باب : اگر شرارت کا ڈر ہو تو ملزم کا باندھنا درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Khusoomaat
(Chapter: Tying the person liable to do mischievous things)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عباسؓ نے ( اپنے غلام ) عکرمہ کو قرآن و حدیث اور دین کے فرائض سیکھنے کے لیے قید کیا۔
2422.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک دستہ روانہ کیا تو وہ لوگ قبیلہ بنی حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ لائے۔ وہ اہل یمامہ کا سردار ثمامہ بن اثال تھا۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا: ’’اے ثمامہ! اب تمہارے مزاج کا کیا حال ہے؟‘‘ اس نے کہا: اے محمد ﷺ ! میرے پاس تو اب خیر ہی خیر ہے۔ اس کے بعد پوری حدیث کا ذکر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ثمامہ کو آزاد کردو۔‘‘
تشریح:
(1) اگر کسی کی طرف سے تخریب کاری کا اندیشہ ہو تو اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اسے قید بھی کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کو پرامن رکھنے کے لیے جس شخص سے جرم ثابت ہو جائے، اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے اور جس شخص کی طرف سے اندیشہ ہو کہ وہ امن عامہ تباہ کر سکتا ہے تو حفاظت عامہ کی خاطر اسے بھی قید کیا جا سکتا ہے۔ اسے دور حاضر کی اصطلاح میں پبلک سیفٹی کہتے ہیں جسے آج کل حکومتیں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ (2) عہد نبوی میں کوئی الگ جیل خانہ نہ تھا، مسجد ہی سے کام لیا گیا، یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ثمامہ کو اسلام اور اہل اسلام کو دیکھنے کا بہت قریب سے موقع دیا جائے تاکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور اہل اسلام کے اوصاف حسنہ کا بغور مطالعہ کر سکے۔ بالآخر وہ رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات کسی انسان کو وقتی طور پر قید کرنا ضروری ہوتا ہے اور ایسا کرنا گناہ نہیں بلکہ نتیجے اور انجام کے لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2338
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2422
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2422
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2422
تمہید کتاب
لغوی طور پر خصومات، خصومت کی جمع ہے جس کے معنی لڑائی جھگڑے کے ہیں، لیکن یہاں اس قسم کا جھگڑا مراد ہے جو باہمی اختلاف کا باعث ہو۔ شریعت اسلامیہ میں کسی دینی یا دنیوی معاملے میں اختلاف برقرار رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کسی دنیوی معاملے میں اختلاف ہے تو کسی عدالت کی طرف رجوع کرنا ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اسی طرح اگر کوئی دینی اختلاف ہے یا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو مفتی کی طرف رجوع کیا جائے۔ اسے بھی قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دینا ہو گا۔ اس کے متعلق متعدد قرآنی نصوص ہیں۔ اختصار کے پیش نظر چند ایک پیش کی جاتی ہیں:ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّـهِ) "اور جس بات میں بھی تم اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔" (الشوریٰ10:42) چونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے، اس لیے باہمی اختلافات کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے۔ دنیا میں انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے اختلافات کا فیصلہ کرتا ہے اور قیامت کے دن کھلی عدالت میں خود فیصلے کرے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾) "اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کا کہا مانو، نیز اولی الامر کی بھی فرمانبرداری کرو، پھر اگر تمہارا کوئی جھگڑا ہو جائے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ تمہارے لیے یہ بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔" (النساء59:4)اس آیت میں واضح طور پر اختلاف اور جھگڑا ختم کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اسے کتاب اللہ اور سنت رسول پر پیش کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ سے تقلید جامد کی صراحت کے ساتھ نفی ہوتی ہے۔ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، تاہم اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس کے رسول کی اطاعت بھی اللہ ہی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کے اوامر و نواہی معلوم کرنے کا ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿٦٥﴾) "تمہارے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اختلاف میں آپ کو حاکم تسلیم نہ کر لیں، پھر آپ جو فیصلہ کریں اس کے متعلق اپنے دلوں میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں اور اس فیصلے پر سر تسلیم خم نہ کر دیں۔" (النساء65:4)ان قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلافات و تنازعات کو برقرار رکھنا اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ انہیں دور کرنے ہی میں عافیت اور خیروبرکت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے ہاں ایک مشہور حدیث ہے جس کے خود ساختہ ہونے میں کوئی شک نہیں: "میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہے" حقیقت یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت نہیں بلکہ زحمت کا موجب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ عنوان قائم کر کے ہمیں اختلافات کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے آداب، شرائط اور حدودوقیود کی وضاحت کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے انیس مرفوع روایات پیش کی ہیں جن میں تین معلق اور سولہ متصل ہیں۔ مرفوع روایات کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعینِ عظام سے مروی تقریباً پانچ آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے دس عنوان قائم کیے ہیں، چیدہ، چیدہ عنوانات حسب ذیل ہیں:٭ مسلمان اور یہودی کے درمیان جھگڑا ہو جانا۔ ٭ معاملے کے دو فریق کس حد تک ایک دوسرے کو کچھ کہہ سکتے ہیں؟ ٭ جرائم پیشہ اور شرارتی لوگوں کو گھروں سے نکال دیا جائے۔ ٭ جس آدمی سے خطرہ ہو اسے قید کیا جا سکتا ہے۔ ٭ خاص مقصد کے لیے کسی کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ ٭ حرم میں کسی کو باندھنا اور قید کرنا۔بہرحال اس عنوان کے تحت بہت سے مسائل زیر بحث آئیں گے جن کا تعلق لڑائی جھگڑے اور باہمی اختلافات سے ہے۔ ہماری معروضات کی روشنی میں ان کا مطالعہ مفید رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت عکرمہ ایک بربر غلام تھے۔ ان کے آقا نے انہیں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو بطور تحفہ دیا تھا۔ آپ نے انہیں آزاد کر کے اپنی تربیت میں لے لیا۔ طالب علم تو طالب علم ہی ہوتا ہے، وہ خود بتاتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جب باہر نکلتے تو میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتے تاکہ میں بھاگ نہ جاؤں۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:6/209)
اور عبداللہ بن عباسؓ نے ( اپنے غلام ) عکرمہ کو قرآن و حدیث اور دین کے فرائض سیکھنے کے لیے قید کیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے نجد کی طرف ایک دستہ روانہ کیا تو وہ لوگ قبیلہ بنی حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ لائے۔ وہ اہل یمامہ کا سردار ثمامہ بن اثال تھا۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھا: ’’اے ثمامہ! اب تمہارے مزاج کا کیا حال ہے؟‘‘ اس نے کہا: اے محمد ﷺ ! میرے پاس تو اب خیر ہی خیر ہے۔ اس کے بعد پوری حدیث کا ذکر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ثمامہ کو آزاد کردو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کسی کی طرف سے تخریب کاری کا اندیشہ ہو تو اس کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔ اسے قید بھی کیا جا سکتا ہے۔ معاشرے کو پرامن رکھنے کے لیے جس شخص سے جرم ثابت ہو جائے، اسے قانون کے مطابق سزا دی جاتی ہے اور جس شخص کی طرف سے اندیشہ ہو کہ وہ امن عامہ تباہ کر سکتا ہے تو حفاظت عامہ کی خاطر اسے بھی قید کیا جا سکتا ہے۔ اسے دور حاضر کی اصطلاح میں پبلک سیفٹی کہتے ہیں جسے آج کل حکومتیں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ (2) عہد نبوی میں کوئی الگ جیل خانہ نہ تھا، مسجد ہی سے کام لیا گیا، یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ثمامہ کو اسلام اور اہل اسلام کو دیکھنے کا بہت قریب سے موقع دیا جائے تاکہ وہ اسلام کی خوبیوں اور اہل اسلام کے اوصاف حسنہ کا بغور مطالعہ کر سکے۔ بالآخر وہ رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات کسی انسان کو وقتی طور پر قید کرنا ضروری ہوتا ہے اور ایسا کرنا گناہ نہیں بلکہ نتیجے اور انجام کے لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ا بن عباس ؓ نے حضرت عکرمہ کو قر آن وسنت اور سنن وفرائض کی تعلیم کے لیے قید کیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ کو یہ کہتے سنا کہ رسول کریم ﷺ نے چند سواروں کا ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا۔ یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا اور جو اہل یمامہ کا سردار تھا، پکڑ لائے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول کریم ﷺ تشریف لائے اورآپ نے پوچھا، ثمامہ ! تو کس خیال میں ہے؟ انہوں نے کہا اے محمد (ﷺ) میں اچھا ہوں۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔
حدیث حاشیہ:
کئی دفعہ کی گفتگو میں ثمامہ اخلاق نبوی سے حد درجہ متاثر ہو چکا تھا۔ اس نے آپ سے ہر بار کہا تھا کہ آپ اگر میرے ساتھ اچھا برتاؤ کریں تو میں اس کی ناقدری نہیں کروں گا چنانچہ یہی ہوا۔ آپ نے اسے بخوشی اعزاز و اکرام کے ساتھ آزاد فرما دیا۔ وہ فوراً ہی ایک کنویں پر گیا اور غسل کرکے آیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ پس ترجمۃ الباب ثابت ہوا کہ بعض حالات میں کسی انسان کا کچھ وقت کے لیے مقید کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور ایسی حالت میں یہ گناہ نہیں ہے بلکہ نتیجہ کے لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔ عہد نبوی انسانی تمدن کا ابتدائی دور تھا، کوئی جیل خانہ الگ نہ تھا۔ لہٰذا مسجد ہی سے یہ کام بھی لیا گیا۔ اور اس لیے بھی کہ ثمامہ کو مسلمانوں کو دیکھنے کا بہت ہی قریب سے موقع دیا جائے اور وہ اسلام کی خوبیوں اور مسلمانوں کے اوصاف حسنہ کو بغور معائنہ کرسکے۔ خصوصاً اخلاق محمدی نے اسے بہت ہی زیادہ متاثر کیا۔ سچ ہے : آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ترجمۃ الباب الفاظ فربطوہ بساریة من سواري المسجد سے نکلتا ہے۔ قاضی شریح جب کسی پر کچھ حکم کرتے اور اس کے بھاگ جانے کا ڈر ہوتا تو مسجد میں اس کو حراست میں رکھنے کا حکم دیتے۔ جب مجلس برخاست کرتے، اگر وہ اپنے ذمے کا حق ادا کردیتا تو اس کو چھوڑ دیتے ورنہ قید خانے میں بھجوا دیتے۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ ہر صبح کو ثمامہ کے پاس تشریف لے جاتے اور اس کا مزاج اور حالات دریافت فرماتے۔ وہ کہتا کہ اگر آپ مجھ کو قتل کرادیں گے تو میرا بدلہ لینے والے لوگ بہت ہیں۔ اور اگر آپ مجھ کو چھور دیں گے تو میں آپ کا بہت بہت احسان مند رہوں گا۔ اور اگر آپ میری آزادی کے عوض روپیہ چاہتے ہیں تو جس قدر آپ فرمائیں گے آپ کو روپیہ دوں گا۔ کئی روز تک معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔ آخر ایک روز رحمۃ للعالمین ﷺ نے ثمامہ کو بلا شرط آزاد کرا دیا۔ جب وہ چلنے لگا تو صحابہ کو خیال ہوا کہ شاید یہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ مگر ثمامہ ایک درخت کے نیچے گیا، جہاں پانی موجود تھا۔ وہاں اس نے غسل کیا اور پاک صاف ہو کر دربار رسالت میں حاضر ہوا۔ اور کہا کہ حضور اب میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ فوراً ہی اس نے کلمہ شہادت أشهد أن لا إله إلا اللہ و أشهد أن محمداً رسول اللہ پڑھا اور صدق دل سے مسلمان ہو گیا۔ رضي اللہ عنه أرضاہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) sent horsemen to Najd and they arrested and brought a man called Thumama bin Uthal, the chief of Yamama, and they fastened him to one of the pillars of the Mosque. When Allah's Apostle (ﷺ) came up to him; he asked, "What have you to say, O Thumama?" He replied, "I have good news, O Muhammad (ﷺ) !" Abu Hurairah (RA) narrated the whole narration which ended with the order of the Prophet (ﷺ) "Release him!"