باب : کسی قوم کی کوڑے کے پاس ٹھہرنا اور وہاں پیشاب کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: Standing and urinating at the dumps)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2471.
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا یا (یہ) کہا کہ نبی ﷺ ایک قوم کے کوڑا پھینکنےکی جگہ پر تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
تشریح:
(1) جہاں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے اسے عوامی حیثیت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ کسی کی ذاتی ملکیت ہو۔ جہاں گندگی اور دوسری فضول اشیاء پھینکی جاتی ہیں وہاں پیشاب کرنے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اور نہ ایسا کرنا اجازت کے بغیر تصرف ہی ہے۔ ایسے مقامات کو استعمال کرنے کے لیے عرفی اجازت ہی کافی ہے کیونکہ ایسی جگہیں پیشاب اور کوڑے کرکٹ کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں، نیز ایسی چیزوں کے متعلق لڑنا جھگڑنا درست نہیں۔ (2) کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی مختلف توجیہات پہلے بیان ہو چکی ہیں، ممکن ہے کہ کوڑے اور نجاست میں بیٹھنے کی جگہ نہ ہو، اس طرح کی ضرورت کے پیش نظر کھڑے ہو کر پیشاب کیا جا سکتا ہے لیکن اسے عادت بنا لینا صحیح نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2387
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2471
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2471
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2471
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا یا (یہ) کہا کہ نبی ﷺ ایک قوم کے کوڑا پھینکنےکی جگہ پر تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) جہاں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے اسے عوامی حیثیت حاصل ہوتی ہے، خواہ وہ کسی کی ذاتی ملکیت ہو۔ جہاں گندگی اور دوسری فضول اشیاء پھینکی جاتی ہیں وہاں پیشاب کرنے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اور نہ ایسا کرنا اجازت کے بغیر تصرف ہی ہے۔ ایسے مقامات کو استعمال کرنے کے لیے عرفی اجازت ہی کافی ہے کیونکہ ایسی جگہیں پیشاب اور کوڑے کرکٹ کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں، نیز ایسی چیزوں کے متعلق لڑنا جھگڑنا درست نہیں۔ (2) کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی مختلف توجیہات پہلے بیان ہو چکی ہیں، ممکن ہے کہ کوڑے اور نجاست میں بیٹھنے کی جگہ نہ ہو، اس طرح کی ضرورت کے پیش نظر کھڑے ہو کر پیشاب کیا جا سکتا ہے لیکن اسے عادت بنا لینا صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے حذیفہ ؓ نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، یا یہ کہا کہ نبی کریم ﷺ ایک قوم کی کوڑی پر تشریف لائے، اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ کوڑی جہاں کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا ہے ایک عوامی جگہ ہے جہاں پیشاب وغیرہ کیا جاسکتا ہے۔ ایسی چیزوں پر جھگڑا بازی درست نہیں بشرطیکہ وہ عوامی ہوں، کھڑے ہو کر پیشاب کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ چھینٹوں سے کامل طور پر بچا جا سکے۔ اگر ایسا خطرہ ہو تو کھڑے ہو کر پیشاب کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ آج کل پتلون باز لوگ کرتے رہتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hudhaifa (RA): I saw Allah's Apostle (ﷺ) coming (or the Prophet (ﷺ) came) to the dumps of some people and urinated there while standing .