باب : راستوں میں کنواں بنانا جب کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ ہو
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: The digging of wells on the ways)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2466.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا ہوا کہ ایک شخص راستے میں جا رہاتھا کہ اسے سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر پڑا اور اپنی پیاس بجھائی۔ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے خیال کیا کہ اسے بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اترااور اپنا موزہ پانی سے بھرا، پھر وہ کتے کو پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر زندہ جگر کی خدمت میں اجرو ثواب ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس عنوان کا مقصد یہ نہیں کہ عین راستے کے درمیان میں کنواں کھود دیں بلکہ راستے میں اس کے دائیں بائیں ہو۔ اس وقت خدمتِ خلق کے لیے کچے کنویں راستوں کے کناروں پر بنائے جاتے تھے۔ ان میں اترنے کے لیے سیڑھیاں بھی ہوتی تھیں۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ راستے میں کنواں بنایا جا سکتا ہے تاکہ آنے جانے والے مسافر اس سے پانی پئیں اور اپنی پیاس بجھائیں بشرطیکہ کسی کے لیے نقصان یا تکلیف کا باعث نہ ہو۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، مسلمان ہو یا کافر پانی پلانے کا اہتمام کرنا بہت ثواب کا کام ہے حتیٰ کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ اگر وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2382
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2466
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2466
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2466
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایسا ہوا کہ ایک شخص راستے میں جا رہاتھا کہ اسے سخت پیاس لگی۔ اس نے ایک کنواں دیکھا تو اس میں اتر پڑا اور اپنی پیاس بجھائی۔ باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہانپ رہا ہے اور پیاس کی شدت سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ اس شخص نے خیال کیا کہ اسے بھی اسی طرح پیاس لگی ہے جیسے مجھے لگی تھی، چنانچہ وہ کنویں میں اترااور اپنا موزہ پانی سے بھرا، پھر وہ کتے کو پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل قبول کیا اور اسے بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ ! کیا جانوروں کی خدمت میں بھی ہمارے لیے اجرہے؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر زندہ جگر کی خدمت میں اجرو ثواب ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان کا مقصد یہ نہیں کہ عین راستے کے درمیان میں کنواں کھود دیں بلکہ راستے میں اس کے دائیں بائیں ہو۔ اس وقت خدمتِ خلق کے لیے کچے کنویں راستوں کے کناروں پر بنائے جاتے تھے۔ ان میں اترنے کے لیے سیڑھیاں بھی ہوتی تھیں۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ راستے میں کنواں بنایا جا سکتا ہے تاکہ آنے جانے والے مسافر اس سے پانی پئیں اور اپنی پیاس بجھائیں بشرطیکہ کسی کے لیے نقصان یا تکلیف کا باعث نہ ہو۔ (3) اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، مسلمان ہو یا کافر پانی پلانے کا اہتمام کرنا بہت ثواب کا کام ہے حتیٰ کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ اگر وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوبکر کے غلام سمی نے، ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، ایک شخص راستے میں سفر کر رہا تھا کہ اسے پیاس لگی۔ پھر اسے راستے میں ایک کنواں ملا اور وہ اس کے اندر اتر گیا اور پانی پیا۔ جب باہر آیا تو اس کی نظر ایک کتے پر پڑی جو ہانپ رہا تھا اور پیاس کی سختی سے کیچڑ چاٹ رہا تھا۔ اس شخص نے سوچا کہ اس وقت یہ کتا بھی پیاس کی اتنی ہی شدت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا۔ چنانچہ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر اس نے کتے کو پلایا۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا یہ عمل مقبول ہوا۔ اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔ صحابہ نے پوچھا، یا رسول اللہ کیا جانوروں کے سلسلہ میں بھی ہمیں اجر ملتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں، ہر جاندار مخلوق کے سلسلے میں اجر ملتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ نکالا کہ راستے میں کنواں کھود سکتے ہیں۔ تاکہ آنے جانے والے اس میں سے پانی پئیں اور آرام اٹھائیں بشرطیکہ ضرر کا خوف نہ ہو، ورنہ کھودنے والا ضامن ہوگا اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ ہر جاندار کو خواہ وہ انسان ہو یا حیوان، کافر ہو یا مسلمان سب کو پانی پلانا بہت بڑا کار ثواب ہے۔ حتی کہ کتا بھی حق رکھتا ہے کہ وہ پیاسا ہو تو اسے بھی پانی پلایا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "A man felt very thirsty while he was on the way, there he came across a well. He went down the well, quenched his thirst and came out. Meanwhile he saw a dog panting and licking mud because of excessive thirst. He said to himself, "This dog is suffering from thirst as I did." So, he went down the well again and filled his shoe with water and watered it. Allah thanked him for that deed and forgave him. The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Is there a reward for us in serving the animals?" He replied: "Yes, there is a reward for serving any animate (living being)." (See Hadith No. 551)