باب: اور جب لقطہ کا مالک اس کی صحیح نشانی بتا دے تو اسے اس کے حوالہ کر دے
)
Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: Owner's proof)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2426.
سوید بن غفلہ ؓ کہتے ہیں، میں حضرت ابی بن کعب ؓ سے ملاتو انھوں نے کہا: میں نے ایک تھیلی اٹھائی جس میں سودینار تھے۔ میں اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے فرمایا: ’’سال بھر اس کی تشہیر کرتے رہو۔‘‘ میں ایک سال تک دریافت کرتا رہا لیکن کوئی ایسا شخص نہ ملا جو اسے جانتا ہو۔ پھر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ایک سال اور تشہیر کرو۔‘‘ میں اس کے متعلق دریافت کرتا رہا لیکن کسی کو نہیں پایا۔ پھر میں تیسری مرتبہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’تھیلی کی شناخت کرلو، رقم گن لو، بصورت دیگر اسے کام میں لاؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ شعبہ کہتے ہیں: میں اپنے استاد حضرت سلمہ سے(عرصہ کے بعد) مکہ میں ملا تو کہنے لگے: مجھے یاد نہیں کہ تین سال یا ایک سال تشہیر کے لیے فرمایا تھا۔
تشریح:
(1) گمشدہ چیز کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے کا مال ہے، اس کی اجازت کے بغیر اسے اٹھانا درست نہیں۔ بعض کے نزدیک اٹھانا جائز ہے مگر نہ اٹھانا بہتر ہے، ممکن ہے کہ اس کا مالک تلاش کرتے کرتے اسی جگہ پہنچ جائے، لیکن عام محدثین اور فقہاء کا موقف ہے کہ چھوڑ دینے سے اس کا اٹھا لینا بہتر ہے کیونکہ گمشدہ مال بہرحال ضائع نہیں ہونا چاہیے اور نہ آسانی سے اسے ہضم ہی کیا جا سکتا ہے۔ (2) گری پڑی چیز کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ وہ حقیر اور معمولی سی چیز ہو، عموماً مالک اسے تلاش نہیں کرتا۔ اسے اٹھا لینا اور اس سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ اگر مالک اس کے ہاتھ میں دیکھ لے تو واپس بھی لے سکتا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ وہ چیز قیمتی اور کثیر مال ہو جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کا مالک اسے ضرور تلاش کرے گا۔ اسے اٹھا لیا جائے گا۔ اٹھانے والا اس کا بیگ یا بٹوہ وغیرہ اچھی طرح پہچان لے، اس کی رقم گن لے اور اس کے بندھن یا زنجیر کو بھی نظر میں رکھے۔ مساجد، شارع عام، بازار اور پبلک مقامات پر اس کی تشہیر کرے، بالخصوص جہاں سے وہ چیز ملی ہے اس کے آس پاس خوب اعلان کیا جائے۔ ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔ اس دوران میں اگر کوئی آ جائے اور نشانی بتائے تو اس کے حوالے کر دیا جائے، بصورت دیگر بطور امانت اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ اس کے بعد بھی جب کبھی اس کا مالک مل جائے تو اسے ادا کرنا ضروری ہے۔ (3) روایت کے آخر میں تین سال یا ایک سال کا ذکر ہے، اس کے متعلق محتاط موقف یہ ہے کہ ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔ ایک سال سے زیادہ تشہیر کرنا مزید تقویٰ اور پرہیزگاری کی علامت ہے، واجب نہیں، تاہم اکثر محدثین نے تین سال کے الفاظ کو راوئ حدیث ’’سلمہ بن کہیل‘‘ کی خطا قرار دیا ہے۔ دیگر روایات کے پیش نظر جو بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے وہ ایک سال تک تشہیر ہے کیونکہ یہ مال کسی کا ہے اس کے جائز ہونے کے لیے کوئی دلیل ہونی چاہیے۔ شریعت نے ایک شرط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا ہے کہ اس کے متعلق ایک سال تک اعلان کیا جائے۔ مزید برآں اس کی حفاظت بھی کی جائے تاکہ وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ (4) اس حدیث میں نشانی بتانے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ٹھیک ٹھیک نشانی بتانے کا ذکر ہے۔ نشانی بتانے کے بعد گمشدہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے، مزید گواہوں کی ضرورت نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2342
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2426
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2426
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2426
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
لفظ لقطۃ کا مصدر لقط ہے جس کے معنی چن لینا، زمین پر سے اٹھا لینا، سینا، رفو کرنا، انتخاب کرنا، چونچ سے اٹھانا ہے۔ اسی سے لفظ ملاقطۃ اور التقاط ہیں۔ جن کے معانی برابر ہونا ہیں۔ اور تلقط اور التقاط کے معنی ادھر ادھر سے جمع کرنا چننا ہیں۔ آیات قرآنی اور احادیث نبوی میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ جن کی تشریحات اپنے اپنے مقامات پر ہوں گی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : ( فی اللقطة ) بضم اللام و فتح القاف و یجوز اسکانها و المشہور عند المحدثین فتحها قال الازہری وهو الذی سمع من العرب و اجمع علیہ اہل اللغة و الحدیث ویقال لقاطة بضم اللام و لقط بفتحہا بلا ہاءو ہی فی اللغة الشی الملقوط و شرعا ما وجد من حق ضائع محترم غیر محرز و لا ممتنع بقوتہ و لا یعرف الواجد مستحقه و فی الالتقاط معنی الامانة و الولایة من حیث ان الملتقط امین فیما التقطه و الشرع ولاہ حفطه کالولی فی مال الطفل و فیه معنی الاکتساب من حیث ان له التملک بعد التعریف ( القسطلانی ) مختصر یہ کہ لفظ لقطہ لام کے ضمہ اور قاف کے فتحہ کے ساتھ ہے اور اس کو ساکن پڑھنا بھی جائز ہے مگر محدثین اور لغت والوں کے ہاں فتحہ کے ساتھ ہی مشہور ہے۔ عرب کی زبانوں سے ایسا ہی سنا گیا ہے۔ لغت میں لقطہ کسی گری پڑی چیز کو کہتے ہیں۔ اور شریعت میں ایسی چیز جو پڑی ہوئی پائے جائے اور وہ کسی بھی آدمی کے حق ضائع سے متعلق ہو اور پانے والا اس کے مالک کو نہ پائے۔ اور لفظ التقاط میں امانت اور روایت کے معانی بھی مشتمل ہیں۔ ا س لیے کہ ملتقط امین ہے اس مال کا جو اس نے پایا ہے اور شرعاً وہ ا س مال کی حفاظت کا ذمہ دار ہے جیسے بچے کے مال کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور اس میں اکتساب کے معانی بھی ہیں کہ پہچنوانے کے بعد اگر اس کا مالک نہ ملے تو اس چیز میں اس کا حق ملکیت ثابت ہوجاتا ہے۔
سوید بن غفلہ ؓ کہتے ہیں، میں حضرت ابی بن کعب ؓ سے ملاتو انھوں نے کہا: میں نے ایک تھیلی اٹھائی جس میں سودینار تھے۔ میں اسے لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے فرمایا: ’’سال بھر اس کی تشہیر کرتے رہو۔‘‘ میں ایک سال تک دریافت کرتا رہا لیکن کوئی ایسا شخص نہ ملا جو اسے جانتا ہو۔ پھر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’ایک سال اور تشہیر کرو۔‘‘ میں اس کے متعلق دریافت کرتا رہا لیکن کسی کو نہیں پایا۔ پھر میں تیسری مرتبہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’تھیلی کی شناخت کرلو، رقم گن لو، بصورت دیگر اسے کام میں لاؤ۔‘‘ چنانچہ میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔ شعبہ کہتے ہیں: میں اپنے استاد حضرت سلمہ سے(عرصہ کے بعد) مکہ میں ملا تو کہنے لگے: مجھے یاد نہیں کہ تین سال یا ایک سال تشہیر کے لیے فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) گمشدہ چیز کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے کا مال ہے، اس کی اجازت کے بغیر اسے اٹھانا درست نہیں۔ بعض کے نزدیک اٹھانا جائز ہے مگر نہ اٹھانا بہتر ہے، ممکن ہے کہ اس کا مالک تلاش کرتے کرتے اسی جگہ پہنچ جائے، لیکن عام محدثین اور فقہاء کا موقف ہے کہ چھوڑ دینے سے اس کا اٹھا لینا بہتر ہے کیونکہ گمشدہ مال بہرحال ضائع نہیں ہونا چاہیے اور نہ آسانی سے اسے ہضم ہی کیا جا سکتا ہے۔ (2) گری پڑی چیز کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ وہ حقیر اور معمولی سی چیز ہو، عموماً مالک اسے تلاش نہیں کرتا۔ اسے اٹھا لینا اور اس سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ اگر مالک اس کے ہاتھ میں دیکھ لے تو واپس بھی لے سکتا ہے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ وہ چیز قیمتی اور کثیر مال ہو جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کا مالک اسے ضرور تلاش کرے گا۔ اسے اٹھا لیا جائے گا۔ اٹھانے والا اس کا بیگ یا بٹوہ وغیرہ اچھی طرح پہچان لے، اس کی رقم گن لے اور اس کے بندھن یا زنجیر کو بھی نظر میں رکھے۔ مساجد، شارع عام، بازار اور پبلک مقامات پر اس کی تشہیر کرے، بالخصوص جہاں سے وہ چیز ملی ہے اس کے آس پاس خوب اعلان کیا جائے۔ ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔ اس دوران میں اگر کوئی آ جائے اور نشانی بتائے تو اس کے حوالے کر دیا جائے، بصورت دیگر بطور امانت اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ اس کے بعد بھی جب کبھی اس کا مالک مل جائے تو اسے ادا کرنا ضروری ہے۔ (3) روایت کے آخر میں تین سال یا ایک سال کا ذکر ہے، اس کے متعلق محتاط موقف یہ ہے کہ ایک سال تک اس کی تشہیر ضروری ہے۔ ایک سال سے زیادہ تشہیر کرنا مزید تقویٰ اور پرہیزگاری کی علامت ہے، واجب نہیں، تاہم اکثر محدثین نے تین سال کے الفاظ کو راوئ حدیث ’’سلمہ بن کہیل‘‘ کی خطا قرار دیا ہے۔ دیگر روایات کے پیش نظر جو بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے وہ ایک سال تک تشہیر ہے کیونکہ یہ مال کسی کا ہے اس کے جائز ہونے کے لیے کوئی دلیل ہونی چاہیے۔ شریعت نے ایک شرط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا ہے کہ اس کے متعلق ایک سال تک اعلان کیا جائے۔ مزید برآں اس کی حفاظت بھی کی جائے تاکہ وہ ضائع نہ ہونے پائے۔ (4) اس حدیث میں نشانی بتانے کا ذکر نہیں ہے، تاہم امام بخاری ؒ نے عنوان قائم کر کے ان روایات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ٹھیک ٹھیک نشانی بتانے کا ذکر ہے۔ نشانی بتانے کے بعد گمشدہ چیز اس کے حوالے کر دی جائے، مزید گواہوں کی ضرورت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر نے، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابی بن کعب ؓ سے ملاقات کی تو انہوں نے کہا کہ میں نے سو دینار کی ایک تھیلی (کہیں راستے میں پڑی ہوئی) پائی۔ میں اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا تو آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے پہچان سکتا۔ ا س لیے میں پھر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کاا علان کرتا رہ۔ میں نے پھر (سال بھر) اعلان کیا۔ لیکن ان کا مالک مجھے نہیں ملا۔ تیسری مرتبہ حاضر ہوا، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس تھیلی کی بناوٹ، دینار کی تعداد اور تھیلی کے بندھن کو محفوظ رکھ۔ اگر اس کا مالک آجائے تو (علامت پوچھ کے) اسے واپس کر دینا، ورنہ اپنے خرچ میں اسے استعمال کرلے چنانچہ میں اسے اپنے اخراجات میں لایا۔ (شعبہ نے بیان کیا کہ) پھر میں نے سلمہ سے اس کے بعد مکہ میں ملاقات کی تو انہوں کہا کہ مجھے یاد نہیں رسول کریم ﷺ نے (حدیث میں) تین سال تک (اعلان کرنے کے لیے فرمایا تھا) یا صرف ایک سال کے لیے۔
حدیث حاشیہ:
روایت کے آخری الفاظ تین سال یا ایک سال کے متعلق حضرت علامہ قسطلانی ؒ فرماتے ہیں : ولم یقل أحد بأن اللقطة تعرف ثلاثة أحوال والشك یوجب سقوط المشکوك فیه و هو الثلاثة فوجب العمل بالجزم و هو روایة العام الواحد الخ (قسطلانی) یعنی کسی نے نہیں کہا کہ لقطہ کو تین سال تک پہچنوایا جائے اور شک سے مشکوک فیہ خود ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ جو یہاں تین سال ہے پس پختہ چیز پر عمل واجب ہوا اور وہ ایک ہی سال کے لیے ہے۔ بعض اور روایتوں میں بھی تین سال کا ذکر آیا ہے۔ مگر وہ مزید احتیاط اور تورع پر مبنی ہے۔ اگر پانے والا غریب اور محتاج ہے تو مقررہ مدت تک اعلان کے بعد مالک کو نہ پانے کی صورت میں اسے وہ اپنی ضروریات پر خرچ کرسکتا ہے۔ اور اگر کسی محتاج کو بطور صدقہ دے دے تو اور بھی بہتر ہوگا۔ ا س پر سب کا اتفاق ہے کہ جب مالک مل جائے تو بہر صورت اسے وہ چیز واپس لوٹانی پڑے گی، خواہ ایک مدت تک اعلان کرتے رہنے کے بعد اسے اپنی ضروریات میں خرچ ہی کیوں نہ کرچکا ہو۔ امانت و دیانت سے متعلق اسلام کی یہ وہ پاک ہدایات ہیں جن پر بجا طور پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ آج بھی ارض حرم میں ایسی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں کہ ایک چیز لقطہ ہے مگر دیکھنے والے ہاتھ تک نہیں لگاتے بلکہ وہ چیز اپنی جگہ پڑی رہتی ہے۔ خود 1389ھ کے حج میں میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے واقعات دیکھے۔ کیوں کہ اٹھانے والا سوچ رہا تھا کہ کہاں پہچنواتا پھرے گا۔ بہتر ہے کہ اس کو ہاتھ ہی نہ لگائے۔ اللہ پاک آج کے نوجوانوں کو توفیق دے کہ وہ حقائق اسلام کو سمجھ کر اسلام جیسی نعمت سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کریں اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے راستے کو اپنائیں۔ حضرت ابی بن کعب ؓ انصاری خزرجی ہیں۔ یہ کاتب وحی تھے۔ اور ان چھ خوش نصیب اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے عہد رسالت ہی میں پورا قرآن شریف حفظ کر لیا تھا، اور ان فقہائے اسلام میں سے ہیں جو آپ کے عہد مبارک میں فتوی دینے کے مجاز تھے۔ صحابہ میں قرآن شریف کے اچھے قاری کی حیثیت سے مشہور تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو سید الانصار کا خطاب بخشا۔ اور حضرت عمر ؓ نے سید المسلمین کے خطاب سے نوازا تھا۔ آپ کی وفات مدینہ طیبہ ہی میں 19ھ میں واقع ہوئی۔ آپ سے کثیر مخلوق نے روایات نقل کی ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ubai bin Ka'b (RA): I found a purse containing one hundred Diners. So I went to the Prophet (ﷺ) (and informed him about it), he said, "Make public announcement about it for one year" I did so, but nobody turned up to claim it, so I again went to the Prophet (ﷺ) who said, "Make public announcement for another year." I did, but none turned up to claim it. I went to him for the third time and he said, "Keep the container and the string which is used for its tying and count the money it contains and if its owner comes, give it to him; otherwise, utilize it." The sub-narrator Salama said, "I met him (Suwaid, another sub-narrator) in Makkah and he said, 'I don't know whether Ubai made the announcement for three years or just one year.' "