باب : کیا کوئی ایسا مٹکا توڑا جاسکتا ہے یا ایسی مشک پھاڑی جاسکتی ہے جس میں شراب موجود ہو؟
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: To break the pots containing wine)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اگر کسی شخض نے بت، صلیب یا ستار یا کوئی بھی اس طرح کی چیز جس کی لکڑی سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو توڑ دی؟ قاضی شریح رحمہ الله کی عدالت میں ایک ستار کا مقدمہ لایا گیا، جسے توڑ دیا تھا، تو انہوں نے اس کا بدلہ نہیں دلوایا
2477.
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے خیبر کے دن جلتی ہوئی آگ دیکھی تو فرمایا: ’’یہ آگ کس چیزپر جلائی گئی ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: گھر یلو گدھوں کا گوشت پکایا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ہنڈیوں کو توڑدو اور گوشت کو پھینک دو۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ہم گوشت تو پھینک دیتےہیں لیکن ہنڈیوں کو دھونہ لیں؟ آپ نے فرمایا: ’’دھولو۔‘‘ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی اویس کے کہنے کے مطابق (الْأَنَسِيَّةِ) کا الف اور نون مفتوح ہے۔
تشریح:
(1) صحابۂ کرام ؓ نے قرینے سے معلوم کر لیا کہ آپ کا حکم وجوب کے بجائے استحباب کے لیے ہے، اس لیے انہوں نے کہا کہ ہم گوشت تو پھینک دیتے ہیں لیکن ہنڈیوں کو توڑنے کی بجائے دھو کر پاک کر لیتے ہیں تاکہ ہم انہیں استعمال میں لائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ (2) جس برتن میں ناپاک چیز ہو اسے توڑنے کے بجائے ناپاک چیز پھینک کر برتن وغیرہ صاف کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ (3) گھریلو گدھوں کا گوشت پلید ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پھینکنے کا حکم دیا، حالانکہ اس سے پہلے ان کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ مذکورہ حدیث گھریلو گدھے کا گوشت حرام ہونے پر واضح دلیل ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2393
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2477
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2477
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2477
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے اس کا حکم بیان نہیں کیا کیونکہ اس میں تفصیل تھی کہ اگر شراب وغیرہ کے برتن ایسے ہیں کہ شراب بہا دی جائے اور انہیں دھو کر پاک کر لیا جائے تو ایسے برتنوں کو ضائع کرنا جائز نہیں، بصورت دیگر توڑنا جائز ہے، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے دو جز قائم کر کے دو احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں مٹکوں کو توڑنے اور مشکیزوں کے پھاڑنے کا حکم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بطور سزا دیا تھا کیونکہ انہیں پاک کر کے ان سے فائدہ حاصل کرنا ممکن تھا جیسا کہ آئندہ حدیث سلمہ سے واضح ہوتا ہے۔ (فتح الباری:5/151) قاضی شریح کے اثر کو امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/774)
اگر کسی شخض نے بت، صلیب یا ستار یا کوئی بھی اس طرح کی چیز جس کی لکڑی سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو توڑ دی؟ قاضی شریح رحمہ الله کی عدالت میں ایک ستار کا مقدمہ لایا گیا، جسے توڑ دیا تھا، تو انہوں نے اس کا بدلہ نہیں دلوایا
حدیث ترجمہ:
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے خیبر کے دن جلتی ہوئی آگ دیکھی تو فرمایا: ’’یہ آگ کس چیزپر جلائی گئی ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: گھر یلو گدھوں کا گوشت پکایا جا رہا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ہنڈیوں کو توڑدو اور گوشت کو پھینک دو۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: ہم گوشت تو پھینک دیتےہیں لیکن ہنڈیوں کو دھونہ لیں؟ آپ نے فرمایا: ’’دھولو۔‘‘ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) بیان کرتے ہیں کہ ابن ابی اویس کے کہنے کے مطابق (الْأَنَسِيَّةِ) کا الف اور نون مفتوح ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحابۂ کرام ؓ نے قرینے سے معلوم کر لیا کہ آپ کا حکم وجوب کے بجائے استحباب کے لیے ہے، اس لیے انہوں نے کہا کہ ہم گوشت تو پھینک دیتے ہیں لیکن ہنڈیوں کو توڑنے کی بجائے دھو کر پاک کر لیتے ہیں تاکہ ہم انہیں استعمال میں لائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی۔ (2) جس برتن میں ناپاک چیز ہو اسے توڑنے کے بجائے ناپاک چیز پھینک کر برتن وغیرہ صاف کر کے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ (3) گھریلو گدھوں کا گوشت پلید ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پھینکنے کا حکم دیا، حالانکہ اس سے پہلے ان کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ مذکورہ حدیث گھریلو گدھے کا گوشت حرام ہونے پر واضح دلیل ہے۔
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح کے پاس طنبورہ توڑنے کا مقدمہ آیا تو انھوں نے اس کے متعلق کوئی تاوان دلانے کا فیصلہ نہ کیا
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ نبی اکرم ﷺ نے غزوہ خیبر کے موقع پر دیکھا کہ آگ جلائی جا رہی ہے، آپ ﷺ نے پوچھا یہ آگ کس لیے جلائی جا رہی ہے؟ صحابہ ؓ نے عر ض کیا کہ گدھے (کا گوشت پکانے) کے لیے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ برتن (جس میں گدھے کا گوشت ہو) توڑ دو اور گوشت پھینک دو۔ اس پر صحابہ بولے ایسا کیوں نہ کرلیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور برتن دھو لیں۔ آپ نے فرمایا کہ برتن دھو لو۔
حدیث حاشیہ:
پہلے آپ ﷺ نے سختی کے لیے ہانڈیوں کے توڑ ڈالنے کا حکم دیا۔ پھر شاید آپ پر وحی آئی اورآپ نے ان کا دھو ڈالنا بھی کافی سمجھا۔ ا س حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ حرام چیزوں کے ظروف کو توڑ ڈالنا درست ہے مگر وہ ظروف اگر ذمی غیر مسلموں کے ہیں تو یہ ان کے لیے نہیں ہے۔ امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں فإن کان الأوعیة بحیث یراق ما فیها فإذا غسلت طهرت و انتفع بها لم یجز إتلافها و الإجازة۔ (نیل) یعنی اگر وہ برتن ایسا ہے کہ اس میں سے شراب گرا کر اسے دھویا جاسکتا ہے اور اس کا پاک ہونا ممکن ہے تو اسے پاک کرکے اس سے نفع اٹھایا جاسکتاہے اور اگر ایسا نہیں تو جائز نہیں۔ پھر اسے تلف ہی کرنا ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salama bin Al-Akwa (RA): On the day of Khaibar the Prophet (ﷺ) saw fires being lighted. He asked, "Why are these fires being lighted?" The people replied that they were cooking the meat of donkeys. He said, "Break the pots and throw away their contents." The people said, "Shall we throw away their contents and wash the pots (rather than break them)?" He said, "Wash them."