باب : قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Khusoomaat
(Chapter: About the people and quarrels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2410.
حضرت عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو قرآن کی ایک آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ نبی کریم ﷺ سے میں نے وہ آیت اس کے خلاف سنی تھی۔ میں نے اس کاہاتھ پکڑا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم دونوں کی قراءت ٹھیک ہے۔‘‘ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا: میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہوگئے۔‘‘
تشریح:
(1) اس عنوان کے دو جز ہیں: پہلا یہ ہے کہ کسی شخص کو گرفتار کر کے دوسری جگہ لے جانا۔ اگر ملزم کسی جگہ ہو اور اس کے غائب ہونے یا بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اسے گرفتار کر کے دوسری جگہ منتقل کرنے یا اس کی نگرانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جب ایک شخص کی قراءت سنی جو اس طریقے سے مختلف تھی جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی تو اسے پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔ جب قرآن کریم بزعم خویش غلط پڑھنے پر پکڑ کے لے جانا درست ہے تو اپنے حق کے بدلے میں پکڑ کر لے جانے میں کیا حرج ہے؟ جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے دوسرے کی حیثیت بھی وہی ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں اسے ہاتھ سے پکڑنے کا ذکر ہے، امام بخاری ؒ نے اسی سے اپنے عنوان کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پایا جاتا ہے۔ اس حدیث کے آخر میں اختلاف سے بچنے کی تلقین ہے کیونکہ طبعی اختلاف قابل مذمت نہیں بلکہ وہ اختلاف باعث ہلاکت ہے جو موجب افتراق و فساد ہو۔ اس میں شک نہیں کہ تفرقہ امت کو کمزور کرنے والی بیماری ہے جس سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2327
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2410
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2410
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2410
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو قرآن کی ایک آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ نبی کریم ﷺ سے میں نے وہ آیت اس کے خلاف سنی تھی۔ میں نے اس کاہاتھ پکڑا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم دونوں کی قراءت ٹھیک ہے۔‘‘ (راوی حدیث) شعبہ نے کہا: میرے خیال کے مطابق آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’اختلاف نہ کیا کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک ہوگئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان کے دو جز ہیں: پہلا یہ ہے کہ کسی شخص کو گرفتار کر کے دوسری جگہ لے جانا۔ اگر ملزم کسی جگہ ہو اور اس کے غائب ہونے یا بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اسے گرفتار کر کے دوسری جگہ منتقل کرنے یا اس کی نگرانی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جب ایک شخص کی قراءت سنی جو اس طریقے سے مختلف تھی جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی تو اسے پکڑ کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے۔ جب قرآن کریم بزعم خویش غلط پڑھنے پر پکڑ کے لے جانا درست ہے تو اپنے حق کے بدلے میں پکڑ کر لے جانے میں کیا حرج ہے؟ جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے دوسرے کی حیثیت بھی وہی ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں اسے ہاتھ سے پکڑنے کا ذکر ہے، امام بخاری ؒ نے اسی سے اپنے عنوان کو ثابت کیا ہے کیونکہ اس میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا پایا جاتا ہے۔ اس حدیث کے آخر میں اختلاف سے بچنے کی تلقین ہے کیونکہ طبعی اختلاف قابل مذمت نہیں بلکہ وہ اختلاف باعث ہلاکت ہے جو موجب افتراق و فساد ہو۔ اس میں شک نہیں کہ تفرقہ امت کو کمزور کرنے والی بیماری ہے جس سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ عبد الملک بن میسرہ نے مجھے خبر دی، کہا کہ میں نے نزال بن سمرہ سے سنا اور انہوں نے عبد اللہ بن مسعود سے سنا انہوں نہ کہا کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی ایک آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ رسول اللہﷺ سے ميں نے اس كے خلاف سنا تها۔ اس ليے ميں ان كا ہاتھ تھامے آپ کی خدمت میں لے گیا۔ آپ نے (میرا اعتراض سن کر) فرمایا کہ تم دوںوں درست پڑھتے ہو۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اختلاف نہ کیا کرو، کیوں کہ تم سے پہلے کے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اس شخص کو پکڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے گئے جب قرآن غلط پڑھنے پر پکڑ کر لے جانا درست ٹھہرا تو اپنے حق کے بدل بھی پکڑ کر لے جانا درست ہوگا جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے ویسا ہی دوسرا بھی۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ایسی چھوٹی باتوں میں لڑنا جھگڑنا، جنگ و جدل کرنا برا ہے۔ عبداللہ ؓ کو لازم تھا کہ اس سے دوسری طرح پڑھنے کی وجہ پوچھتے۔ جب وہ کہتا کہ میں نے آنحضرت ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے تو آپ سے دریافت کرتے۔ اس حدیث سے ان متعصب مقلدوں کو نصیحت لینا چاہئے، جو آمین اور رفع یدین اور اسی طرح کی باتوں پر لوگوں سے فساد اور جھگڑا کرتے ہیں۔ اگر دین کے کسی کام میں شبہ ہو تو کرنے والے سے نرمی اوراخلاق کے ساتھ اس کی دلیل پوچھے۔ جب وہ حدیث یا قرآن سے کوئی دلیل بتلا دے بس سکوت کرے۔ اب اس سے معترض نہ ہو۔ ہر مسلمان کو اختیارہے کہ جس حدیث پر چاہے عمل کرے، بشرطیکہ وہ حدیث بالاتفاق منسوخ نہ ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ اختلاف یہ نہیں ہے کہ ایک رفع یدین کرے، دوسرا نہ کرے۔ ایک پکا رکر آمین کہے ایک آہستہ۔ بلکہ اختلاف یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ناحق جھگڑے، اس کو ستائے۔ کیوں کہ آپ نے ان دونوں کی قراءتوں کو اچھا فرمایا۔ اور لڑنے جھگڑنے کوبرا کہا۔ و قال المظهري الاختلاف في القرآن غیر جائز لأن کل لفظ منه إذا جاز قراءته علی وجهین أو أکثر فلو أنکر أحد و أحد من ذینك الوجهین أو الوجوہ فقد أنکر القرآن ولا یجوز في القرآن بالرأي لأن القرآن سنة متبعة بل علیهما أن یسألا عن ذلك ممن هو أعلم منهما۔ (قسطلانی) یعنی مظہری نے کہا کہ قرآن مجید میں اختلاف کرنا ناجائز ہے کیوں کہ اس کا ہر لفظ جب اس کی قرات دونوں طریقوں پر جائز ہو تو ان میں سے ایک قرات کا انکار کرنا یا دونوں کا انکار یہ سارے قرآن کا انکار ہوگا۔ اور قرآن شریف کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید مسلسل طور پر نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ پس ان اختلاف کرنے والوں کو لازم تھا کہ اپنے سے زیادہ جاننے والے سے تحقیق کرلیتے۔ الغرض اختلاف جو موجب شقاق و افتراق و فساد ہو وہ اختلاف سخت مذموم ہے اور طبعی اختلاف مذموم نہیں ہے۔ حدیث باب سے یہ بھی نکلا کہ دعویٰ اور مقدمات میں ایک مسلمان کسی بھی غیر مسلم پر اور کوئی بھی غیر مسلم کسی بھی مسلمان پر اسلامی عدالت میں دعویٰ کرسکتا ہے۔ انصاف چاہنے کے لیے مدعی اور مدعا علیہ کا ہم مذہب ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA): I heard a man reciting a verse (of the Holy Qur'an) but I had heard the Prophet (ﷺ) reciting it differently. So, I caught hold of the man by the hand and took him to Allah's Apostle (ﷺ) who said, "Both of you are right." Shu'ba, the sub-narrator said, "I think he said to them, "Don't differ, for the nations before you differed and perished (because of their differences). "