باب : کھانے اور سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: About (sharing) meals and the Nahd and Urud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
2483.
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دستہ ساحل کی طرف روانہ فرمایا: جس پر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو امیر بنایا۔ وہ دستہ تین سو افراد پر مشتمل تھا۔ اور میں بھی ان میں شامل تھا، چنانچہ ہم روانہ ہوئے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ہماری خوراک ختم ہوگئی۔ حضرت ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ جوزادراہ بچا ہے اسے جمع کیا جائے۔ جب اسے جمع کیا گیا تو کھجوروں کے دو تھیلے بن گئے۔ وہ ہمیں اس میں سے روزانہ تھوڑی تھوڑی خوراک دینے لگے۔ جب وہ بھی ختم ہونے لگا تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملنا شروع ہوگئی۔ میں (وہب بن کیسان )نے(حضرت جابر ؓ سے)دریافت کیا: ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا؟ انھوں نے کہا: جب وہ (ایک کھجور)بھی نہ رہی تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ بھی غنیمت تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ ہم ساحل سمندر پرپہنچے تو ایک بہت بڑی، پہاڑ جیسی مچھلی ملی جسے لشکر اٹھارہ دن تک کھاتا رہا۔ پھر حضرت عبیدہ ؓ نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ پھر انھوں نے کہا کہ کجاوے سمیت اونٹ اس کے نیچے سے گزرے تو وہ ان کے نیچے سے گزر گیا اور کسی طرف سے انھیں چھوا تک نہیں۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فوجی دستے کا سفر خرچ ایک جگہ جمع کر لیا پھر اندازے سے تھوڑا تھوڑا تمام فوجیوں کو تقسیم کرتے رہے، اس طرح زاد سفر کی شراکت اور اس کی اندازے سے تقسیم ثابت ہوئی۔ اس میں تھوڑے بہت، یعنی معمولی فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا جو اذن عرفی (جس کی عرف عام میں اجازت سمجھی جاتی ہو) کی وجہ سے جائز ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ جب تمام فوجیوں کا راشن جمع کر دیا گیا تو کوئی اپنے حصے سے کم کھائے گا اور کوئی زیادہ استعمال کرے گا۔ یہ کمی بیشی ممنوع نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ایک عمدہ شکل ہے اور ایسے مواقع پر اسلامی طریقے کے مطابق ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ اس جذبۂ ایثار کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایک پہاڑ جیسی مچھلی سمندر کے کنارے پھینک دی جسے تین سو افراد کئی دنوں تک کھاتے رہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2399
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2483
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2483
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2483
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
نهد یہ ہے کہ دوران سفر میں یا جنگ کے موقع پر جس کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ جمع کر لیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جاتا۔ یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے۔ اس طرح کسی کا حصہ کم ہو گا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا، اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے، تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہو گا۔ عام حالات میں طعام میں کمی بیشی اور ادھار منع ہے لیکن موجودہ صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں کمی بیشی یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پر پایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاً تقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہو جائے۔ کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے اور آئندہ بھی بیان ہو گا۔
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دستہ ساحل کی طرف روانہ فرمایا: جس پر حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ کو امیر بنایا۔ وہ دستہ تین سو افراد پر مشتمل تھا۔ اور میں بھی ان میں شامل تھا، چنانچہ ہم روانہ ہوئے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ہماری خوراک ختم ہوگئی۔ حضرت ابو عبیدہ نے حکم دیا کہ جوزادراہ بچا ہے اسے جمع کیا جائے۔ جب اسے جمع کیا گیا تو کھجوروں کے دو تھیلے بن گئے۔ وہ ہمیں اس میں سے روزانہ تھوڑی تھوڑی خوراک دینے لگے۔ جب وہ بھی ختم ہونے لگا تو ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور ملنا شروع ہوگئی۔ میں (وہب بن کیسان )نے(حضرت جابر ؓ سے)دریافت کیا: ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا؟ انھوں نے کہا: جب وہ (ایک کھجور)بھی نہ رہی تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ بھی غنیمت تھی۔ پھر ایسا ہوا کہ ہم ساحل سمندر پرپہنچے تو ایک بہت بڑی، پہاڑ جیسی مچھلی ملی جسے لشکر اٹھارہ دن تک کھاتا رہا۔ پھر حضرت عبیدہ ؓ نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ پھر انھوں نے کہا کہ کجاوے سمیت اونٹ اس کے نیچے سے گزرے تو وہ ان کے نیچے سے گزر گیا اور کسی طرف سے انھیں چھوا تک نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ ؓ نے فوجی دستے کا سفر خرچ ایک جگہ جمع کر لیا پھر اندازے سے تھوڑا تھوڑا تمام فوجیوں کو تقسیم کرتے رہے، اس طرح زاد سفر کی شراکت اور اس کی اندازے سے تقسیم ثابت ہوئی۔ اس میں تھوڑے بہت، یعنی معمولی فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا جو اذن عرفی (جس کی عرف عام میں اجازت سمجھی جاتی ہو) کی وجہ سے جائز ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ جب تمام فوجیوں کا راشن جمع کر دیا گیا تو کوئی اپنے حصے سے کم کھائے گا اور کوئی زیادہ استعمال کرے گا۔ یہ کمی بیشی ممنوع نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کی ایک عمدہ شکل ہے اور ایسے مواقع پر اسلامی طریقے کے مطابق ایسا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے۔ اس جذبۂ ایثار کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایک پہاڑ جیسی مچھلی سمندر کے کنارے پھینک دی جسے تین سو افراد کئی دنوں تک کھاتے رہے۔
ترجمۃ الباب:
نیز ماپ تول کردی جانے والی اشیاء کیسے تقسیم کی جائیں؟ اندازے سے یا مٹھی مٹھی بھر کے!کیونکہ مسلمان زاد سفر کے متعلق کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کسی نے کچھ اس چیز سے کھالیا۔ کچھ اس سے کھالیا۔ اوراسی طرح سونے چاندی کا باہمی تبادلہ اندازے سے کرنے اور دودو کھجوریں ملا کر کھانے میں بھی (وہ کوئی حرج نہیں سمجھتے)فائدہ:نھد یہ ہے کہ دوران سفر یا جنگ کے موقع پر سب کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ پر جمع کرلیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جا تا یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے اس طرح کسی کا حصہ کم ہوگا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر شریک ہوتے ہیں ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا۔ اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہوگا۔ عام حالات میں طعام میں تفاضل اور ادھار منع ہے لیکن موجود صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں تفاضل یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پرپایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاتقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہوجائے، کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں وہب بن کیسان نے اور انہیں جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے (رجب 7ھ میں) ساحل بحر کی طرف ایک لشکر بھیجا۔ اور اس کاامیر ابوعبیدہ بن جراح ؓ کو بنایا۔ فوجیوں کی تعداد تین سو تھی اورمیں بھی ان میں شریک تھا۔ ہم نکلے اور ابھی راستے ہی میں تھے کہ توشہ ختم ہو گیا۔ ابوعبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ تمام فوجی اپنے توشے (جو کچھ بھی باقی رہ گئے ہوں) ایک جگہ جمع کر دیں۔ سب کچھ جمع کرنے کے بعد کھجوروں کے کل دو تھیلے ہو سکے اور روزانہ ہمیں اسی میں سے تھوڑی تھوڑی کھجور کھانے کے لیے ملنے لگی۔ جب اس کا بھی اکثر حصہ ختم ہو گیا تو ہمیں صرف ایک ایک کھجور ملتی رہی۔ میں (وہب بن کیسان) نے جابر ؓ سے کہا بھلا ایک کھجور سے کیا ہوتا ہوگا؟ انہوں نے بتلایا کہ اس کی قدر ہمیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آخر ہم سمندر تک پہنچ گئے۔ اتفاق سے سمندر میں ہمیں ایک ایسی مچھلی مل گئی جو (اپنے جسم میں) پہاڑ کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ سارا لشکر اس مچھلی کو اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا۔ پھر ابوعبیدہ ؓ نے اس کی دونوں پسلیوں کو کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد اونٹوں کو ان کے تلے سے چلنے کا حکم دیا۔ اور وہ ان پسلیوں کے نیچے سے ہو کر گزرے، لیکن اونٹ نے ان کو چھوا تک نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے ساری فوج کا توشہ ایک جگہ جمع کرا لیا۔ پھر اندازے سے تھوڑا تھوڑا سب کو دیا جانے لگا۔ سو سفر خرچ کی شرکت اور اندازے سے اسی کی تقسیم ثابت ہوئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): "Allah's Apostle (ﷺ) sent an army towards the east coast and appointed Abu 'Ubaida bin Al-Jarrah as their chief, and the army consisted of three-hundred men including myself. We marched on till we reached a place where our food was about to finish. Abu- 'Ubaida ordered us to collect all the journey food and it was collected. My (our) journey food was dates. Abu 'Ubaida kept on giving us our daily ration in small amounts from it, till it was exhausted. The share of everyone of us used to be one date only." I said, "How could one date benefit you?" Jabir replied, "We came to know its value when even that too finished." Jabir added, "When we reached the sea-shore, we saw a huge fish which was like a small mountain. The army ate from it for eighteen days. Then Abu 'Ubaida ordered that two of its ribs be fixed and they were fixed in the ground. Then he ordered that a she-camel be ridden and it passed under the two ribs (forming an arch) without touching them."