باب: مشترک چیزوں کی انصاف کے ساتھ ٹھیک قیمت لگا کر اسی شریکوں میں بانٹنا
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: To get a joint property evaluated with a price)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2492.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص مشترکہ غلام کو اپنے حصے کے مطابق آزاد کردے تو وہی اپنے مال سے اسے پوری رہائی بھی دلائے۔ اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو انصاف سے اس غلام کی قیمت لگائی جائے پھر باقی حصے کے لیے اس غلام سے مزدوری کرائی جائے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود غلام کی آزادی سے متعلق مسائل و احکام بیان کرنا نہیں بلکہ اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان مشترک ہے اور ان میں سے کوئی اپنی کسی مجبوری کے پیش نظر الگ ہونا چاہتا ہے تو اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ عدل و انصاف کے مطابق اس چیز کی قیمت لگا کر اس کا حصہ الگ کر دیا جائے جیسا کہ ان احادیث میں مشترکہ غلام کی عدل و انصاف کے مطابق قیمت لگانے کی تلقین کی گئی ہے۔ (2) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو ضروری ہے کہ وہ اپنے مال سے غلام کو پورا آزاد کرائے۔ اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو غلام خود اس بات کی کوشش کرے کہ وہ باقی حصہ ادا کرنے میں اس کا مددگار بنے، لیکن اس سلسلے میں غلام پر تشدد نہ کیا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2408
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2492
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2492
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2492
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
باب کے ذیل میں حافظ صاحب فرماتے ہیں قال ابن بطال لا خلاف بین العلماءان قسمة العروض و سائر الامتعة بعد التقویم جائز و انما اختلفوا ف قسمتھا بغیر تقویم فاجازہ الاکثر اذا کان علی سبیل التراضی الخ ( فتح الباری ) یعنی جملہ سامان و اسباب کا جب ٹھیک طور پر اندازہ کرلیا جائے تو اس کی تقسیم جملہ علماءکے نزدیک جائز ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ہاں بغیر اندازہ کئے تقسیم میں اختلاف ہے۔ جب باہمی طور پر کسی کو اعتراض نہ ہو اور سب راضی ہوں تو اکثر کے نزدیک یہ بھی جائز ہے۔ کتاب الشرکتہ کے اس باب سے یہ دسواں پارہ شروع ہورہا ہے جس میں شرکت سے متعلق بقایامسائل بیان کئے جارہے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک قلم کو لغزش سے بچائے اور خیریت کے ساتھ اس پارے کی بھی تکمیل کرائے۔ آمین۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جو شخص مشترکہ غلام کو اپنے حصے کے مطابق آزاد کردے تو وہی اپنے مال سے اسے پوری رہائی بھی دلائے۔ اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو انصاف سے اس غلام کی قیمت لگائی جائے پھر باقی حصے کے لیے اس غلام سے مزدوری کرائی جائے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود غلام کی آزادی سے متعلق مسائل و احکام بیان کرنا نہیں بلکہ اس مقام پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز دو یا زیادہ آدمیوں کے درمیان مشترک ہے اور ان میں سے کوئی اپنی کسی مجبوری کے پیش نظر الگ ہونا چاہتا ہے تو اس کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ عدل و انصاف کے مطابق اس چیز کی قیمت لگا کر اس کا حصہ الگ کر دیا جائے جیسا کہ ان احادیث میں مشترکہ غلام کی عدل و انصاف کے مطابق قیمت لگانے کی تلقین کی گئی ہے۔ (2) ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو ضروری ہے کہ وہ اپنے مال سے غلام کو پورا آزاد کرائے۔ اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو غلام خود اس بات کی کوشش کرے کہ وہ باقی حصہ ادا کرنے میں اس کا مددگار بنے، لیکن اس سلسلے میں غلام پر تشدد نہ کیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے بشیر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو سعید بن ابی عروبہ نے خبردی، انہیں قتادہ نے، انہیں نضر بن انس نے، انہیں بشیر بن نہیک نے اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مال سے غلام کو پوری آزادی دلا دے۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے۔ پھر غلام سے کہا جائے کہ (اپنی آزادی کی) کوشش میں وہ باقی حصہ کی قیمت خود ادا کرلے۔ لیکن غلام پر اس کے لیے کوئی دباو نہ ڈالا جائے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی ایسی تکلیف نہ دیں جس کا وہ تحمل نہ کرسکے جب وہ باقی حصوں کی قیمت ادا کردے گا تو آزاد ہوجائے گا۔ ابن بطال ؒنے کہا شرکاءمیں تقسیم کرتے وقت ان کی قطع نزاع کے لیے قرعہ ڈالنا سنت ہے اور تمام فقہاءاس کے قائل ہیں۔ صرف کوفہ کے بعض فقہاءنے اس سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ قرعہ ازلام کی طرح ہے جس کی ممانعت قرآن میں وارد ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ نے بھی اس کو جائز رکھا ہے۔ دوسری صحیح حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ سفر میں جاتے وقت اپنی بیویوں کے لیے قرعہ ڈالتے، جس کے نام نکلتا اس کو ساتھ لے جاتے۔ آج کل تو قرعہ اس قدر عام ہے کہ سفر حج کے لیے بھی حاجیوں کے نام قرعہ اندازی سے چھانٹے جاتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever manumits his share of a jointly possessed slave, it is imperative for him to get that slave manumitted completely by paying the remaining price, and if he does not have sufficient money to manumit him, then the price of the slave should be estimated justly, and he is to be allowed to work and earn the amount that will manumit him (without overburdening him)".