Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: Can one draw lots for divisions and shares)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2493.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود پر قائم ہو اور جوان میں مبتلا ہوگیا ہو، ان لوگوں کی سی ہے جنھوں نے ایک کشتی کے بذریعہ قرعہ تقسیم کرلیا۔ بعض لوگوں کے حصے میں اوپر والا طبقہ آیا جبکہ کچھ لوگوں نے نچلا حصہ لے لیا۔ اب نچلے حصے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے۔ انھوں نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے ہی سوراخ کرلیں تواچھا ہوگا۔ اس طریقے سے ہم اوپر والوں کے لیے اذیت کاباعث نہیں ہوں گے۔ اندریں حالات اگر اوپر والے نیچے والون کو ان کے ارادے کے مطابق چھوڑ دیں تو سب ہلاک ہوجائیں گے اوراگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں گے اور دوسرے بھی محفوظ رہیں گے۔‘‘
تشریح:
(1) اگر ایک مشترکہ چیز میں چند لوگ برابر حقوق رکھتے ہوں اور ان کے درمیان حقوق کی تقسیم میں فیصلہ مشکل یا ناممکن ہو تو قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر جنگ پر روانہ ہوتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے کہ کون سی زوجۂ محترمہ سفر میں آپ کی رفاقت اختیار کرے گی۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو قرعہ اندازی سے حصے متعین کرنے کے جواز میں پیش کیا ہے۔ بلاشبہ قرعہ اندازی حقوق تقسیم کرنے کا ایک دینی طریقہ ہے جبکہ کچھ لوگ اس کے مخالف ہیں۔ وہ پانسے کے ذریعے سے تقسیم کرنے پر اسے قیاس کرتے ہیں جس کی قرآن میں ممانعت ہے۔ قرعہ اندازی اور تیروں کے ذریعے سے قسمت آزمانی میں بہت فرق ہے کیونکہ قرعہ اندازی کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے، اس لیے اسے تیروں سے تشبیہ دینا صحیح نہیں۔ (3) واضح رہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنا اور گناہ سامنے ہوتا دیکھ کر ٹھنڈے پیٹوں (آرام اور خوشی سے) برداشت کر لینا جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں اور دونوں ہی تباہی و بربادی کا باعث ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2409
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2493
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2493
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2493
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اس شخص کی مثال جو اللہ کی حدود پر قائم ہو اور جوان میں مبتلا ہوگیا ہو، ان لوگوں کی سی ہے جنھوں نے ایک کشتی کے بذریعہ قرعہ تقسیم کرلیا۔ بعض لوگوں کے حصے میں اوپر والا طبقہ آیا جبکہ کچھ لوگوں نے نچلا حصہ لے لیا۔ اب نچلے حصے والوں کو جب پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس سے گزرتے۔ انھوں نے خیال کیا کہ اگر ہم اپنے نچلے حصے ہی سوراخ کرلیں تواچھا ہوگا۔ اس طریقے سے ہم اوپر والوں کے لیے اذیت کاباعث نہیں ہوں گے۔ اندریں حالات اگر اوپر والے نیچے والون کو ان کے ارادے کے مطابق چھوڑ دیں تو سب ہلاک ہوجائیں گے اوراگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچ جائیں گے اور دوسرے بھی محفوظ رہیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اگر ایک مشترکہ چیز میں چند لوگ برابر حقوق رکھتے ہوں اور ان کے درمیان حقوق کی تقسیم میں فیصلہ مشکل یا ناممکن ہو تو قرعہ اندازی کی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی سفر جنگ پر روانہ ہوتے تو ازواج مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے کہ کون سی زوجۂ محترمہ سفر میں آپ کی رفاقت اختیار کرے گی۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو قرعہ اندازی سے حصے متعین کرنے کے جواز میں پیش کیا ہے۔ بلاشبہ قرعہ اندازی حقوق تقسیم کرنے کا ایک دینی طریقہ ہے جبکہ کچھ لوگ اس کے مخالف ہیں۔ وہ پانسے کے ذریعے سے تقسیم کرنے پر اسے قیاس کرتے ہیں جس کی قرآن میں ممانعت ہے۔ قرعہ اندازی اور تیروں کے ذریعے سے قسمت آزمانی میں بہت فرق ہے کیونکہ قرعہ اندازی کا ثبوت صحیح احادیث سے ملتا ہے، اس لیے اسے تیروں سے تشبیہ دینا صحیح نہیں۔ (3) واضح رہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنا اور گناہ سامنے ہوتا دیکھ کر ٹھنڈے پیٹوں (آرام اور خوشی سے) برداشت کر لینا جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں اور دونوں ہی تباہی و بربادی کا باعث ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زکریا نے، کہا میں نے عامر بن شعبہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نعمان بن بشیر ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس میں گھس جانے والے (یعنی خلاف کرنے والے) کی مثال ایسے لوگوں کی سی ہے جنہوں نے ایک کشتی کے سلسلے میں قرعہ ڈالا۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگوں کو کشتی کے اوپر کا حصہ اور بعض کو نیچے کا۔ پس جو لوگ نیچے والے تھے، انہیں (دریا سے) پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے اوپر سے گزرنا پڑتا۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اپنے ہی حصہ میں ایک سوراخ کرلیں تاکہ اوپر والوں کو ہم کوئی تکلیف نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے بھی نیچے والوں کو من مانی کرنے دیں گے تو کشتی والے تمام ہلاک ہوجائیں گے اور اگر اوپر والے نیچے والوں کا ہاتھ پکڑلیں تو یہ خود بھی بچیں گے اور ساری کشتی بھی بچ جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں جہاں کشتی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے قرعہ اندازی کا ذکر کیاگیا۔ اسی سے مقصود باب ثابت ہوا ہے۔ یوں یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا کیوں ضروری ہے؟ اسی سوال پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ دنیا کی مثال ایک کشتی کی سی ہے۔ جس میں سوار ہونے والے افراد میں سے ایک فرد کی غلطی جو کشتی سے متعلق ہو سارے افراد ہی کو لے ڈوب سکتی ہے۔ قرآن مجید میں یہی مضمون اس طور پر بیان ہوا۔ ﴿وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً﴾(الأنفال:25)یعنی فتنہ سے بچنے کی کوشش کرو جو اگر وقوع میں آگیا تو وہ خاص ظالموں ہی پر نہیں پڑے گا بلکہ ان کے ساتھ بہت سے بے گناہ بھی پس جائیں گے۔ جیسے حدیث ہٰذا میں بطور مثال نیچے والوں کا ذکر کیاگیا کہ اگر اوپر والے نیچے والوں کو کشتی کے نیچے سورا کرنے سے نہیں روکیں گے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ نیچے والا حصہ پانی سے بھر جائے گا اور نیچے والوں کے ساتھ اوپر والے بھی ڈوبیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾(آل عمران: 105)یعنی اے مسلمانو! تم میں سے ایک جماعت ایسی مقرر ہونی چاہئے جو لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتی رہے اور برائیوں سے روکتی رہے۔ آیت ہٰذا کی بنا پر جملہ اہل اسلام پر فرض ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے ایک جماعت خاص مقررکریں۔ الحمد للہ حکومت سعودیہ میں یہ محکمہ اسی نام سے قائم ہے اور پوری مملکت میں اس کی شاخیں ہیں جو یہ فرض انجام دے رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اجتماعی طور پر ہر جگہ مسلمان ایسے ادارے قائم کرکے عوام کی فلاح و بہبود کا کام انجام دیا کریں۔ خلاصہ یہ کہ تقسیم کے لیے قرعہ اندازی ایک بہترین طریقہ ہے جس میں شرکاءمیں سے کسی کو بھی انکار کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومطابقة الحديث للترجمة غير خفية وفيه وجوب الصبر على أذى الجار إذا خشي وقوع ما هو أشد ضررًا وأنه ليس لصاحب السفل أن يحدث على صاحب العلو ما يضرّ به وأنه إن أحدث عليه ضررًا لزمه إصلاحه، وأن لصاحب العلو منعه من الضرر وفيه جواز قسمة العقار المتفاوت بالقرعة. قال ابن بطال: والعلماء متفقون على القول بالقرعة إلا الكوفيين فإنهم قالوا لا معنى لها لأنها تشبه الأزلام التي نهى الله عنها (قسطلاني) حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور اس سے پڑوسی کی تکلیف پر صبر کرنا بطور وجوب ثابت ہوا۔ جب عدم صبر کی صورت میں اس سے بھی کسی بڑی مصیبت کے آنے کا خطرہ ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نیچے والے کے لیے جائز نہیں کہ اوپر والے کے لیے کوئی ضرر کا کام کرے۔ اگر وہ ایسا کربیٹھے تو اس کو اس کی درستگی واجب ہے اور اوپر والے کو حق ہے کہ وہ ایسے ضرر کے کام سے اس کو روکے اور سامان و اسباب متفرقہ کا قرعہ اندازی سے تقسیم کرنا بھی ثابت ہوا۔ ابن بطال نے کہا علماءکا قرعہ کے جواز پر اتفاق ہے سوائے اہل کوفہ کے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرعہ اندازی ان تیروں کے مشابہ ہی ہے جو کفار مکہ بطور فال نکالا کرتے تھے۔ اس لیے یہ جائز نہیں ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ازلام سے منع کیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اہل کوفہ کا یہ قیاس باطل ہے۔ ازلام اور قرعہ اندازی میں بہت فرق ہے اور جب قرعہ کا ثبوت صحیح حدیث سے موجود ہے تو اس کو ازلام سے تشبیہ دینا صحیح نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nu'man bin Bashir (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The example of the person abiding by Allah's order and restrictions in comparison to those who violate them is like the example of those persons who drew lots for their seats in a boat. Some of them got seats in the upper part, and the others in the lower. When the latter needed water, they had to go up to bring water (and that troubled the others), so they said, 'Let us make a hole in our share of the ship (and get water) saving those who are above us from troubling them. So, if the people in the upper part left the others do what they had suggested, all the people of the ship would be destroyed, but if they prevented them, both parties would be safe."