باب: پکڑی ہوئی چیز کا مالک اگر ایک سال تک نہ ملے تو وہ پانے والے کی ہو جائے گی
)
Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: If the owner of a lost thing is not found for one year)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2429.
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گری پڑی چیز کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کی ہتھیلی اور بندھن کو پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، اگر اس دوران میں اس کامالک آجائے تو بہتر، بصورت دیگر تجھے اختیار ہے۔‘‘ اس نے پوچھا کہ بھٹکی ہوئی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی۔‘‘ اس نے پھر دریافت کیا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ’’تمھیں اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ہمراہ اس کا مشکیزہ اور جوتا ہے وہ پانی خود پی لے گا اور پتے کھالے گا، یہاں تک کہ اس کامالک اسے خود پالےگا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں ’’تجھے اختیار ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تیرے لیے اس میں تصرف کرنا جائز ہو گا، لیکن جب اس کا مالک مل جائے تو وہ چیز یا اس کا بدل دینا لازم ہو گا۔ (2) اسلام نے گری پڑی اشیاء کی بڑی حفاظت کی ہے۔ ان کے اٹھانے والوں کو اسی صورت میں اٹھانے کی اجازت ہے کہ وہ انہیں اصل مالک تک لے جانے کی کوشش کریں۔ انہیں ہضم کرنے کے لیے ہرگز ہرگز نہ اٹھائیں۔ بعض ائمہ کا موقف ہے کہ اگر کوئی جنگل میں بھٹکی ہوئی بکری پائے اور تشہیر کے بعد اسے ذبح کر کے کھا لے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی نذر ہے۔‘‘ بھیڑیا اگر کھا جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے لیکن یہ موقف وزنی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھیڑیے کو اس کا مالک قرار نہیں دیا۔ سنن ابی داود میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس کا تلاش کرنے والا مل جائے تو اسے دے دو، اگر نہ ملے تو اس کے بیگ، بٹوہ اور بندھن کو پہچان لو، پھر اسے استعمال کر لو، اس کے بعد اگر مالک مل جائے تو اسے ادا کرو۔‘‘ (سنن أبي داود، اللقطة، حدیث:1707،1706) اس حدیث کے مطابق کھانے کی اجازت سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں اسے واپس کرنے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:106/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2345
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2429
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2429
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2429
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
جمہور علماء یہ کہتے ہیں کہ مالک ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کو تصرف کرنا جائز ہوگا، لیکن جب مالک آجائے تو وہ چیز یا اس کا بدل دینا لازم ہوگا۔ حنفیہ کہتے ہیں اگر پانے والا محتاج ہے۔ تو اس میں تصرف کر سکتا ہے اگر مالدار ہے تو اس کو خیرات کر دے۔ پھر اگر اس کا مالک آئے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ ا س خیرات کو جائز رکھے خواہ اس سے تاوان لے۔ جہاں تک غور و فکر کا تعلق ہے اسلام نے گرے پڑے اموال کی بڑی حفاظت کی ہے اور ان کے اٹھانے والوں کو اسی حالت میں اٹھانے کی اجازت دی ہے کہ وہ خود ہضم کرجانے کی نیت سے ہرگز ہرگز ان کو نہ اٹھائیں۔ بلکہ ان کے اصل مالکوں تک پہنچانے کی نیت سے ان کو اٹھا سکتے ہیں۔ اگر مالک فوری طور پر نہ مل سکے تو موقع بہ موقع سال بھر اس مال کا اعلان کرتے رہیں۔ آج کل اعلان کے ذرائع بہت وسیع ہو چکے ہیں، اخبارات اور ریڈیو کے ذرائع سے اعلانات ہر کس و ناکس تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس طرح متواتر اعلانات پر سال گزر جائے اور کوئی اس کا مالک نہ مل سکے تو پانے والا اپنے مصرف میں اسے لے سکتا ہے۔ مگر یہ شرط اب بھی ضروری ہے کہ اگر کسی دن بھی اس کا اصل مالک آگیا تو وہ مال اسے مع تاوان ادا کرناہوگا۔ اگر اصل مال وہ ختم کر چکا ہے تو ا س کی جنس بالمثل ادا کرنی ہوگی۔ یا پھر جوبھی بازاری قیمت ہو ادا کرنی ضروری ہوگی۔ ان تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لقطہ کے متعلق اسلام کا قانونی نظریہ کس قدر ٹھوس اور کتنا نفع بخش ہے۔ کاش اسلام کے معاندین ان قوانین اسلامی کا بغور مطالعہ کریں اور اپنے دلوں کو عناد سے پاک کرکے قلب سلیم کے ساتھ صداقت کو تسلیم کر سکیں۔
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گری پڑی چیز کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کی ہتھیلی اور بندھن کو پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو، اگر اس دوران میں اس کامالک آجائے تو بہتر، بصورت دیگر تجھے اختیار ہے۔‘‘ اس نے پوچھا کہ بھٹکی ہوئی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی۔‘‘ اس نے پھر دریافت کیا: گمشدہ اونٹ کے متعلق کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: ’’تمھیں اس سے کیا سروکار ہے؟اس کے ہمراہ اس کا مشکیزہ اور جوتا ہے وہ پانی خود پی لے گا اور پتے کھالے گا، یہاں تک کہ اس کامالک اسے خود پالےگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ’’تجھے اختیار ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ تیرے لیے اس میں تصرف کرنا جائز ہو گا، لیکن جب اس کا مالک مل جائے تو وہ چیز یا اس کا بدل دینا لازم ہو گا۔ (2) اسلام نے گری پڑی اشیاء کی بڑی حفاظت کی ہے۔ ان کے اٹھانے والوں کو اسی صورت میں اٹھانے کی اجازت ہے کہ وہ انہیں اصل مالک تک لے جانے کی کوشش کریں۔ انہیں ہضم کرنے کے لیے ہرگز ہرگز نہ اٹھائیں۔ بعض ائمہ کا موقف ہے کہ اگر کوئی جنگل میں بھٹکی ہوئی بکری پائے اور تشہیر کے بعد اسے ذبح کر کے کھا لے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیے کی نذر ہے۔‘‘ بھیڑیا اگر کھا جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے لیکن یہ موقف وزنی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بھیڑیے کو اس کا مالک قرار نہیں دیا۔ سنن ابی داود میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اس کا تلاش کرنے والا مل جائے تو اسے دے دو، اگر نہ ملے تو اس کے بیگ، بٹوہ اور بندھن کو پہچان لو، پھر اسے استعمال کر لو، اس کے بعد اگر مالک مل جائے تو اسے ادا کرو۔‘‘ (سنن أبي داود، اللقطة، حدیث:1707،1706) اس حدیث کے مطابق کھانے کی اجازت سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں اسے واپس کرنے کا حکم ہے۔ (فتح الباري:106/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمن نے، انہیں منبعث کے غلام یزید نے اور ان سے زید بن خالد ؓ نے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے لقطہ کے بارے میں سوال کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے برتن کی بناوٹ اور ا س کے بندھن کو ذہن میں یاد رکھ کر ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ اگر مالک مل جائے (تو اسے دے دے) و رنہ اپنی ضرورت میں خرچ کر۔ انہوں نے پوچھا اور اگر راستہ بھولی ہوئی بکری ملے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی۔ ورنہ پھر بھیڑیا اسے اٹھا لے جائے گا صحابی نے پوچھا اور اونٹ جو راستہ بھول جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کا مشکیزہ ہے، اس کے کھر ہیں، پانی پر وہ خود ہی پہنچ جائے گا اور خود ہی درخت کے پتے کھا لے گا۔ اور ا س طرح کسی نہ کسی دن اس کا مالک اسے خود پالے گا۔
حدیث حاشیہ:
فإن جاء صاحبهایعنی اگر اس کا مالک آجائے تو اس کے حوالے کر دے۔ جیسے ا مام احمد اور ترمذی اور نسائی کی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص آئے جو اس کی گنتی اور تھیلی اور سر بندھن کو ٹھیک ٹھیک بتلا دے تو اس کو دے دے۔ معلوم ہوا کہ صحیح طور پر اسے پہچان لینے والے کو وہ مال دے دینا چاہئے۔ گواہ شاہد کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اس روایت میں دو سال تک بتلانے کا ذکر ہے۔ اور آگے والی احادیث میں صرف ایک سال تک کا بیان ہوا ہے۔ اور تمام علماءنے اب اسی کو اختیار کیا ہے اور دو سال والی روایت کے حکم کو ورع اور احتیاط پر محمول کیا۔ یوں محتاط حضرات اگر ساری عمر بھی اسے اپنے استعمال میں نہ لائیں اور آخر میں چل کر بطور صدقہ خیرات دے کر اسے ختم کر دیں تو اسے نور علی نور ہی کہنا مناسب ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid (RA): A man came and asked Allah's Apostle (ﷺ) about picking a lost thing. The Prophet (ﷺ) said, "Remember the description of its container and the string it is tied with, and make public announcement about it for one year. If the owner shows up, give it to him; otherwise, do whatever you like with it." He then asked, "What about a lost sheep?" The Prophet (ﷺ) said, "It is for you, for your brother (i.e. its owner), or for the wolf." He further asked, "What about a lost camel?" The Prophet (ﷺ) said, "It is none of your concern. It has its water-container (reservoir) and its feet, and it will reach water and drink it and eat the trees till its owner finds it."