ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام ؒ کی غرض یہ ہے کہ حمید کا سماع انس ؓ سے ثابت ہوجائے اور یحییٰ بن سعید قطان کا یہ قول غلط ٹھہرے کہ حمید نے یہ حدیث ثابت سے سنی ہے۔ انھوں نے ابونضرہ سے انھوں نے انس سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھتے وقت اگرکسی کپڑے میں تھوک لے تاکہ نماز میں خلل بھی نہ واقع ہو اور قریب کی جگہ بھی خراب نہ ہو تو یہ جائز درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) once spat in his clothes.