باب : اگر کوئی سمندر میں لکڑی یا ڈنڈا یا اور کوئی ایسی ہی چیز پائے تو کیا حکم ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: If someone finds a thing in the sea)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2430.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کے آخر میں ہے: ’’وہ شخص باہر نکلا شاید کوئی جہاز اس کا مال لے کرآیا ہو، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لکڑی تیر رہی ہے۔ وہ اسے اٹھالایا تاکہ اہل خانہ اسے جلانے میں استعمال کریں۔ جب اس نے اسے پھاڑا تو (اس میں) اس کا مال اور ایک رقعہ برآمد ہوا۔‘‘
تشریح:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ دریا یا میدانی علاقے سے کوئی معمولی چیز ملے تو اٹھانے والا اسے استعمال کر سکتا ہے اور اسے اپنے مصرف میں لانا جائز ہے۔ اس حدیث کے مطابق اس شخص نے دریا میں بہنے والی لکڑی بطور ایندھن اٹھائی۔ یہ اس بنا پر کہ پہلی شریعت بھی ہمارے لیے حجت ہے بشرطیکہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کو بطور مدح و تعریف بیان کیا ہے اور اس کے متعلق آپ سے انکار منقول نہیں۔ (2) اس میں کوئی شک نہیں کہ دریا میں بہنے والی لکڑی یا میدانی علاقے سے ملنے والی کوئی معمولی چیز اٹھائی جا سکتی ہے لیکن آج کل دریاؤں سے بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔ پہاڑوں پر درختوں کی لکڑیاں کاٹ کر دریاؤں میں ڈال دی جاتی ہیں۔ نیچے لکڑی کی منڈیاں ہوتی ہیں جہاں تاجر اپنا مال پہچان کر دریا سے نکال لیتے ہیں۔ اس قسم کی لکڑی اٹھانا جائز نہیں۔ اس کی نوعیت دوسری ہے۔ اسے گری پڑی چیز قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ اسے معمولی ہی خیال کیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2346
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2430
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2430
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2430
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کے آخر میں ہے: ’’وہ شخص باہر نکلا شاید کوئی جہاز اس کا مال لے کرآیا ہو، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک لکڑی تیر رہی ہے۔ وہ اسے اٹھالایا تاکہ اہل خانہ اسے جلانے میں استعمال کریں۔ جب اس نے اسے پھاڑا تو (اس میں) اس کا مال اور ایک رقعہ برآمد ہوا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے معلوم ہوا کہ دریا یا میدانی علاقے سے کوئی معمولی چیز ملے تو اٹھانے والا اسے استعمال کر سکتا ہے اور اسے اپنے مصرف میں لانا جائز ہے۔ اس حدیث کے مطابق اس شخص نے دریا میں بہنے والی لکڑی بطور ایندھن اٹھائی۔ یہ اس بنا پر کہ پہلی شریعت بھی ہمارے لیے حجت ہے بشرطیکہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعے کو بطور مدح و تعریف بیان کیا ہے اور اس کے متعلق آپ سے انکار منقول نہیں۔ (2) اس میں کوئی شک نہیں کہ دریا میں بہنے والی لکڑی یا میدانی علاقے سے ملنے والی کوئی معمولی چیز اٹھائی جا سکتی ہے لیکن آج کل دریاؤں سے بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔ پہاڑوں پر درختوں کی لکڑیاں کاٹ کر دریاؤں میں ڈال دی جاتی ہیں۔ نیچے لکڑی کی منڈیاں ہوتی ہیں جہاں تاجر اپنا مال پہچان کر دریا سے نکال لیتے ہیں۔ اس قسم کی لکڑی اٹھانا جائز نہیں۔ اس کی نوعیت دوسری ہے۔ اسے گری پڑی چیز قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ اسے معمولی ہی خیال کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک مرد کا ذکر کیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی (جو اس سے پہلے گز رچکی ہے) کہ (قرض دینے والا) باہر یہ دیکھنے کے لیے نکلا کہ ممکن ہے کوئی جہاز اس کا روپیہ لے کر آیا ہو۔ (دریا کے کنارے پر جب وہ پہنچا) تو اسے ایک لکڑی ملی جسے اس نے اپنے گھر کے ایندھن کے لیے اٹھا لیا۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں روپیہ اور خط پایا۔
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ دریا میں سے ایسی چیزوں کو اٹھایا جاسکتا ہے بعد میں جو کیفیت سامنے آئے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ اسرائیلی مرد کی حسن نیت کا ثمرہ تھا کہ پائی ہوئی لکڑی کو چیرا تو اسے اس کے اندر اپنی امانت کی رقم مل گئی۔ اسے ہر دو نیک دل اسرائیلوں کی کرامت ہی کہنا چاہئے۔ ورنہ عام حالات میں یہ معاملہ بے حد نازک ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کچھ بندگان خدا ادائیگی امانت اور عہد کی پاسداری کا کس حد تک خیال رکھتے ہیں اور یہ بہت ہی کم ہیں۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : و موضع الترجمة قوله فأخذها و هو مبني علی أن شرع من قبلنا شرع لنا ما لم یأت في شرعنا ما یخالفه لا سیما إذا ورد بصوة الثناء علی فاعله یعنی یہاں مقام ترجمۃ الباب راوی کے یہ الفاظ ہیں۔ فأخذهایعنی اس کو اس نے لے لیا۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ کیوں کہ ہمارے پہلے والوں کی شریعت بھی ہمارے لیے شریعت ہے۔ جب تک وہ ہماری شریعت کے خلاف نہ ہو۔ خاص طور پر جب کہ اس کے فاعل پر ہماری شریعت میں تعریف کی گئی ہو۔ آنحضرت ﷺ نے ان ہر دو اسرائیلیوں کی تعریف فرمائی۔ ان کا عمل اس وجہ سے ہمارے لیے قابل اقتداءبن گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (ra) said, "Allah's Messenger (ﷺ) mentioned an Israeli man." Abu Hurairah then told the whole narration). (At the end of the narration it was mentioned that the creditor) went out to the sea, hoping that a boat might have brought his money. Suddenly he saw a piece of wood and he took it to his house to use as firewood. When he sawed it, he found his money and a letter in it. [See hadith No. 2291 for details]