باب : اللہ تعالیٰ کا سورہ بقرہ میں یہ فرمانا ” اور وہ بڑا سخت جھگڑالو ہے “
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "Yet he is the most quarrelsome of the opponents...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2457.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند وہ شخص ہے جو شخص جھگڑالو ہو۔‘‘
تشریح:
(1) ألدالخصم سے مراد وہ شخص ہے جو ذرا ذرا سی بات پر لوگوں سے جھگڑتا ہو یا باطل کا دفاع کرنے میں بڑی مہارت رکھتا ہو۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کتاب التفسیر میں بھی ذکر کیا ہے، تاہم اس مقام پر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عام طور پر مظالم اور تنازعات میں جھگڑوں اور جنگ و جدل تک نوبت پہنچ جاتی ہے، لہذا حتی الامکان جھگڑوں اور جنگ و قتال سے بچنا چاہیے۔ (2) واضح رہے کہ آیت کریمہ میں (أَلَدُّ الْخِصَامِ) سے مراد اخنس بن شریق ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک منافق انسان تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2373
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2457
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2457
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2457
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند وہ شخص ہے جو شخص جھگڑالو ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ألدالخصم سے مراد وہ شخص ہے جو ذرا ذرا سی بات پر لوگوں سے جھگڑتا ہو یا باطل کا دفاع کرنے میں بڑی مہارت رکھتا ہو۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو کتاب التفسیر میں بھی ذکر کیا ہے، تاہم اس مقام پر بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عام طور پر مظالم اور تنازعات میں جھگڑوں اور جنگ و جدل تک نوبت پہنچ جاتی ہے، لہذا حتی الامکان جھگڑوں اور جنگ و قتال سے بچنا چاہیے۔ (2) واضح رہے کہ آیت کریمہ میں (أَلَدُّ الْخِصَامِ) سے مراد اخنس بن شریق ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک منافق انسان تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ ناپسند وہ آدمی ہے جو سخت جھگڑالو ہو۔
حدیث حاشیہ:
بعض بدبختوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ ذرا ذرا سی باتوں میں آپس میں جھگڑا فساد کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ عنداللہ بہت ہی برے ہیں۔ پوری آیت کا ترجمہ یوں ہے، لوگوں میں کوئی ایسا ہے جس کی بات دنیا کی زندگی میں تجھ کو بھلی لگتی ہے اور اپنے دل کی حالت پر اللہ کو گواہ کرتاہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق کے حق میں اتری۔ وہ آنحضرت ﷺ کے پاس آیا اور اسلام کا دعوی کرکے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگا۔ جب کہ دل میں نفاق رکھتا تھا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The most hated person in the sight of Allah is the most quarrelsome person."