باب: پڑی ہوئی چیز کا اٹھا لینا بہتر ہے ایسا نہ ہو وہ خراب ہو جائے یا کوئی غیر مستحق اس کو لے بھاگے
)
Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: Should one pick up a fallen thing?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2437.
حضرت سوید بن غفلہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں ایک لڑائی میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ تھا۔ میں نےایک کوڑا دیکھا (تو اسے اُٹھا لیا۔)مجھ سے انھوں نےکہا: اسے پھینک دو۔ میں نےکہا: نہیں پھینکتا، اگر اس کامالک مل گیا تو اس کے حوالے کردوں گا بصورت دیگر اسے اپنے کام میں لاؤں گا، چنانچہ جب ہم غزوے سے واپس آئے تو حج کیا، پھر مدینہ طیبہ سے گزر ہوا توحضرت ابی بن کعب ؓ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا توا نھوں نے بتایا: مجھے نبی کریم ﷺ سے زمانے میں ایک تھیلی ملی تھی۔ جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی ایک سال تک تشہیر کرو۔‘‘ میں نے اس کی سال بھر تشہیر کی۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’ایک سال مزید تشہیر کرو۔‘‘ میں نے ایک سال مزید ایسا کیا۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’ایک سال اور اس کی تشہیر کرو۔‘‘ میں نے اس کی ایک سال اور تشہیر کی۔ پھر چوتھی بار آپ کے پاس حاضر ہوا توآپ نے فرمایا: ’’اس کی گنتی، بندھن اور تھیلی کی خوب شناخت کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو بہتر، بصورت دیگر اس سے فائدہ حاصل کرو۔‘‘ شعبہ کہتے ہیں: میں اس کے بعد سلمہ بن کہیل سے مکہ مکرمہ میں ملا تو انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تین سال یا ایک سال تشہیر کرنے کے لیے کہا تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ گری پڑی چیز کو اٹھا لینا بہتر ہے تاکہ وہ ضائع نہ ہو جائے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ نہ لگ جائے، اٹھا لینے کے بعد حدیث کی روشنی میں عمل کیا جائے۔ (2) اہل علم کے درمیان اس روایت کے متعلق اختلاف ہے، امام ابن حزم ؒ کہتے ہیں کہ ایک سال سے زیادہ تشہیر کرنا صحیح نہیں۔ (المحلیٰ لابن حزم:118/7) امام ابن جوزی ؒ کہتے ہیں کہ دیگر احادیث کی روشنی میں جو بات میرے سامنے واضح ہوئی ہے وہ یہ کہ سلمہ بن کہیل راوی نے اس میں غلطی کی ہے، لہذا یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ ایک سال ہی تشہیر کرتے رہے۔ (فتح الباري:99/5) امام منذری ؒ کہتے ہیں کہ کسی محدث یا فقیہ نے تین سال کی تشہیر کا فتویٰ نہیں دیا۔ (نیل الأوطار:49/4) ان روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ ایک سال تک تشہیر کرنا ضروری ہے۔ اگر مالک نہ ملے تو ایک سال سے زائد تشہیر کرنا تقویٰ کی علامت ہے، واجب نہیں۔ (فتح الباري:99/5)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2353
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2437
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2437
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2437
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
مال کی حفاظت کے پیش نظر ایسا کرنا ضروری ہے ورنہ کوئی نااہل اٹھا لے جائے گا، اور وہ اسے ہضم کر بیٹھے گا۔ مضمون حدیث سے باب کا مطلب ظاہر ہے کہ تھیلی کے اٹھا لینے والے شخص پر آنحضرت ﷺ نے اظہار خفگی نہیں فرمایا بلکہ یہ ہدایت ہوئی کہ اس کا سال بھر اعلان کرتے رہو اگر وہ چیز کوئی زیادہ قیمتی نہیں ہے تو ا سکے متعلق احمد و ابوداؤد میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے قال رخص لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی العصاءو الحبل واشباهه یلتقطه الرجل ینتفع بہ رواه احمد وابوداود یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو لکڑی ڈنڈے اور رسی اور اس قسم کی معمولی چیز کے بارے میں رخصت عطا فرمائی جن کو انسان پڑا ہوا پائے۔ ان سے نفع اٹھائے۔ اس پر امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فیه دلیل علی جواز الانتفاع بما یوجد فی الطرقات من المحقرات و لا یحتاج الی التعریف و قیل انہ یجب التعریف بہا ثلاثة ایام لما اخرجه احمد و الطبرانی و البیهقی و الجوزجانی (نیل الاوطار) یعنی اس میں دلیل ہے کہ حقیر چیزیں جو راستے میں پڑی ہوئی ملیں ان سے نفع اٹھانا جائز ہے۔ ان کے لیے اعلان کی ضرورت نہیں، اور یہ بھی کہا گیا کہ تین دن تک اعلان کرنا واجب ہے۔ احمد اور طبرانی اور بیہقی اور جو زجانی میں ایسا منقول ہے۔
حضرت سوید بن غفلہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں ایک لڑائی میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ تھا۔ میں نےایک کوڑا دیکھا (تو اسے اُٹھا لیا۔)مجھ سے انھوں نےکہا: اسے پھینک دو۔ میں نےکہا: نہیں پھینکتا، اگر اس کامالک مل گیا تو اس کے حوالے کردوں گا بصورت دیگر اسے اپنے کام میں لاؤں گا، چنانچہ جب ہم غزوے سے واپس آئے تو حج کیا، پھر مدینہ طیبہ سے گزر ہوا توحضرت ابی بن کعب ؓ سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا توا نھوں نے بتایا: مجھے نبی کریم ﷺ سے زمانے میں ایک تھیلی ملی تھی۔ جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی ایک سال تک تشہیر کرو۔‘‘ میں نے اس کی سال بھر تشہیر کی۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’ایک سال مزید تشہیر کرو۔‘‘ میں نے ایک سال مزید ایسا کیا۔ پھر آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: ’’ایک سال اور اس کی تشہیر کرو۔‘‘ میں نے اس کی ایک سال اور تشہیر کی۔ پھر چوتھی بار آپ کے پاس حاضر ہوا توآپ نے فرمایا: ’’اس کی گنتی، بندھن اور تھیلی کی خوب شناخت کرو۔ اگر اس کا مالک آجائے تو بہتر، بصورت دیگر اس سے فائدہ حاصل کرو۔‘‘ شعبہ کہتے ہیں: میں اس کے بعد سلمہ بن کہیل سے مکہ مکرمہ میں ملا تو انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں کہ تین سال یا ایک سال تشہیر کرنے کے لیے کہا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ گری پڑی چیز کو اٹھا لینا بہتر ہے تاکہ وہ ضائع نہ ہو جائے یا کسی غلط آدمی کے ہاتھ نہ لگ جائے، اٹھا لینے کے بعد حدیث کی روشنی میں عمل کیا جائے۔ (2) اہل علم کے درمیان اس روایت کے متعلق اختلاف ہے، امام ابن حزم ؒ کہتے ہیں کہ ایک سال سے زیادہ تشہیر کرنا صحیح نہیں۔ (المحلیٰ لابن حزم:118/7) امام ابن جوزی ؒ کہتے ہیں کہ دیگر احادیث کی روشنی میں جو بات میرے سامنے واضح ہوئی ہے وہ یہ کہ سلمہ بن کہیل راوی نے اس میں غلطی کی ہے، لہذا یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ ایک سال ہی تشہیر کرتے رہے۔ (فتح الباري:99/5) امام منذری ؒ کہتے ہیں کہ کسی محدث یا فقیہ نے تین سال کی تشہیر کا فتویٰ نہیں دیا۔ (نیل الأوطار:49/4) ان روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ ایک سال تک تشہیر کرنا ضروری ہے۔ اگر مالک نہ ملے تو ایک سال سے زائد تشہیر کرنا تقویٰ کی علامت ہے، واجب نہیں۔ (فتح الباري:99/5)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا کہ میں نے سوید بن غفلہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان کے ساتھ ایک جہاد میں شریک تھا۔ میں نے ایک کوڑا پایا (اور اس کو اٹھا لیا) دونوں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دے۔ میں نے کہا کہ ممکن ہے مجھے اس کا مالک مل جائے۔ (تو اس کو دے دوں گا) ورنہ خود اس سے نفع اٹھاؤں گا۔ جہاد سے واپس ہونے کے بعد ہم نے حج کیا۔ جب میں مدینے گیا تو میں نے ابی بن کعب ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں مجھ کو ایک تھیلی مل گئی تھی۔ جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں گیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ، میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا اور پھر حاضر ہوا۔ (کہ مالک ابھی تک نہیں ملا) آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اور اعلان کر، میں نے ایک سال تک اس کا پھر اعلان کیا، اورحاضر خدمت ہوا۔ اس مرتبہ بھی آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا پھر اعلان کر، میں نے پھر ایک سال تک اعلان کیا اور جب چوتھی مرتبہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ رقم کے عدد، تھیلی کا بندھن، اور اس کی ساخت کو خیال میں رکھ، اگر اس کا مالک مل جائے تو اسے دے دے ورنہ اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی شعبہ سے اور انہیں سلمہ نے یہی حدیث، شعبہ نے بیان کیا کہ پھر اس کے بعد مکہ میں سلمہ سے ملا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے خیال نہیں (اس حدیث میں سوید نے) تین سال تک بتلانے کا ذکر کیا تھا یا ایک سال کا۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ نیک نیتی کے ساتھ کسی پڑی ہوئی چیز کو اٹھا لینا ہی ضروری ہے تاکہ وہ کسی غلط آدمی کے حوالہ نہ پڑ جائے۔ اٹھا لینے کے بعدحدیث مذکورہ کی روشنی میں عمل در آمد ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Suwaid bin Ghafala (RA): While I as in the company of Salman bin Rabi'a and Suhan, in one of the holy battles, I found a whip. One of them told me to drop it but I refused to do so and said that I would give it to its owner if I found him, otherwise I would utilize it. On our return we performed Hajj and on passing by Medina, I asked Ubai bin Ka'b (RA) about it. He said, "I found a bag containing a hundred Dinars in the lifetime of the Prophet (ﷺ) and took it to the Prophet (ﷺ) who said to me, 'Make public announcement about it for one year.' So, I announced it for one year and went to the Prophet (ﷺ) who said, 'Announce it publicly for another year.' So, I announced it for another year. I went to him again and he said, "Announce for an other year." So I announced for still another year. I went to the Prophet (ﷺ) for the fourth time, and he said, 'Remember the amount of money, the description of its container and the string it is tied with, and if the owner comes, give it to him; otherwise, utilize it.' "