Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: Lost camels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2427.
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے گری پڑی چیز کو اٹھانے کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سال بھر اس کی تشہیر کرو، پھر اس کی تھیلی اور بندھن کو اچھی طرح پہچان لو، اگر کوئی آئے اور ٹھیک ٹھیک نشانی بتادے تو اس کے حوالے کردہ بصورت دیگر اسے اپنے مصرف میں لاؤ۔‘‘ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! بھٹکی ہوئی بکری کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ’’وہ تیرے لیے ہے یا تیرے کسی بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے۔‘‘ پھر اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیاتو (غصے سے) نبی ﷺ کاچہرہ متغیر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ساتھ اس کا جوتا اور پانی کا مشکیزہ ہے۔ وہ چشموں سے خود پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا۔‘‘
تشریح:
(1) اونٹ کو ریگستان کا جہاز کہا جاتا ہے۔ راستوں کے متعلق اونٹ بہت مہارت رکھتے ہیں۔ گم ہونے کی صورت میں عام طور پر وہ کسی نہ کسی دن گھر پہنچ جاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود جنگل کی جھاڑیوں میں چرے گا اور کسی چشمے سے پانی پی لے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے گا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حیوانات جو چھوٹے درندوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، مثلاً: اونٹ، گھوڑا، گائے اور بیل وغیرہ یا اڑنے والے پرندے، انہیں پکڑنا جائز نہیں۔ (3) ہمارے رجحان کے مطابق حدیث میں مذکور حکم جنگل کے لیے ہے۔ اگر کسی بستی میں اونٹ ملے تو اسے پکڑ لینا چاہیے تاکہ مسلمان کا مال ضائع نہ ہو اور وہ خود بھی کسی کی فصل خراب نہ کرے، پھر اسے نہ پکڑنے سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی چور ڈاکو کے ہاتھ لگ جائے گا۔ دورِ حاضر میں تو کسی مقام پر امن نہیں، ہر جگہ چور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں، اس بنا پر جہاں بھی کسی بھائی کا گمشدہ جانور ملے تو حفاظت کی غرض سے پکڑ لیا جائے یا اسے حکومت کے قائم کردہ کانجی ہاؤس میں پہنچا دیا جائے۔ مالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گمشدہ جانور کے متعلق کانجی ہاؤس سے رابطہ کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2343
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2427
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2427
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2427
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے گری پڑی چیز کو اٹھانے کے متعلق سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’سال بھر اس کی تشہیر کرو، پھر اس کی تھیلی اور بندھن کو اچھی طرح پہچان لو، اگر کوئی آئے اور ٹھیک ٹھیک نشانی بتادے تو اس کے حوالے کردہ بصورت دیگر اسے اپنے مصرف میں لاؤ۔‘‘ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول ﷺ ! بھٹکی ہوئی بکری کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ’’وہ تیرے لیے ہے یا تیرے کسی بھائی کے لیے یا بھیڑیے کے لیے ہے۔‘‘ پھر اس نے گمشدہ اونٹ کے متعلق سوال کیاتو (غصے سے) نبی ﷺ کاچہرہ متغیر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ساتھ اس کا جوتا اور پانی کا مشکیزہ ہے۔ وہ چشموں سے خود پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اونٹ کو ریگستان کا جہاز کہا جاتا ہے۔ راستوں کے متعلق اونٹ بہت مہارت رکھتے ہیں۔ گم ہونے کی صورت میں عام طور پر وہ کسی نہ کسی دن گھر پہنچ جاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے پکڑنے کی ضرورت نہیں۔ وہ خود جنگل کی جھاڑیوں میں چرے گا اور کسی چشمے سے پانی پی لے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے گا۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حیوانات جو چھوٹے درندوں سے اپنی حفاظت کر سکتے ہیں، مثلاً: اونٹ، گھوڑا، گائے اور بیل وغیرہ یا اڑنے والے پرندے، انہیں پکڑنا جائز نہیں۔ (3) ہمارے رجحان کے مطابق حدیث میں مذکور حکم جنگل کے لیے ہے۔ اگر کسی بستی میں اونٹ ملے تو اسے پکڑ لینا چاہیے تاکہ مسلمان کا مال ضائع نہ ہو اور وہ خود بھی کسی کی فصل خراب نہ کرے، پھر اسے نہ پکڑنے سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی چور ڈاکو کے ہاتھ لگ جائے گا۔ دورِ حاضر میں تو کسی مقام پر امن نہیں، ہر جگہ چور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں، اس بنا پر جہاں بھی کسی بھائی کا گمشدہ جانور ملے تو حفاظت کی غرض سے پکڑ لیا جائے یا اسے حکومت کے قائم کردہ کانجی ہاؤس میں پہنچا دیا جائے۔ مالک کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گمشدہ جانور کے متعلق کانجی ہاؤس سے رابطہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور انس ے زید بن خالد جہنی ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں بند رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے (تو اسے اس کا مال واپس کر دے) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی (مالک) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیاہو؟ اس پر رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ (جن سے وہ چلے گا) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔
حدیث حاشیہ:
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے ربیعہ نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور انس ے زید بن خالد جہنی ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا۔ اور راستے میں پڑی ہوئی کسی چیز کو اٹھانے کے بارے میں آپ سے سوال کیا۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں بند رکھ۔ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دے (تو اسے اس کا مال واپس کر دے) ورنہ اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ صحابی نے پوچھا، یا رسول اللہ ! ایسی بکری کا کیا کیا جائے جس کے مالک کا پتہ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ وہ یا تو تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی (مالک) کو مل جائے گی یا پھر بھیڑئیے کا لقمہ بنے گی۔ صحابہ نے پھر پوچھا اور اس اونٹ کا کیا کیا جائے جو راستہ بھول گیاہو؟ اس پر رسول کریم ﷺ کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر ہیں۔ (جن سے وہ چلے گا) اس کا مشکیزہ ہے، پانی پر وہ خود پہنچ جائے گا۔ اور درخت کے پتے وہ خود کھا لے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani (RA): A bedouin went to the Prophet (ﷺ) and asked him about picking up a lost thing. The Prophet (ﷺ) said, "Make public announcement about it for one year. Remember the description of its container and the string with which it is tied; and if somebody comes and claims it and describes it correctly, (give it to him); otherwise, utilize it." He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What about a lost sheep?" The Prophet (ﷺ) said, "It is for you, for your brother (i.e. its owner), or for the wolf." He further asked, "What about a lost camel?" On that the face of the Prophet (ﷺ) became red (with anger) and said, "You have nothing to do with it, as it has its feet, its water reserve and can reach places of water and drink, and eat trees."