باب : اگر کوئی شخص دوسرے کو اجازت دے یا اس کو معاف کر دے مگر یہ بیان نہ کرے کہ کتنے کی اجازت اور معافی دی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: If a person allows another to have his right)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2451.
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی مشروب لایاگیا جس سے آپ نے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ جبکہ بائیں جانب کچھ بزرگ لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: ’’تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں اپنا پس خوردہ (بچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟‘‘ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں اللہ کے رسول ﷺ! میرا حصہ جو آپ سے مجھے ملنے والا ہے وہ میں کسی اور کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر کار آپ نے وہ پیالہ اسی کی ہاتھ میں تھمادیا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بزرگوں کو بچا ہوا مشروب دینے کے لیے برخوردار سے اجازت مانگی۔ اگر وہ اجازت دے دیتا تو یہ اجازت ایسی ہوتی جس میں مشروب کی مقدار معلوم نہیں کہ وہ کتنا پئیں گے اور خود اس کے حصے میں کیا آئے گا۔ اس سے امام بخاری ؒ نے عنوان ثابت کیا کہ اجازت دینے یا حق معاف کرنے کے لیے مقدار کا معلوم ہونا ضروری نہیں۔ (2) بعض صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں وضاحت کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ علامہ عینی کہتے ہیں: اگر وہ لڑکا اجازت دے دیتا تو بزرگوں کے حصے میں جو آتا، اس کی مقدار بھی معلوم نہیں اور جو خود پیتا اس کی مقدار بھی معلوم نہیں تو قیاس سے معلوم ہوا کہ ایسی اجازت جس کی مقدار معلوم نہ ہو جائز ہے۔ (عمدة القاري:201/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2367
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2451
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2451
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2451
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی مشروب لایاگیا جس سے آپ نے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا بیٹھا تھا۔ جبکہ بائیں جانب کچھ بزرگ لوگ تھے۔ آپ ﷺ نے لڑکے سے فرمایا: ’’تم مجھے اجازت دیتے ہوکہ میں اپنا پس خوردہ (بچا ہوا) ان بزرگوں کو دے دوں؟‘‘ لڑکے نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں اللہ کے رسول ﷺ! میرا حصہ جو آپ سے مجھے ملنے والا ہے وہ میں کسی اور کو دینے والا نہیں ہوں۔ آخر کار آپ نے وہ پیالہ اسی کی ہاتھ میں تھمادیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بزرگوں کو بچا ہوا مشروب دینے کے لیے برخوردار سے اجازت مانگی۔ اگر وہ اجازت دے دیتا تو یہ اجازت ایسی ہوتی جس میں مشروب کی مقدار معلوم نہیں کہ وہ کتنا پئیں گے اور خود اس کے حصے میں کیا آئے گا۔ اس سے امام بخاری ؒ نے عنوان ثابت کیا کہ اجازت دینے یا حق معاف کرنے کے لیے مقدار کا معلوم ہونا ضروری نہیں۔ (2) بعض صورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں وضاحت کرنا مناسب نہیں ہوتا۔ علامہ عینی کہتے ہیں: اگر وہ لڑکا اجازت دے دیتا تو بزرگوں کے حصے میں جو آتا، اس کی مقدار بھی معلوم نہیں اور جو خود پیتا اس کی مقدار بھی معلوم نہیں تو قیاس سے معلوم ہوا کہ ایسی اجازت جس کی مقدار معلوم نہ ہو جائز ہے۔ (عمدة القاري:201/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد ساعدی ؓ نے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں دودھ یا پانی پینے کو پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے پیا۔ آپ ﷺ کے دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر والے تھے۔ لڑکے سے آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم مجھے اس کی اجازت دو گے کہ ان لوگوں کو یہ (پیالہ) دے دوں؟ لڑکے نے کہا، نہیں اللہ کی قسم! یا رسول اللہ آپ کی طرف سے ملنے والے حصے کا ایثار میں کسی پر نہیں کر سکتا۔ راوی نے بیان کیا کہ آخر رسول کریم ﷺ نے وہ پیالہ اسی لڑکے کو دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ اس کا حق مقدم تھا وہ داہنی طرف بیٹھا تھا۔ اس حدیث کی باب سے مناسبت کے لیے بعض نے کہا کہ حضرت امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے پہلے وہ پیالہ بوڑھے لوگوں کو دینے کی ابن عباس ؓ سے اجازت مانگی اگر وہ اجازت دے دیتے تو یہ اجازت ایسی ہی ہوتی جس کی مقدار بیان نہیں ہوئی۔ یعنی یہ بیان نہیں کیا گیا کہ کتنے دودھ کی اجازت ہے۔ پس باب کا مطلب نکل آیا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad As-Sa'idi (RA): A drink (milk mixed with water) was brought to Allah's Apostle (ﷺ) who drank some of it. A boy was sitting to his right, and some old men to his left. Allah's Apostle (ﷺ) said to the boy, "Do you allow me to give the rest of the drink to these people?" The boy said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I will not give preference to anyone over me to drink the rest of it from which you have drunk." Allah's Apostle (ﷺ) then handed the bowl (of drink) to the boy. (See Hadith No. 541).