مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ بنو ساعدہ کے چوپالوں میں بیٹھے تھے۔
2462.
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فوت کر لیا تو انصار بنو ساعدہ کی چوپال میں جمع ہو گئے۔ میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے عرض کیا: آپ ہمارے ساتھ چلیں، چنانچہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس آئے۔
تشریح:
(1) پبلک مقامات عوامی فائدے کے لیے ہوتے ہیں، وہاں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے مقامات رفاہ عام کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے اجازت کے بغیر ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ (2) کتاب المظالم سے مناسبت اس طرح ہے کہ ایسے مقامات جو نفع عام کے لیے بنائے جاتے ہیں وہاں بیٹھنا ظلم نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ سقیفۂ بنو ساعدہ میں بیٹھے لیکن ان کے مالکان سے اجازت نہیں لی۔ اس مقام پر یہ حدیث انتہائی مختصر ہے، کتاب الحدود میں تفصیلاً بیان ہو گی اور وہاں اس کے متعلق فوائد بھی ذکر کیے جائیں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2378
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2462
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2462
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2462
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تمہید باب
سقیفہ اس سایہ دار جگہ کو کہتے ہیں جہاں لوگ بیٹھا کرتے ہیں۔ دیہاتوں میں یہ جگہ مقرر ہوتی ہے۔ اسے چوپال کہا جاتا ہے۔ مذکورہ معلق روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الاشربۃ،حدیث:5637) عنوان کا مقصد یہ ہے کہ پبلک مقامات پر بیٹھنا جائز ہے بشرطیکہ ان حقوق کو ادا کیا جائے جو ایک حدیث میں بیان ہوئے ہیں: "وہاں سے گزرنے والوں کو تکلیف نہ پہنچائی جائے، اپنی نگاہوں کو نیچا رکھا جائے، بھولے بھٹکے مسافروں کو راستہ بتایا جائے۔" (صحیح البخاری،المظالم،حدیث:2465) ان شرائط کا خیال رکھتے ہوئے پبلک مقامات میں بیٹھنا جائز ہے۔
اور نبی کریم ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ بنو ساعدہ کے چوپالوں میں بیٹھے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فوت کر لیا تو انصار بنو ساعدہ کی چوپال میں جمع ہو گئے۔ میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے عرض کیا: آپ ہمارے ساتھ چلیں، چنانچہ ہم سقیفہ بنی ساعدہ میں ان کے پاس آئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پبلک مقامات عوامی فائدے کے لیے ہوتے ہیں، وہاں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایسے مقامات رفاہ عام کے لیے ہوتے ہیں، اس لیے اجازت کے بغیر ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ (2) کتاب المظالم سے مناسبت اس طرح ہے کہ ایسے مقامات جو نفع عام کے لیے بنائے جاتے ہیں وہاں بیٹھنا ظلم نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ سقیفۂ بنو ساعدہ میں بیٹھے لیکن ان کے مالکان سے اجازت نہیں لی۔ اس مقام پر یہ حدیث انتہائی مختصر ہے، کتاب الحدود میں تفصیلاً بیان ہو گی اور وہاں اس کے متعلق فوائد بھی ذکر کیے جائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺاور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سقیفہ بنو ساعدہ میں بیٹھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا (دوسری سند) اور مجھ کو یونس نے خبر دی کہ ابن شہاب نے کہا، مجھ کو خبردی عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، انہیں عبداللہ بن عباس ؓ نے خبر دی کہ عمر ؓ نے کہا، جب اپنے نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے وفات دے دی تو انصار بنو ساعدہ کے سقیفہ (چوپال) میں جمع ہوئے۔ میں نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ آپ ہمیں بھی وہیں لے چلئے۔ چنانچہ ہم انصار کے یہاں سقیفہ بنو ساعدہ میں پہنچے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ بستیوں میں عوام و خواص کی بیٹھک کے لیے چوپال کا عام رواج ہے۔ چنانچہ مدینۃ المنورہ میں بھی قبیلہ بنو ساعدہ میں انصار کی چوپال تھی۔ جہاں بیٹھ کر عوامی امور انجام دیئے جاتے تھے، حضرت صدیق اکبر ؓ کی امات و خلافت کی بیعت کا مسئلہ بھی اسی جگہ حل ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar (RA): When Allah took away the soul of His Prophet (ﷺ) at his death, the Ansar assembled In the shed of Bani Sa'ida. I said to Abu Bakr, "Let us go." So, we come to them (i.e. to Ansar) at the shed of Bani Sa'ida. (See Hadith No. 19, Vol. 5 for details)