باب : کیا کوئی ایسا مٹکا توڑا جاسکتا ہے یا ایسی مشک پھاڑی جاسکتی ہے جس میں شراب موجود ہو؟
)
Sahi-Bukhari:
Oppressions
(Chapter: To break the pots containing wine)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اگر کسی شخض نے بت، صلیب یا ستار یا کوئی بھی اس طرح کی چیز جس کی لکڑی سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو توڑ دی؟ قاضی شریح رحمہ الله کی عدالت میں ایک ستار کا مقدمہ لایا گیا، جسے توڑ دیا تھا، تو انہوں نے اس کا بدلہ نہیں دلوایا
2478.
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ انھیں اپنے ہاتھ کی چھڑی سے چوک دیتے اور فرماتے تھے۔ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔۔۔۔‘‘ ﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ الْآيَةَ﴾
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اپنی چھڑی سے مارا اور انہیں زمین پر گرا دیا۔ اس عمل سے بتوں اور ان کے پجاریوں کی رسوائی مقصود تھی، نیز اس بات کا اظہار تھا کہ یہ بت خود اپنے آپ کو نفع یا نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے تو دوسروں کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کا ایندھن پتھروں کو بھی بنایا ہے تاکہ مشرکین کی مزید رسوائی ہو کہ ان کے معبود بھی ان کے ہمراہ جہنم کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ (2) خلاف شرع آلات ضائع کرنا جائز ہیں۔ اس کے علاوہ آلات موسیقی توڑ کر ان کی شکل و صورت تبدیل کرنا جائز ہے، توڑنے کے بعد ان کی لکڑی استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔ اگر بت سونے چاندی کے ہوں تو انہیں توڑنے کے بعد بقیہ ٹکڑوں کی خریدوفروخت کی جا سکتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2394
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2478
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2478
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2478
تمہید کتاب
مظالم، مظلمة کی جمع ہے۔ مظلمة، مصدر میمی ہے جس کے معنی ہیں: حد سے تجاوز کرنا۔ شرعی طور پر ظلم، لوگوں پر ناحق زیادتی کرنے، کسی چیز کو بلا استحقاق لے لینے کو کہتے ہیں۔ مظلمہ اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو ناحق لے لی جائے۔ اس سے ملتا جلتا ایک لفظ غصب ہے جس کے معنی کسی کا مال زبردستی لینے کے ہیں۔ قرآن و حدیث میں ظلم اور غصب کے متعلق سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگر کسی نے دوسرے پر ظلم کیا یا اس کا مال زبردستی چھین لیا تو اسے دنیا میں بھی سخت سزا دی جا سکتی ہے اور آخرت میں بھی اسے دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ غصب، ظلم ہی کی ایک بدترین قسم ہے۔ یہ اس حیثیت سے بھی ظلم ہے کہ غاصب ایک کمزور انسان کا مال ناحق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں چند اصطلاحات حسب ذیل ہیں: ٭ غاصب: زبردستی مال چھیننے والے کو کہا جاتا ہے۔ ٭ مغصوب: وہ مال جو زبردستی چھینا گیا ہو۔ ٭ مغصوب منه: اس شخص کو کہتے ہیں جس سے مال چھینا گیا ہو۔قیامت کے دن غصب کرنے والے سے غصب کردہ مال واپس کرنے کے متعلق کہا جائے گا، وہاں اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہو گی، لہذا اس کی نیکیوں میں سے کچھ حصہ اس شخص کو دے دیا جائے گا جس کا حق اس نے دبایا تھا۔ اگر غاصب کے نامۂ اعمال میں کوئی نیکی نہ ہوئی تو مغصوب منہ کے گناہوں کا کچھ حصہ اس کے نامۂ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا۔ یہ اس وقت ہو گا جب ظلم کے بدلے میں ظلم نہ کیا گیا ہو اور غصب کے بدلے کوئی غصب نہ کیا گیا ہو۔امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ظلم و غصب کی برائی اپنے اسلوب میں بیان کی ہے اور ان سے متعلقہ مسائل و احکام واضح کیے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس مرفوع احادیث ذکر کی ہیں جن میں چھ معلق اور بیالیس موصول ہیں۔ ان میں اٹھائیس مکرر اور بیس خالص ہیں۔ چھ احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے سات آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے پینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے ظلم و غصب سے متعلق بیسیوں مسائل سے بھی آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ پیش نظر رہنا چاہیے: (وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ ﴿٤٧﴾) "اور ہم قیامت کے دل عدل و انصاف پر مبنی ترازو قائم کریں گے، لہذا کسی کی کچھ بھی حق تلفی نہیں ہو گی۔ اگر ظلم رائی کے دانے کے برابر بھی ہوا تو ہم اسے بھی سامنے لائیں گے اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (الانبیاء47:21)قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ انتہائی غوروفکر سے اور سوچ سمجھ کر احادیث کا مطالعہ کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کر کے اس کا حکم بیان نہیں کیا کیونکہ اس میں تفصیل تھی کہ اگر شراب وغیرہ کے برتن ایسے ہیں کہ شراب بہا دی جائے اور انہیں دھو کر پاک کر لیا جائے تو ایسے برتنوں کو ضائع کرنا جائز نہیں، بصورت دیگر توڑنا جائز ہے، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے دو جز قائم کر کے دو احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں مٹکوں کو توڑنے اور مشکیزوں کے پھاڑنے کا حکم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم بطور سزا دیا تھا کیونکہ انہیں پاک کر کے ان سے فائدہ حاصل کرنا ممکن تھا جیسا کہ آئندہ حدیث سلمہ سے واضح ہوتا ہے۔ (فتح الباری:5/151) قاضی شریح کے اثر کو امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:7/774)
اگر کسی شخض نے بت، صلیب یا ستار یا کوئی بھی اس طرح کی چیز جس کی لکڑی سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو توڑ دی؟ قاضی شریح رحمہ الله کی عدالت میں ایک ستار کا مقدمہ لایا گیا، جسے توڑ دیا تھا، تو انہوں نے اس کا بدلہ نہیں دلوایا
حدیث ترجمہ:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ جب مکہ میں داخل ہوئے تو کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ انھیں اپنے ہاتھ کی چھڑی سے چوک دیتے اور فرماتے تھے۔ ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔۔۔۔‘‘﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ الْآيَةَ﴾
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اپنی چھڑی سے مارا اور انہیں زمین پر گرا دیا۔ اس عمل سے بتوں اور ان کے پجاریوں کی رسوائی مقصود تھی، نیز اس بات کا اظہار تھا کہ یہ بت خود اپنے آپ کو نفع یا نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے تو دوسروں کو کیا فائدہ دے سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کا ایندھن پتھروں کو بھی بنایا ہے تاکہ مشرکین کی مزید رسوائی ہو کہ ان کے معبود بھی ان کے ہمراہ جہنم کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ (2) خلاف شرع آلات ضائع کرنا جائز ہیں۔ اس کے علاوہ آلات موسیقی توڑ کر ان کی شکل و صورت تبدیل کرنا جائز ہے، توڑنے کے بعد ان کی لکڑی استعمال میں لائی جا سکتی ہے۔ اگر بت سونے چاندی کے ہوں تو انہیں توڑنے کے بعد بقیہ ٹکڑوں کی خریدوفروخت کی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
قاضی شریح کے پاس طنبورہ توڑنے کا مقدمہ آیا تو انھوں نے اس کے متعلق کوئی تاوان دلانے کا فیصلہ نہ کیا
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی نجیح نے بیان کیا، ان سے مجاہد نے بیان کیا، ان سے ابومعمر نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ (فتح مکہ دن جب) مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ ﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ ان بتوں پر مارنے لگے اور فرمانے لگے کہ ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔“
حدیث حاشیہ:
یہ بت کفار قریش نے مختلف نبیوں اور نیک لوگوں کی طرف منسوب کرکے بنائے تھے۔ حتی کہ کچھ بت حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی طر ف بھی منسوب تھے۔ فتح مکہ کے دن اللہ کے رسول ﷺ نے کعبہ شریف کو ان سے پاک کیا اورآج کے دن سے کعبہ شریف ہمیشہ کے لیے بتوں سے پاک ہوگیا۔ الحمد للہ آج چودھویں صدی ختم ہو رہی ہے اسلام بہت سے نشیب و فراز سے گزرا مگر بفضلہ تعالیٰ تطہیر کعبہ اپنی جگہ پر قائم و دائم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Masud (RA): The Prophet (ﷺ) entered Makkah and (at that time) there were three hundred-and-sixty idols around the Ka’bah. He started stabbing the idols with a stick he had in his hand and reciting: "Truth (Islam) has come and Falsehood (disbelief) has vanished."