Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter: Whoever announced the Luqata in public)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2438.
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے نبی کریم ﷺ سے گمشدہ چیز کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی ایک سال کی تشہیر کر۔ اگر کوئی آئے اور اس کی تھیلی اور بندھن کے بارے میں ٹھیک ٹھیک نشاندہی کردے تو اس کے حوالے کردے، بصورت دیگر اسے خرچ کرلے۔‘‘ پھر اس نے آوارہ اونٹ کے متعلق پوچھا تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اونٹ سے تجھے کیا تعلق؟ اس کا مشکیزہ اور جوتا اس کے ساتھ ہے۔ وہ خود چشمے پر جاکر پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا۔ اُسے چھوڑ حتی کہ اس کامالک اسے پالے۔‘‘ پھر اس نے بھٹکی بکری کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ تیرے لیے ہے، یاتیرے بھائی کے لیے یا پھر بھیڑیے کے لیے ہے۔‘‘
تشریح:
(1) گری پڑی چیز کے متعلق امام اوزاعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر معمولی قیمت کی ہے تو اس کی تشہیر کی جائے اور اگر بیش بہا قیمت کی ہے تو اسے بیت المال میں جمع کرا دے۔ امام بخاری ؒ اس موقف کے خلاف ہیں کہ کسی صورت میں گمشدہ چیز کو بیت المال میں جمع نہ کیا جائے بلکہ خود اس کی تشہیر کرے۔ (2) ممکن ہے امام بخاری ؒ کا یہ موقف ہو کہ گمشدہ چیز حکومت وقت کے حوالے کرنا ضروری نہیں بلکہ لوگ اپنے طور پر اس کا کوئی حل نکالیں۔ اگر وہ مناسب خیال کریں کہ حکومت بہتر طریقے سے اس کی تشہیر کر سکتی ہے تو وہ چیز حکومت کے حوالے کی جا سکتی ہے، البتہ حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا صحیح نہیں۔ بہرحال گری پڑی چیز جہاں ملے وہاں کے بازاروں، مساجد کے دروازوں، لوگوں کے اجتماعات، پبلک مقامات، مثلاً: ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، جنرل بس اسٹینڈ، گراؤنڈ وغیرہ میں اس طرح اعلان کیا جائے کہ جس کسی کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو وہ نشانی بتا کر لے جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2354
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2438
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2438
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2438
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس باب میں امام اوزاعی کے قول کا رد منظور ہے۔ انہوں نے کہا اگر لقطہ بیش قیمت ہو تو بیت المال میں داخل کر دے۔
حضرت زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے نبی کریم ﷺ سے گمشدہ چیز کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اس کی ایک سال کی تشہیر کر۔ اگر کوئی آئے اور اس کی تھیلی اور بندھن کے بارے میں ٹھیک ٹھیک نشاندہی کردے تو اس کے حوالے کردے، بصورت دیگر اسے خرچ کرلے۔‘‘ پھر اس نے آوارہ اونٹ کے متعلق پوچھا تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اونٹ سے تجھے کیا تعلق؟ اس کا مشکیزہ اور جوتا اس کے ساتھ ہے۔ وہ خود چشمے پر جاکر پانی پی لے گا اور درختوں کے پتے کھالے گا۔ اُسے چھوڑ حتی کہ اس کامالک اسے پالے۔‘‘ پھر اس نے بھٹکی بکری کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ تیرے لیے ہے، یاتیرے بھائی کے لیے یا پھر بھیڑیے کے لیے ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) گری پڑی چیز کے متعلق امام اوزاعی ؒ کا موقف ہے کہ اگر معمولی قیمت کی ہے تو اس کی تشہیر کی جائے اور اگر بیش بہا قیمت کی ہے تو اسے بیت المال میں جمع کرا دے۔ امام بخاری ؒ اس موقف کے خلاف ہیں کہ کسی صورت میں گمشدہ چیز کو بیت المال میں جمع نہ کیا جائے بلکہ خود اس کی تشہیر کرے۔ (2) ممکن ہے امام بخاری ؒ کا یہ موقف ہو کہ گمشدہ چیز حکومت وقت کے حوالے کرنا ضروری نہیں بلکہ لوگ اپنے طور پر اس کا کوئی حل نکالیں۔ اگر وہ مناسب خیال کریں کہ حکومت بہتر طریقے سے اس کی تشہیر کر سکتی ہے تو وہ چیز حکومت کے حوالے کی جا سکتی ہے، البتہ حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا صحیح نہیں۔ بہرحال گری پڑی چیز جہاں ملے وہاں کے بازاروں، مساجد کے دروازوں، لوگوں کے اجتماعات، پبلک مقامات، مثلاً: ہسپتال، ریلوے اسٹیشن، جنرل بس اسٹینڈ، گراؤنڈ وغیرہ میں اس طرح اعلان کیا جائے کہ جس کسی کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو وہ نشانی بتا کر لے جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شبیہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے شعبی نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں (اور باپ) کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، (واجب حقوق کی) ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر) دبالینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اورکثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Zaid bin Khalid (RA): A bedouin asked the Prophet (ﷺ) about the Luqata. The Prophet (ﷺ) said, "Make public announcement about it for one year and if then somebody comes and describes the container of the Luqata and the string it was tied with, (give it to him); otherwise, spend it." He then asked the Prophet (ﷺ) about a lost camel. The face of the Prophet (ﷺ) become red and he said, "You have o concern with it as it has its water reservoir and feet and it will reach water and drink and eat trees. Leave it till its owner finds it." He then asked the Prophet (ﷺ) about a lost sheep. The Prophet (ﷺ) said, "It is for you, for your brother, or for the wolf."