Sahi-Bukhari:
Lost Things Picked up by Someone (Luqatah)
(Chapter:)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2439.
حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں چلا تو ایک چرواہے کو دیکھا جو اپنی بکریاں ہانکےجارہا تھا۔ میں نے پوچھا: تو کس کا چرواہا ہے؟اس نے کہا: ایک قریشی کا۔ اس نے نام لیا تو میں نے اسے پہچان لیا۔ میں نے کہا: کیاتیری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، چنانچہ میں نے اس کو دوہنے کے لیے کہا تو اس نے بکریوں میں سے ایک بکری باندھ دی۔ میں نے کہا: اس بکری کے تھن سے غبار صاف کردے۔ پھر میں نے اس سے کہا: اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لے تو اس نے ایسا ہی کیا اور ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مارا، پھر ایک پیالہ دودھ دوہا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے پانی کی ایک چھاگل رکھ لی تھی جس کے منہ پر کپڑا باندھا ہواتھا۔ میں نے پانی دودھ پر ڈالا حتیٰ کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!اسے نوش جاں کیجئے!آپ نے اتنا پیا کہ میرا دل خوش ہوگیا۔
تشریح:
(1) ابواب لقطہ میں اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ حدیث بھی احکام لقطہ پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک ایسی چیز کا ذکر ہے جس کا حال لقطہ کے حال سے ملتا جلتا ہے، یعنی ایسی بکری کا دودھ پینا جس کا چرواہا تنہا جنگل میں ہے اور اس سے زائد دودھ یقینا بیکار ہو جائے گا، اس لیے یہ بھی ضائع ہونے والی چیز کے حکم میں ہے۔ جس طرح کوڑے اور رسی کو اٹھانا جائز ہے اسی طرح دودھ کا پینا بھی مباح اور جائز ہے کیونکہ اگر وہ پیا نہ جاتا تو وہ ضائع ہو جاتا۔ (عمدة القاري:180/9) لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اس کی توجیہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ بعض دفعہ تفہیم مسئلہ کے لیے کسی چیز کی ضد ذکر کر دیتے ہیں جس طرح انہوں نے کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل بیان کیے ہیں اور کتاب العلم میں جہالت کا تذکرہ کیا ہے، اسی طرح اس مقام پر باب بلا عنوان کے تحت اس حدیث کو بطور ضد لائے ہیں کہ وہ مال جس کا مالک معلوم ہو وہ لقطہ میں شامل نہیں۔ لیکن اس پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ چرواہا بکریوں کا مالک تو نہ تھا ان کا مالک تو وہ قریشی تھا جسے ابوبکر صدیق ؓ جانتے تھے، تو ان کے لیے اجازت کے بغیر دودھ دوہنا کیسے جائز ہوا؟ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ آپ نے عرب کے ہاں دستور کے مطابق دودھ استعمال کیا کیونکہ مالک کی طرف سے چرواہوں کو اجازت ہوتی تھی کہ اگر کوئی ضرورت مند ہو تو وہ ضرورت کے مطابق اسے دودھ دے دیا کریں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں شوہر کی طرف سے بیوی کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ دروازے پر آنے والے سائل کو مٹھی یا دو مٹھی آٹا دے دیا کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اسے پہچان لیا ہو کہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو دودھ پینے سے منع نہیں کرے گا۔ واللہ أعلم (2) ہمارے ہاں گمشدہ بچوں اور دیگر چیزوں کے متعلق مساجد میں اعلان کیا جاتا ہے، اس اعلان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ واضح رہے کہ گمشدہ چیز یا بچے یا جانور کا مسجد میں اعلان کرنا شرعاً درست نہیں۔ حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر کوئی مسجد میں اپنی گمشدہ چیز کو تلاش کرتا ہے یا اس کا اعلان کرتا ہے تو اسے ان الفاظ میں جواب دیا جائے: اللہ وہ چیز تجھے واپس نہ کرے کیونکہ مساجد کی تعمیر اس مقصد کے لیے نہیں ہوئی۔‘‘ (صحیح مسلم ،المساجد، حدیث:1260(568)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؤ نے مسجد میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو لوگوں سے اپنے گمشدہ سرخ اونٹ کے متعلق دریافت کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ کرے تو اپنے اونٹ کو نہ پائے کیونکہ مساجد تعمیر کرنے کا مقصد عبادت الٰہی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1262(569)) ایک دوسری حدیث میں ان مقاصد کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے جن کے پیش نظر مساجد تعمیر کی جاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مساجد اللہ کے ذکر، نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کے لیے بنائی جاتی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الطھاة، حدیث:661(285)) رسول اللہ ﷺ نے گمشدہ اشیاء (حیوانات وغیرہ) کو مساجد میں تلاش کرنے اور ان کے متعلق دریافت کرنے سے منع فرمایا ہے، (سنن ابن ماجة، المساجد:766) نیز ایسے شخص کے لیے اس کی گمشدہ چیز نہ ملنے کے متعلق بددعا دینے کی تلقین کی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ لفظ ضاله کا اطلاق گمشدہ حیوان پر ہوتا ہے، اس لیے بچوں وغیرہ کی گمشدگی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس سے اتفاق نہیں کیونکہ حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں کے لیے بھی اس لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ بقائے نفس اور احترام آدمیت کے پیش نظر گمشدہ بچوں کا اعلان مساجد میں جائز ہونا چاہیے، پھر ضروریات، ممنوع احکام کو جائز قرار دے دیتی ہیں، کے تحت لانے کی کوشش کی ہے، یقیناً یہ ضابطہ اور اصول صحیح ہے لیکن یہ اس صورت میں جب اس کا کوئی متبادل انتظام نہ ہو سکتا ہو، اگر اس کے متبادل ممکن ہو تو مساجد میں اعلان کی گنجائش نہیں۔ بہتر اور افضل یہی ہے کہ اس طرح کے اعلانات کے لیے الگ سے کوئی انتظام کیا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2355
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2439
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2439
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2439
تمہید کتاب
لغوی طور پر لقطہ گری پڑی چیز کے اٹھانے کو کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ) "حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آل فرعون نے اُٹھا لیا۔" (القصص8:28) اسی طرح لقیط اس لاوارث بچے کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ سے ملے۔شرعی اصطلاح میں لقطے سے مراد ایسی گمشدہ چیز ہے جو راستے میں گری پڑی ملے یا اس کا مالک لاپتا ہو۔ اس کی کئی قسمیں ہیں: بعض ایسی اشیاء ہیں کہ اگر کم ہو جائیں تو ان کا مالک آسانی سے مل جاتا ہے، مثلاً: شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ یا چیک اور ڈرافٹ یا اس طرح کی دیگر اشیاء جن پر مالک کا نام اور پتا درج ہوتا ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ ذرا سی کوشش سے اس کے مالک کو تلاش کیا جا سکتا ہے، مثلاً: موبائل وغیرہ ملے تو سِم کے ذریعے سے اس کے مالک کا اتا پتا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بعض گمشدہ اشیاء ایسی ہوتی ہیں جن کے مالک کا کوئی اتا پتا نہیں ہوتا۔ احادیث میں اس طرح کی اشیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ہدایات دی ہیں۔ محدثین کرام نے ایسی اشیاء سے متعلقہ ہدایات پر "لقطہ" کا عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ ان قیمتی اشیاء کا کوئی نہ کوئی مالک ضرور ہوتا ہے، اس لیے انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اٹھا کر پبلک مقامات پر ان کی تشہیر کرنی چاہیے۔ اس کی مشروعیت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ) "نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو۔" (المائدۃ2:5)فرمان نبوی ہے: "اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔" (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699))گمشدہ چیز کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ہدایت ہے کہ جو شخص کوئی گمشدہ چیز پائے، تو وہ دو گواہ بنا لے یا اس کے بیگ اور تسمے وغیرہ کی حفاظت کرے۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو اس سے کچھ نہ چھپائے کیونکہ وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر وہ نہ آئے تو یہ اللہ کا مال ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ (مسند احمد:4/266)ایک حدیث میں مزید صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس کا مالک نہ ملے تو اسے استعمال کر لو لیکن یہ تمہارے پاس امانت ہو گی اور اگر اس کا طلب گار عمر کے کسی حصے میں بھی آ جائے تو وہ چیز اسے ادا کرنا ہو گی۔" (صحیح مسلم،اللقطۃ،حدیث:4502(1722))گمشدہ چیز اٹھانے والا ایک سال تک اس کی تشہیر اور اعلان کرے۔ جب کوئی اس کی علامات کے متعلق نشاندہی کر دے تو اسے وہ چیز ادا کر دینی چاہیے۔ اس سے مزید ثبوت وغیرہ طلب نہ کیا جائے، البتہ مکہ مکرمہ میں گری پڑی چیز اٹھانے والا اس کا اعلان کرتا رہے یا اسے امانت خانے میں جمع کرا دے۔ اگر کوئی ایسی چیز ملتی ہے جس کے گم ہونے سے انسان پریشان نہیں ہوتا یا گمشدہ چیز اس قدر معمولی ہے کہ وہ اسے اہمیت نہیں دیتا تو ایسی چیز اٹھا کر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً: چھڑی، رسی، پنسل وغیرہ، نیز ایسی اشیاء جو کھانے پینے کے قابل ہوں اور جلد خراب ہونے والی ہوں انہیں بھی اعلان کے بغیر کھایا پیا جا سکتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بہت سے مسائل و احکام بیان کیے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ لوگوں کی مصلحتوں پر پوری نظر رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نصوص کا پہلو بھی مضبوط رکھتے ہیں۔ انہوں نے کل اکیس احادیث بیان کی ہیں، جن میں پانچ معلق اور سولہ موصول ہیں۔ ان میں سے اٹھارہ مکرر اور تین خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ منبعث کے آزاد کردہ غلام حضرت زید کا ایک اثر بھی بیان کیا ہے۔ ان احادیث پر تقریباً بارہ عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی علمی بصیرت اور فقہی استعداد کا پتا چلتا ہے۔ بہرحال اس قسم کے مسائل کا ہماری زندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے، اس لیے ان کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابو بکر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: میں چلا تو ایک چرواہے کو دیکھا جو اپنی بکریاں ہانکےجارہا تھا۔ میں نے پوچھا: تو کس کا چرواہا ہے؟اس نے کہا: ایک قریشی کا۔ اس نے نام لیا تو میں نے اسے پہچان لیا۔ میں نے کہا: کیاتیری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، چنانچہ میں نے اس کو دوہنے کے لیے کہا تو اس نے بکریوں میں سے ایک بکری باندھ دی۔ میں نے کہا: اس بکری کے تھن سے غبار صاف کردے۔ پھر میں نے اس سے کہا: اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لے تو اس نے ایسا ہی کیا اور ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مارا، پھر ایک پیالہ دودھ دوہا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے پانی کی ایک چھاگل رکھ لی تھی جس کے منہ پر کپڑا باندھا ہواتھا۔ میں نے پانی دودھ پر ڈالا حتیٰ کہ وہ نیچے تک ٹھنڈا ہوگیا۔ پھر میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!اسے نوش جاں کیجئے!آپ نے اتنا پیا کہ میرا دل خوش ہوگیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابواب لقطہ میں اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ یہ حدیث بھی احکام لقطہ پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک ایسی چیز کا ذکر ہے جس کا حال لقطہ کے حال سے ملتا جلتا ہے، یعنی ایسی بکری کا دودھ پینا جس کا چرواہا تنہا جنگل میں ہے اور اس سے زائد دودھ یقینا بیکار ہو جائے گا، اس لیے یہ بھی ضائع ہونے والی چیز کے حکم میں ہے۔ جس طرح کوڑے اور رسی کو اٹھانا جائز ہے اسی طرح دودھ کا پینا بھی مباح اور جائز ہے کیونکہ اگر وہ پیا نہ جاتا تو وہ ضائع ہو جاتا۔ (عمدة القاري:180/9) لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اس کی توجیہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ بعض دفعہ تفہیم مسئلہ کے لیے کسی چیز کی ضد ذکر کر دیتے ہیں جس طرح انہوں نے کتاب الایمان میں کفرونفاق کے مسائل بیان کیے ہیں اور کتاب العلم میں جہالت کا تذکرہ کیا ہے، اسی طرح اس مقام پر باب بلا عنوان کے تحت اس حدیث کو بطور ضد لائے ہیں کہ وہ مال جس کا مالک معلوم ہو وہ لقطہ میں شامل نہیں۔ لیکن اس پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ چرواہا بکریوں کا مالک تو نہ تھا ان کا مالک تو وہ قریشی تھا جسے ابوبکر صدیق ؓ جانتے تھے، تو ان کے لیے اجازت کے بغیر دودھ دوہنا کیسے جائز ہوا؟ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ آپ نے عرب کے ہاں دستور کے مطابق دودھ استعمال کیا کیونکہ مالک کی طرف سے چرواہوں کو اجازت ہوتی تھی کہ اگر کوئی ضرورت مند ہو تو وہ ضرورت کے مطابق اسے دودھ دے دیا کریں جیسا کہ ہمارے معاشرے میں شوہر کی طرف سے بیوی کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ دروازے پر آنے والے سائل کو مٹھی یا دو مٹھی آٹا دے دیا کریں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اسے پہچان لیا ہو کہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو دودھ پینے سے منع نہیں کرے گا۔ واللہ أعلم (2) ہمارے ہاں گمشدہ بچوں اور دیگر چیزوں کے متعلق مساجد میں اعلان کیا جاتا ہے، اس اعلان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ واضح رہے کہ گمشدہ چیز یا بچے یا جانور کا مسجد میں اعلان کرنا شرعاً درست نہیں۔ حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر کوئی مسجد میں اپنی گمشدہ چیز کو تلاش کرتا ہے یا اس کا اعلان کرتا ہے تو اسے ان الفاظ میں جواب دیا جائے: اللہ وہ چیز تجھے واپس نہ کرے کیونکہ مساجد کی تعمیر اس مقصد کے لیے نہیں ہوئی۔‘‘ (صحیح مسلم ،المساجد، حدیث:1260(568)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؤ نے مسجد میں ایک ایسے شخص کو دیکھا جو لوگوں سے اپنے گمشدہ سرخ اونٹ کے متعلق دریافت کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ کرے تو اپنے اونٹ کو نہ پائے کیونکہ مساجد تعمیر کرنے کا مقصد عبادت الٰہی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1262(569)) ایک دوسری حدیث میں ان مقاصد کی وضاحت بھی کر دی گئی ہے جن کے پیش نظر مساجد تعمیر کی جاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مساجد اللہ کے ذکر، نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کے لیے بنائی جاتی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الطھاة، حدیث:661(285)) رسول اللہ ﷺ نے گمشدہ اشیاء (حیوانات وغیرہ) کو مساجد میں تلاش کرنے اور ان کے متعلق دریافت کرنے سے منع فرمایا ہے، (سنن ابن ماجة، المساجد:766) نیز ایسے شخص کے لیے اس کی گمشدہ چیز نہ ملنے کے متعلق بددعا دینے کی تلقین کی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ لفظ ضاله کا اطلاق گمشدہ حیوان پر ہوتا ہے، اس لیے بچوں وغیرہ کی گمشدگی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں اس سے اتفاق نہیں کیونکہ حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں کے لیے بھی اس لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ بقائے نفس اور احترام آدمیت کے پیش نظر گمشدہ بچوں کا اعلان مساجد میں جائز ہونا چاہیے، پھر ضروریات، ممنوع احکام کو جائز قرار دے دیتی ہیں، کے تحت لانے کی کوشش کی ہے، یقیناً یہ ضابطہ اور اصول صحیح ہے لیکن یہ اس صورت میں جب اس کا کوئی متبادل انتظام نہ ہو سکتا ہو، اگر اس کے متبادل ممکن ہو تو مساجد میں اعلان کی گنجائش نہیں۔ بہتر اور افضل یہی ہے کہ اس طرح کے اعلانات کے لیے الگ سے کوئی انتظام کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو نضر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو اسرائیل نے خبر دی ابواسحاق سے کہ مجھے براءبن عازب ؓ نے ابوبکر ؓ سے خبر دی (دوسری سند) ہم سے عبداللہ بن رجاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے بیان کیا ابواسحاق سے، اورانہوں نے ابوبکر ؓ سے کہ (ہجرت کرکے مدینہ جاتے وقت) میں نے تلاش کیا تو مجھے ایک چرواہا ملا جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم کس کے چرواہے ہو؟ اس نے کہا کہ قریش کے ایک شخص کا۔ اس نے قریشی کا نام بھی بتایا، جسے میں جانتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے ریوڑ کی بکریوں میں دودھ بھی ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں ! میں نے اس سے کہا کیا تم میرے لیے دودھ دوہ لو گے؟ اس نے کہا، ہاں ضرور! چنانچہ میں نے اس سے دوہنے کے لیے کہا۔ وہ اپنے ریوڑ سے ایک بکری پکڑ لایا۔ پھر میں نے اس سے بکری کا تھن گرد و غبار سے صاف کرنے کے لیے کہا۔ پھر میں نے اس سے اپنا ہاتھ صاف کرنے کے لیے کہا۔ اس نے ویسا ہی کیا۔ ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر صاف کر لیا۔ اور ایک پیالہ دودھ دوہا۔ رسول اللہ ﷺ کے لیے میں نے ایک برتن ساتھ لیا تھا۔ جس کے منہ پر کپڑا بندھا ہوا تھا۔ میں نے پانی دودھ پر بہایا۔ جس سے اس کا نچلا حصہ ٹھنڈا ہو گیا پھر دودھ لے کر نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور عرض کیا کہ دودھ حاضر ہے۔ یا رسول اللہ! پی لیجئے، آپ نے اسے پیا، یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔
حدیث حاشیہ:
اس باب کے لانے سے غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی باغ پر سے گزرے یا جانوروں کے گلے پر سے تو باغ کا پھل یا جانور کا دودھ کھا پی سکتا ہے۔ گو مالک سے اجازت نہ لے، مگر جمہور علماءاس کے خلاف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بے ضرورت ایسا کرنا جائز نہیں۔ اور ضرورت کے وقت اگرکر گزرے تو مالک کو تاوان دے۔ امام احمد نے کہا اگر باغ پر حصار نہ ہو تو تر میوہ کھا سکتا ہے۔ گو ضرورت نہ ہو۔ ایک روایت یہ ہے کہ جب اس کی ضرورت اور احتیاج ہو، لیکن دونوں حالتوں میں اس پر تاوان نہ ہوگا۔ اور دلیل ان کی امام بیہقی کی حدیث ہے ابن عمر ؓ سے مرفوعاً جب تم میں سے کوئی کسی باغ پر سے گزرے تو کھا لے۔ لیکن جمع کرکے نہ لے جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج کل کے حالات میں بغیر اجازت کسی بھی باغ کا پھل کھانا خواہ حاجت ہو یا نہ ہو مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح کسی جانور کا دودھ نکال کر از خود پی لینا اور مالک سے اجازت نہ لینا، یہ بھی اس دور میں ٹھیک نہیں ہے۔ کسی شخص کی اضطراری حالت ہو، وہ پیاس اور بھوک سے قریب المرگ ہو اور اس حالت میں وہ کسی باغ پر سے گزرے یا کسی ریوڑ پر سے، تو اس کے لیے ایسی مجبوری میں اجازت دی گئی ہے۔ یہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں مالک اگر تاوان طلب کرے تو اسے دینا چاہئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Bakr (RA): While I was on my way, all of a sudden I saw a shepherd driving his sheep, I asked him whose servant he was. He replied that he was the servant of a man from Quraish, and then he mentioned his name and I recognized him. I asked, "Do your sheep have some milk?" He replied in the affirmative. I said, "Are you going to milk for me?" He replied in the affirmative. I ordered him and he tied the legs of one of the sheep. Then I told him to clean the udder (teats) of dust and to remove dust off his hands. He removed the dust off his hands by clapping his hands. He then milked a little milk. I put the milk for Allah's Apostle (ﷺ) in a pot and closed its mouth with a piece of cloth and poured water over it till it became cold. I took it to the Prophet (ﷺ) and said, "Drink, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He drank it till I was pleased.