Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: To help the oppressed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2446.
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کردیا۔
تشریح:
مظلوم کی مدد کرنا اسے تقویت دیتا ہے۔ اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد محبت و اخوت سے ایک دوسرے کو ملائے اور نفرتیں پھیلا کر انہیں جدا جدا نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں میں ڈال کر اس عمل کی تقویت کو سمجھایا ہے۔ بعض احادیث میں اس کیفیت کو "تشبیک شیطان" قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب بطور عبث اور بے ہودہ حرکت کیا جائے۔ جب کسی کو کوئی بات سمجھانی مقصود ہو تو انگلیوں کی مذکورہ کیفیت بنانا جائز اور درست ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2362
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2446
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2446
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2446
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تمہید باب
گو وہ کافر ذمی ہو۔ ایک حدیث میں ہے جس کو طحاوی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نکالا ہے کہ اللہ نے ایک بندے کے لیے حکم دیا، اس کو قبر میں سو کوڑے لگائے جائیں۔ وہ دعا اور عاجزی کرنے لگا، آخر ایک کوڑا رہ گیا، لیکن ایک ہی کوڑے سے اس کی ساری قبر آگ سے بھر پور ہو گئی۔ جب وہ حالت جاتی رہی تو اس نے پوچھا، مجھ کو یہ سزا کیوں ملی؟ فرشتوں نے کہا تو نے ایک نماز بے طہارت پڑھ لی تھی اور ایک مظلوم کو دیکھ کر اس کی مدد نہیں کی تھی وحید ) معلوم ہوا کہ مظلوم کی ہر ممکن امداد کرنا ہر بھائی کا ایک اہم انسانی فریضہ ہے۔ جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہے عن سهل بن حنیف عن النبی صلی اللہ علیه وسلم قال من اذل عندہ مومن فلم ینصرہ و هو یقدر علی ان ینصرہ اذله اللہ عزوجل علی روس الخلائق یوم القیمة رواہ احمد یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہے۔ اور وہ باوجود قدرت کے اس کی مدد نہ کرے تو قیامت کے دن اللہ پاک اسے ساری مخلوق کے سامنے ذلیل کرے گا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں و ذهب جمہور الصحابة و التابعین الی وجوب نصر الحق و قتال الباغین(نيل ) یعنی صحابہ و تابعین اور عام علمائے اسلام کا یہی فتویٰ ہے کہ حق کی مدد کے لیے کھڑا ہونا اور باغیوں سے لڑنا واجب ہے۔
حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کردیا۔
حدیث حاشیہ:
مظلوم کی مدد کرنا اسے تقویت دیتا ہے۔ اس حدیث کے مطابق معاشرے کا ہر فرد محبت و اخوت سے ایک دوسرے کو ملائے اور نفرتیں پھیلا کر انہیں جدا جدا نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیاں میں ڈال کر اس عمل کی تقویت کو سمجھایا ہے۔ بعض احادیث میں اس کیفیت کو "تشبیک شیطان" قرار دیا گیا ہے لیکن یہ اس وقت ہے جب بطور عبث اور بے ہودہ حرکت کیا جائے۔ جب کسی کو کوئی بات سمجھانی مقصود ہو تو انگلیوں کی مذکورہ کیفیت بنانا جائز اور درست ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ ؓ نے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے ساتھ ایک عمارت کے حکم میں ہے کہ ایک کو دوسرے سے قوت پہنچتی ہے۔ اورآپ نے اپنی ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں کے اندرکیا۔
حدیث حاشیہ:
کاش ! ہر مسلمان اس حدیث کو یاد رکھتا اور ہر مومن بھائی کے ساتھ بھائیوں جیسی محبت رکھتا تو مسلمانوں کو یہ دن نہ دیکھنے ہوتے جو آج کل دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اب بھی اہل اسلام کو سمجھ دے کہ وہ اپنے پیارے رسول ﷺ کی ہدایت پر عمل کرکے اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A believer to another believer is like a building whose different parts enforce each other." The Prophet (ﷺ) then clasped his hands with the fingers interlaced (while saying that).