باب : اگر عام راستہ میں اختلاف ہو اور وہاں رہنے والے کچھ عمارت بنانا چاہیں تو سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے چھوڑ دیں
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: When there is a dispute about a public way)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2473.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب لوگوں میں شارع عام کے متعلق باہمی اختلاف ہوا تھا تو نبی ﷺ نے سات ہاتھ راستہ چھوڑنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔
تشریح:
(1) سات ہاتھ راستہ آدمیوں اور حیوانات کے آنے جانے کے لیے کافی ہے۔ آج کل بڑی بڑی گاڑیوں کا دور ہے، اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سات ہاتھ سے زیادہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جو لوگ راستے میں بیٹھ کر سبزی یا پھل وغیرہ بیچتے ہیں ان کے لیے بھی یہی حکم ہے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ (2) حدیث کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی بھی مقدار پر راضی ہو جائیں تو وہی فیصلہ ہو گا۔ جھگڑے کی صورت میں سات ہاتھ تک راستہ تجویز کیا جائے گا تاکہ بار برداری کے جانوروں کو آنے جانے میں آسانی ہو۔ اگر پہلے سے کوئی راستہ اس سے وسیع ہے تو اسے تنگ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2389
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2473
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2473
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2473
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جب لوگوں میں شارع عام کے متعلق باہمی اختلاف ہوا تھا تو نبی ﷺ نے سات ہاتھ راستہ چھوڑنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) سات ہاتھ راستہ آدمیوں اور حیوانات کے آنے جانے کے لیے کافی ہے۔ آج کل بڑی بڑی گاڑیوں کا دور ہے، اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سات ہاتھ سے زیادہ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ جو لوگ راستے میں بیٹھ کر سبزی یا پھل وغیرہ بیچتے ہیں ان کے لیے بھی یہی حکم ہے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ (2) حدیث کا مقصد یہ ہے کہ لوگ کسی بھی مقدار پر راضی ہو جائیں تو وہی فیصلہ ہو گا۔ جھگڑے کی صورت میں سات ہاتھ تک راستہ تجویز کیا جائے گا تاکہ بار برداری کے جانوروں کو آنے جانے میں آسانی ہو۔ اگر پہلے سے کوئی راستہ اس سے وسیع ہے تو اسے تنگ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے زبیر بن خریت نے اور ان سے عکرمہ نے کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا تھا جب کہ راستے (کی زمین) کے بارے میں جھگڑا ہو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دینا چاہئے۔
حدیث حاشیہ:
ایک متمدن ملک کے شہری قوانین میں ہر قسم کے انتظامات کا لحاظ بے حد ضروری ہے۔ شارع عام کے لیے جگہ مقرر کرنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ طریق میتاءجس کا ذکر باب میں ہے ا س کا معنی چوڑا یا عام راستہ۔ بعض نے کہا کہ میتاءسے یہ مراد ہے کہ نا آباد زمین اگر آباد ہو اور وہاں راستہ قائم کرنے کی ضرورت پڑے اور رہنے والے لوگ وہاں جھگڑا کریں تو کم سے کم سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے چھوڑ دی جائے جو آدمیوں اور سواریوں کے نکلنے کے لیے کافی ہے۔ قسطلانی نے کہا، جو دکاندار راستے پر بیٹھا کرتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ اگر راستہ سات ہاتھ سے زیادہ ہو تو وہ فالتو حصہ میں بیٹھ سکتے ہیں۔ ورنہ سات ہاتھ کے اندر اندر ان کو بیٹھنے سے منع کیا جائے تاکہ چلنے والوں کو تکلیف نہ ہو۔ یہ وہ انتظامی قانون ہے جو آج سے چودہ سو برس قبل اسلام نے وضع فرمایا۔ جو بعد میں بیشتر ملکوں کا شہری ضابطہ قرار پایا۔ یہ پیغمبر اسلام ﷺ کا وہ خدائی فہم تھا جو اللہ نے آپ ﷺ کو عطا فرما یا تھا۔ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں گاڑیوں، موٹروں، چھکڑوں، بگھیوں کا رواج نہ تھا۔ اونٹ اور آدمیوں کے آنے جانے کے لیے تین ہاتھ راستہ بھی کفایت کرتا ہے مگر عام ضروریات اور مستقبل کی تمدنی شہری ترقیوں کے پیش نظر ضروری تھا کہ کم از کم سات ہاتھ زمین گزر گاہ عام کے لیے چھوڑی جائے کیوں کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جانے اور آنے والی سواریوں کی مڈبھیڑ ہو جاتی ہے۔ تو دونوں کے برابر نکل جانے کے لیے کم از کم سات ہاتھ زمین راستہ کے لیے مقرر ہونی ضروری ہے کیوں کہ اتنے راستے میں ہر دو طرف کی سواریاں بآسانی نکل سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) judged that seven cubits should be left as a public way when there was a dispute about the land.