باب : کھانے اور سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: About (sharing) meals and the Nahd and Urud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
2485.
حضرت رافع بن خدیج ؓ سےروایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز عصر پڑھتے، پھر اونٹ ذبح کرتے اور اس کے گوشت کو دس حصوں میں تقسیم کیا جاتا۔ پھر ہم غروب آفتاب سے پہلے پہلے پکا ہوا گوشت بھی کھالیتے تھے۔
تشریح:
(1) گوشت وغیرہ وزن سے تولا جاتا ہے لیکن اس حدیث کے مطابق اسے دس حصوں میں اندازے سے تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ یہ بھی ایک قیاسی وزن تھا۔ عرف میں ایسا کرنا جائز ہے کہ ایک وزنی چیز دوسری شکل میں تقسیم کر دی جائے۔ (2) اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عصر اور مغرب کے درمیان اتنا وقت ہوتا تھا کہ اونٹ ذبح ہوتا، اس کا گوشت بنا کر دس حصوں میں تقسیم کیا جاتا، پھر اسے مغرب سے پہلے پکا کر کھا لیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز عصر ایک مثل سایہ ہونے پر پڑھی جاتی تھی، اگر دو مثل سایہ ہونے پر اسے ادا کیا جاتا تو اتنے وقت میں مذکورہ کام انتہائی مشکل تھا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2401
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2485
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2485
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2485
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
نهد یہ ہے کہ دوران سفر میں یا جنگ کے موقع پر جس کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ جمع کر لیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جاتا۔ یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے۔ اس طرح کسی کا حصہ کم ہو گا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا، اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے، تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہو گا۔ عام حالات میں طعام میں کمی بیشی اور ادھار منع ہے لیکن موجودہ صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں کمی بیشی یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پر پایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاً تقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہو جائے۔ کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے اور آئندہ بھی بیان ہو گا۔
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت رافع بن خدیج ؓ سےروایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز عصر پڑھتے، پھر اونٹ ذبح کرتے اور اس کے گوشت کو دس حصوں میں تقسیم کیا جاتا۔ پھر ہم غروب آفتاب سے پہلے پہلے پکا ہوا گوشت بھی کھالیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) گوشت وغیرہ وزن سے تولا جاتا ہے لیکن اس حدیث کے مطابق اسے دس حصوں میں اندازے سے تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ یہ بھی ایک قیاسی وزن تھا۔ عرف میں ایسا کرنا جائز ہے کہ ایک وزنی چیز دوسری شکل میں تقسیم کر دی جائے۔ (2) اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عصر اور مغرب کے درمیان اتنا وقت ہوتا تھا کہ اونٹ ذبح ہوتا، اس کا گوشت بنا کر دس حصوں میں تقسیم کیا جاتا، پھر اسے مغرب سے پہلے پکا کر کھا لیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نماز عصر ایک مثل سایہ ہونے پر پڑھی جاتی تھی، اگر دو مثل سایہ ہونے پر اسے ادا کیا جاتا تو اتنے وقت میں مذکورہ کام انتہائی مشکل تھا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
نیز ماپ تول کردی جانے والی اشیاء کیسے تقسیم کی جائیں؟ اندازے سے یا مٹھی مٹھی بھر کے!کیونکہ مسلمان زاد سفر کے متعلق کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کسی نے کچھ اس چیز سے کھالیا۔ کچھ اس سے کھالیا۔ اوراسی طرح سونے چاندی کا باہمی تبادلہ اندازے سے کرنے اور دودو کھجوریں ملا کر کھانے میں بھی (وہ کوئی حرج نہیں سمجھتے)فائدہ:نھد یہ ہے کہ دوران سفر یا جنگ کے موقع پر سب کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ پر جمع کرلیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جا تا یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے اس طرح کسی کا حصہ کم ہوگا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر شریک ہوتے ہیں ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا۔ اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہوگا۔ عام حالات میں طعام میں تفاضل اور ادھار منع ہے لیکن موجود صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں تفاضل یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پرپایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاتقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہوجائے، کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوالنجاشی نے بیان کیا کہا کہ میں نے رافع بن خدیج ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر اونٹ ذبح کرتے تو انہیں دس حصوں میں تقسیم کرتے اور پھر سورج غروب ہونے سے پہلے ہی ہم اس کا پکا ہوا گوشت بھی کھا لیتے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ عصر کی نماز ایک مثل پر پڑھا کرتے تھے ورنہ دو مثل سایہ پرجو کوئی عصر کی نماز پڑھے گا تو اتنے وقت میں اس کے لیے یہ کام پورا کرنا مشکل ہے۔ اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ اونٹ کا گوشت یونہی اندازے سے تقسیم کیا جاتاتھا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rafi bin Khadij (RA): We used to offer the 'Asr prayer with the Prophet (ﷺ) and slaughter a camel, the meat of which would be divided in ten parts. We would eat the cooked meat before sunset.