Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: Lost sheep)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2428.
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سے گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق سوال ہواتو میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اس کی تھیلی اور بندھن کو خوب پہچان لو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو۔‘‘ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں(کہ آپ نے یہ بھی فرمایا:)اگر اس کے مالک کا پتا نہ چلے تو جس کو وہ چیز ملی ہوا سے خرچ کرسکتا ہے، البتہ وہ چیز اس کے پاس امانت ہوگی۔ یحییٰ کہتے ہیں: مجھے علم نہیں کہ وہ(امانت کے الفاظ) رسول اللہ ﷺ کی بات کاحصہ ہیں یا یزید نے اپنی طرف سے کہے ہیں؟ پھر پوچھا: بھولی بھٹکی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہوگی (جب اصل مالک نہ ملے) یا تمہارے کسی اور بھائی کی یاوہ بھیڑیے کی نذر ہے۔‘‘ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں کہ بکری کا بھی اعلان کیاجاتا رہے۔ پھر پوچھا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، اس کے ساتھ اس کاجوتا ہے اور مشکیزہ بھی اس کے پاس ہے، چشمے پر پہنچ کر پانی پی لے گا اور جھاڑیوں سے پتے کھالے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اسے خود پالے گا۔‘‘
تشریح:
(1) بکری جو ریوڑ سے الگ ہو جائے اور ریوڑ میں شامل ہونے کا کوئی راستہ نہ پائے اور نہ اس کے مالک ہی کا پتہ چلے، ایسی بکری حفاظت کی محتاج ہے، بصورت دیگر کوئی بھیڑیا نما انسان یا حقیقی بھیڑیا دبوچ لے گا، اس طرح وہ ضائع ہو جائے گی۔ اس کی بھی تشہیر کی جائے، جب تک اس کا مالک نہ ملے پکڑنے والا اسے اپنے پاس رکھے اور اس کا دودھ وغیرہ پیتا رہے کیونکہ اس نے اس کے چارے کا بندوبست کیا ہے۔ آج کل بھٹکے ہوئے جانوروں کے لیے کانجی ہاؤس بنے ہوئے ہیں، انہیں وہاں پہنچا دیا جائے اور ان کا جو ضابطہ ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ (2) راوئ حدیث کہتے ہیں: ’’ایسا مال امانت ہو گا۔‘‘ اس فقرے کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے یا شیخ محترم یزید کی طرف سے اضافہ، لیکن صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ فقرہ حدیث کا حصہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمودہ ہے۔ (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4502(1722)) البتہ یہ ایسی امانت ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اس کی مزید وضاحت آئندہ ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2344
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2428
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2428
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2428
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سے گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق سوال ہواتو میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اس کی تھیلی اور بندھن کو خوب پہچان لو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو۔‘‘ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں(کہ آپ نے یہ بھی فرمایا:)اگر اس کے مالک کا پتا نہ چلے تو جس کو وہ چیز ملی ہوا سے خرچ کرسکتا ہے، البتہ وہ چیز اس کے پاس امانت ہوگی۔ یحییٰ کہتے ہیں: مجھے علم نہیں کہ وہ(امانت کے الفاظ) رسول اللہ ﷺ کی بات کاحصہ ہیں یا یزید نے اپنی طرف سے کہے ہیں؟ پھر پوچھا: بھولی بھٹکی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہوگی (جب اصل مالک نہ ملے) یا تمہارے کسی اور بھائی کی یاوہ بھیڑیے کی نذر ہے۔‘‘ (راوی حدیث) یزید کہتے ہیں کہ بکری کا بھی اعلان کیاجاتا رہے۔ پھر پوچھا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، اس کے ساتھ اس کاجوتا ہے اور مشکیزہ بھی اس کے پاس ہے، چشمے پر پہنچ کر پانی پی لے گا اور جھاڑیوں سے پتے کھالے گا یہاں تک کہ اس کا مالک اسے خود پالے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بکری جو ریوڑ سے الگ ہو جائے اور ریوڑ میں شامل ہونے کا کوئی راستہ نہ پائے اور نہ اس کے مالک ہی کا پتہ چلے، ایسی بکری حفاظت کی محتاج ہے، بصورت دیگر کوئی بھیڑیا نما انسان یا حقیقی بھیڑیا دبوچ لے گا، اس طرح وہ ضائع ہو جائے گی۔ اس کی بھی تشہیر کی جائے، جب تک اس کا مالک نہ ملے پکڑنے والا اسے اپنے پاس رکھے اور اس کا دودھ وغیرہ پیتا رہے کیونکہ اس نے اس کے چارے کا بندوبست کیا ہے۔ آج کل بھٹکے ہوئے جانوروں کے لیے کانجی ہاؤس بنے ہوئے ہیں، انہیں وہاں پہنچا دیا جائے اور ان کا جو ضابطہ ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ (2) راوئ حدیث کہتے ہیں: ’’ایسا مال امانت ہو گا۔‘‘ اس فقرے کے متعلق معلوم نہیں ہو سکا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے یا شیخ محترم یزید کی طرف سے اضافہ، لیکن صحیح مسلم کی روایت کے مطابق یہ فقرہ حدیث کا حصہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کا فرمودہ ہے۔ (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4502(1722)) البتہ یہ ایسی امانت ہے جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اس کی مزید وضاحت آئندہ ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، انہوں نے زید بن خالد سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ سے لقطہ کے متعلق پوچھا گیا۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اس کے برتن کی بناوٹ اور اس کے بندھن کو ذہن میں رکھ، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ یزید بیان کرتے تھے کہ اگر اسے پہچاننے والا (اس عرصہ میں) نہ ملے تو پانے والے کو اپنی ضروریات میں خرچ کر لینا چاہئے۔ اور یہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہوگا۔ اس آخری ٹکڑے (کہ اس کے پا س امانت کے طور پر ہو گا) کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے یا خود انہوں نے اپنی طرف سے یہ بات کہی ہے۔ پھر پوچھا، راستہ بھولی ہوئی بکری کے متعلق آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو۔ وہ یا تمہاری ہوگی (جب کہ اصل مالک نہ ملے) یا تمہارے بھائی (مالک) کے پاس پہنچ جائے گی، یا پھر اسے بھیڑیا اٹھا لے جائے گا۔ یزید نے بیان کیا کہ اس کا بھی اعلان کیا جائے گا۔ پھر صحابی نے پوچھا، راستہ بھولے ہوئے اونٹ کے بارے میں آپ کا کیا ارشاد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے آزاد رہنے دو، اس کے ساتھ اس کے کھر بھی ہیں اور اس کا مشکیزہ بھی، خود پانی پر پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا اور اس طرح وہ اپنے مالک تک پہنچ جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
یحییٰ کی دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فقرہ کہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہوگا۔ حدیث میں داخل ہے۔ اس کو امام مسلم اور اسماعیلی نے نکالا۔ امانت کا مطلب یہ ہے کہ جب اس کا مالک آجائے تو پانے والے کو یہ مال ادا کرنا لازم ہوگا۔ بکری اگر مل جائے تو اس کے بارے میں بھی اس کے مالک کا تلاش کرنا ضروری ہے۔ جب تک مالک نہ ملے پانے والا اپنے پاس رکھے اور اس کا دودھ پئے کیوں کہ ا س پر وہ کھلانے پر خرچ بھی کرے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sulaiman bin Bilal (RA) from Yahya (RA): Yazid Maula Al-Munba'ith heard Zaid bin Khalid al-Juham saying, "The Prophet (ﷺ) was asked about Luqata. He said, 'Remember the description of its container and the string it is tied with, and announce it publicly for one year.' " Yazid added, "If nobody claims then the person who has found it can spend it, and it is regarded as a trust entrusted to him." Yahya said, "I do not know whether the last sentences were said by the Prophet (ﷺ) or by Yazid." Zaid further said, "The Prophet (ﷺ) was asked, 'What about a lost sheep?' The Prophet (ﷺ) said, 'Take it, for it is for you or for your brother (i.e. its owner) or for the wolf." Yazid added that it should also be announced publicly. The man then asked the Prophet (ﷺ) about a lost camel. The Prophet (ﷺ) said, "Leave it, as it has its feet, water container (reservoir), and it will reach a place of water and eat trees till its owner finds it."