باب : پڑی ہوئی چیز کا مالک اگر ایک سال بعد آئے تو اسے اس کا مال واپس کردے کیوں کہ پانے والے کے پاس وہ امانت ہے
)
Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: If the owner of lost property comes back after a year)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2436.
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی ایک سال تک تشہیر کرو، پھر اس کا بندھن اور تھیلی یاد کرلو، اس کے بعد اسے اپنے کسی مصرف میں خرچ کرلو، اگر اس کا مالک آجائے تو اسے واپس کردو۔‘‘ سائل نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! بھٹکی ہوئی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہے، یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیے کی نذر ہے۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آوارہ اونٹ کے متعلق کیا کریں؟ رسول اللہ ﷺ یہ سن کر غصے میں آگئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار یا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’اونٹ سے تمھیں کیا کام؟اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے اس کا مالک جب آئے گا تو اسے لے لے گا۔‘‘
تشریح:
(1) اگرچہ اس روایت میں ’’امانت‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم پہلے وہ حدیث بیان ہو چکی ہے کہ گمشدہ چیز اس کے پاس امانت ہو گی۔ (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث:2428) وہاں راوئ حدیث نے شک کا اظہار کیا تھا کہ یہ الفاظ میرے شیخ کی طرف سے ہیں یا حدیث کا حصہ ہیں، اس کے متعلق مجھے پوری طرح علم نہیں ہے لیکن صحیح مسلم میں یہ الفاظ بغیر کسی شک و شبہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے حصے کے طور پر بیان ہوئے ہیں، (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4502(1722)) نیز اس میں صراحت ہے کہ اگر گمشدہ چیز کا مالک اور طلبگار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنی ہو گی۔ (2) امام بخاری ؒ کا مسلک یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ چیز اٹھانے والے سے ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ امانت کے ضیاع پر تاوان نہیں دیا جاتا، ہاں اس نے استعمال کر لی ہے تو اس کا بدل دینا ہو گا۔ (فتح الباري:114/5) اس صورت میں گمشدہ چیز کا بدل واپس کرنا احسان نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2352
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2436
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2436
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2436
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے گمشدہ چیز اٹھانے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی ایک سال تک تشہیر کرو، پھر اس کا بندھن اور تھیلی یاد کرلو، اس کے بعد اسے اپنے کسی مصرف میں خرچ کرلو، اگر اس کا مالک آجائے تو اسے واپس کردو۔‘‘ سائل نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! بھٹکی ہوئی بکری کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اسے پکڑ لو کیونکہ وہ تمہاری ہے، یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیے کی نذر ہے۔‘‘ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! آوارہ اونٹ کے متعلق کیا کریں؟ رسول اللہ ﷺ یہ سن کر غصے میں آگئے یہاں تک کہ آپ کے رخسار یا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: ’’اونٹ سے تمھیں کیا کام؟اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے اس کا مالک جب آئے گا تو اسے لے لے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اگرچہ اس روایت میں ’’امانت‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم پہلے وہ حدیث بیان ہو چکی ہے کہ گمشدہ چیز اس کے پاس امانت ہو گی۔ (صحیح البخاري، اللقطة، حدیث:2428) وہاں راوئ حدیث نے شک کا اظہار کیا تھا کہ یہ الفاظ میرے شیخ کی طرف سے ہیں یا حدیث کا حصہ ہیں، اس کے متعلق مجھے پوری طرح علم نہیں ہے لیکن صحیح مسلم میں یہ الفاظ بغیر کسی شک و شبہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے حصے کے طور پر بیان ہوئے ہیں، (صحیح مسلم، اللقطة، حدیث:4502(1722)) نیز اس میں صراحت ہے کہ اگر گمشدہ چیز کا مالک اور طلبگار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنی ہو گی۔ (2) امام بخاری ؒ کا مسلک یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ چیز اٹھانے والے سے ضائع ہو جائے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا کیونکہ امانت کے ضیاع پر تاوان نہیں دیا جاتا، ہاں اس نے استعمال کر لی ہے تو اس کا بدل دینا ہو گا۔ (فتح الباري:114/5) اس صورت میں گمشدہ چیز کا بدل واپس کرنا احسان نہیں بلکہ اس کی ذمہ داری اور فرائض میں شامل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن عبدالرحمن نے، ان سے منبعث کے غلام یزید نے، اور ان سے زید بن خالد جہنی ؓ نے کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے لقطہ کے بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ۔ پھر اس کے بندھن اور برتن کی بناوٹ کو ذہن میں یاد رکھ۔ اور اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ اس کا مالک اگر اس کے بعد آئے تو اسے واپس کردے۔ صحابہ ؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! راستہ بھولی ہوئی بکری کا کیا کیا جائے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیوں کہ وہ یا تمہاری ہوگی یا تمہارے بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑیئے کی ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ! راستہ بھولے ہوئے اونٹ کا کیا کیا جائے؟ آپ اس پر غصہ ہو گئے اور چہرہ مبارک سرخ ہو گیا (یا راوی نے وجنتاہ کے بجائے) إحمر وجهه کہا۔ پھر آپ نے فرمایا، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ خود اس کے کھر اور اس کا مشکیزہ ہے۔ اسی طرح اسے اس کا اصل مالک مل جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani (RA): A man asked Allah's Apostle (ﷺ) about the Luqata. He said, "Make public announcement of it for one year, then remember the description of its container and the string it is tied with, utilize the money, and if its owner comes back after that, give it to him." The people asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What about a lost sheep?" Allah's Apostle (ﷺ) said, "Take it, for it is for you, for your brother, or for the wolf." The man asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! What about a lost camel?" Allah's Apostle (ﷺ) got angry and his cheeks or face became red, and said, "You have no concern with it as it has its feet, and its water-container, till its owner finds it."