باب : کھانے اور سفر خرچ اور اسباب میں شرکت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: About (sharing) meals and the Nahd and Urud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
2486.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب اشعری لوگ جہاد میں محتاج ہو جاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کے پاس کھانا کم رہ جاتا ہے تو سب لوگ اپنااپنا موجودہ سامان ملا کر ایک کپڑے میں اکٹھا کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک پیمانے سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں (اس عدل و مساوات کی وجہ سے) وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔‘‘
تشریح:
کھانے کے سامان کو اکٹھا کر کے اندازے سے تقسیم کرنا سفر کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ عمل حضر میں بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اشعری قبیلے کے لوگوں کا عمل بیان ہوا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت جو کچھ بھی سامان خور و نوش ان کے پاس ہوتا اسے ملا کر برابر تقسیم کر لیتے۔ یہ شراکت کی بہترین قسم ہے۔ مشکل وقت میں ایسا کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی بیشی کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ ایک نے کم سامان جمع کیا تھا اور تقسیم میں اسے زیادہ مل گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2402
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2486
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2486
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2486
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
نهد یہ ہے کہ دوران سفر میں یا جنگ کے موقع پر جس کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ جمع کر لیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جاتا۔ یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے۔ اس طرح کسی کا حصہ کم ہو گا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا، اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے، تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہو گا۔ عام حالات میں طعام میں کمی بیشی اور ادھار منع ہے لیکن موجودہ صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں کمی بیشی یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پر پایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاً تقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہو جائے۔ کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے اور آئندہ بھی بیان ہو گا۔
اور جو چیزیں ناپی یا تولی جاتی ہیں تخمینے سے بانٹنایا مٹھی بھر بھر کر تقسیم کر لینا، کیوں کہ مسلمانوں نے اس میں کوئی مضائقہ نہیں خیال کیا کہ مشترک زاد سفر ( کی مختلف چیزوں میں سے ) کوئی شریک ایک چیز کھا لے اوردوسرا دوسری چیز، اسی طرح سونے چاندی کے بدل بن تولے ڈھیر لگا کر بانٹنے میں، اسی طرح دو دو کھجو راٹھاکر کھانے میں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب اشعری لوگ جہاد میں محتاج ہو جاتے ہیں یا مدینہ میں ان کے بال بچوں کے پاس کھانا کم رہ جاتا ہے تو سب لوگ اپنااپنا موجودہ سامان ملا کر ایک کپڑے میں اکٹھا کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک پیمانے سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں (اس عدل و مساوات کی وجہ سے) وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
کھانے کے سامان کو اکٹھا کر کے اندازے سے تقسیم کرنا سفر کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ عمل حضر میں بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ اشعری قبیلے کے لوگوں کا عمل بیان ہوا ہے کہ وہ ضرورت کے وقت جو کچھ بھی سامان خور و نوش ان کے پاس ہوتا اسے ملا کر برابر تقسیم کر لیتے۔ یہ شراکت کی بہترین قسم ہے۔ مشکل وقت میں ایسا کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی بیشی کا خیال نہیں رکھا جائے گا کہ ایک نے کم سامان جمع کیا تھا اور تقسیم میں اسے زیادہ مل گیا۔
ترجمۃ الباب:
نیز ماپ تول کردی جانے والی اشیاء کیسے تقسیم کی جائیں؟ اندازے سے یا مٹھی مٹھی بھر کے!کیونکہ مسلمان زاد سفر کے متعلق کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کسی نے کچھ اس چیز سے کھالیا۔ کچھ اس سے کھالیا۔ اوراسی طرح سونے چاندی کا باہمی تبادلہ اندازے سے کرنے اور دودو کھجوریں ملا کر کھانے میں بھی (وہ کوئی حرج نہیں سمجھتے)فائدہ:نھد یہ ہے کہ دوران سفر یا جنگ کے موقع پر سب کے پاس جتنا راشن ہوتا اسے ایک جگہ پر جمع کرلیا جاتا، اس کے بعد بقدر ضرورت سب کو دیا جا تا یہ بھی شراکت کی ایک قسم ہے اس طرح کسی کا حصہ کم ہوگا اور کسی کا زیادہ لیکن کھانے میں سب برابر شریک ہوتے ہیں ممکن ہے کہ جتنا زاد سفر جمع کرایا تھا۔ اس سے زیادہ وصول کر لیا جائے تو اس شراکت میں تفاضل اور ادھار ہوگا۔ عام حالات میں طعام میں تفاضل اور ادھار منع ہے لیکن موجود صورت میں مشکلات کے وقت حالات پر قابو پانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے اور ایسا کرنا اجتماعی زندگی کا لازمی تقاضا ہے۔ اس میں تفاضل یا سود نہیں ہے کیونکہ سود کے لیے ضروری ہے کہ وہ شرط کے طور پرپایا جائے، سونے کی چاندی سے اندازاتقسیم میں بھی کوئی حرج نہیں اگرچہ کمی بیشی ہوجائے، کھجوروں کو ملا کر کھانے کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جب جہاد کے موقع پر توشہ کم ہوجاتا یا مدینہ (کے قیام) میں ان کے بال بچوں کے لیے کھانے کی کمی ہوجاتی تو جو کچھ بھی ان کے پاس توشہ ہوتا تو وہ ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں۔ پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کرلیتے ہیں۔ پس وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ خاص میرے طریق اور میری سنت پر ہیں۔ اور میں ان کے طریق پر ہوں۔ اس حدیث سے یہ نکلا کہ سفر یاحضر میں توشوں کا ملا لینا اور برابر برابر بانٹ لینا مستحب ہے۔ باب کی حدیث سے مطابقت ظاہر ہے: و مطابقته للترجمة تؤخذ من قوله جمعوا ما کان عندهم في ثوب واحد ثم اقتسموہ بینهم(عمدة القاري)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "When the people of Ash'ari tribe ran short of food during the holy battles, or the food of their families in Madinah ran short, they would collect all their remaining food in one sheet and then distribute it among themselves equally by measuring it with a bowl. So, these people are from me, and I am from them."