Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: The partnership of orphans and inheritors)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2494.
حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے منطق سوال کیا: ’’اور اگر تمھیں اندیشہ ہوکہ تم(یتیم لڑکیوں کے بارے میں) انصاف نہیں کرسکو گے(تو پھر دوسری عورتوں میں سے جو تمھیں پسند آئیں دودو، تین تین) چار چار تک(نکاح کرلو)۔‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرے بھانجے!یہ آیت کریمہ اس یتیم بچی کے متعلق نازل ہوئی جو اپنے کسی سرپرست کی کفالت میں ہو اور اس کے مال میں شریک بننے والی ہو، تو وہ سرپرست اس کے مال اور حسن وجمال سے متاثر ہوکر اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو مگر اس کے مہر میں انصاف سے کام نہ لے کہ اسے اتنا مہر دے جتنا دوسرے لوگ دیتے ہیں تو ایسے لوگ ان(یتیم بچیوں) سے نکاح کرنے سے روک دیے گئے، البتہ اگر وہ ان سے انصاف کریں اوردستور کے مطابق ان تک پورا حق مہر پہنچائیں تو ان سے نکاح کیاجاسکتا ہے بصورت دیگر انھیں حکم ہوا کہ تم، ان کےعلاوہ، ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمھیں پسند ہو۔ حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: لوگوں نے اس آیت کے بعد رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھاتو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت نازل فرمائی: ’’لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔۔۔ لیکن ان سے نکاح کی رغبت رکھتے ہو۔‘‘ اس آیت میں جو ذکر ہے کہ’’تم پر کتاب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں" اس سے مراد پہلی آیت ہے کہ’’اگر تمھیں ڈر ہوکہ یتیموں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمھیں پسند ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: دوسری آیت کریمہ میں جو ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو اس کے پاس مال تھوڑا ہے اور حسن وجمال بھی نہیں رکھتی اس سے تو تم نفرت کرتے ہو، اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال وجمال کی وجہ سے تمھیں رغبت ہو اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا پورا مہر دینے کا ارادہ رکھتے ہو۔
تشریح:
(1) حدیث میں مذکور دو آیات میں دو قسم کی عورتوں کا بیان ہے: ٭ وہ یتیم بچی جس کے حسن و جمال اور مال و دولت کی وجہ سے سرپرست نکاح کی خواہش مند ہے۔ ٭ حسن و جمال اور مال و دولت کی کمی کی وجہ سے سرپرست کی نکاح میں کوئی رغبت نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ یتیم بچی جس کے پاس مال و دولت اور حسن و جمال نہیں اسے تم چھوڑ دیتے ہو اور نکاح کے لیے دوسری عورتیں تلاش کرتے ہو، اس اعتبار سے تمہیں اس صورت میں بھی انہیں چھوڑ دینا چاہیے جب ان کے مال اور جمال میں رغبت کی وجہ سے تم نکاح تو کرنا چاہتے ہو لیکن دستور کے مطابق حق مہر نہیں ادا کرنا چاہتے۔ ہاں اگر ان کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اور حق مہر بھی پورا دینے کا ارادہ ہو تو اس صورت میں تمہیں ان سے نکاح کا حق پہنچتا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ یتیم کے مال میں شراکت کے متعلق وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں شراکت صرف اس صورت میں جائز ہے کہ یتیم کی اس میں بھلائی پیش نظر ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾ ’’اور لوگ آپ سے یتیموں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ ان سے کہہ دیں کہ ان کی اصلاح اور فلاح و بہبود ہی میں بھلائی ہے اور اگر انہیں اپنے ساتھ رکھ لو تو وہ تمہارے ہی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والے اور بگاڑ کرنے والے کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (البقرة:220:2) الغرض یتیموں کے تمام معاملات میں عدل و انصاف کا برتاؤ ہونا چاہیے، شراکت میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2410
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2494
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2494
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2494
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
تمہید باب
اتفقوا علی انہ لا تجوز المشارکة فی مال الیتیم الا ان کان للیتیم فی ذٰلک مصلحة راجحة ( فتح ) یعنی اس پر اتفاق ہے کہ یتیم کے مال میں شرکت کرنا جائز نہیں۔ ہاں اگر یتیم کے مفاد کے لیے کوئی مصلحت راجح ہو تو جائز ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ظلم سے یتیموں کا مال کھاجاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں دوزخ کا آگ کھارہے ہیں۔ لہٰذا معاملہ بہت ہی نازک ہے۔
حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے منطق سوال کیا: ’’اور اگر تمھیں اندیشہ ہوکہ تم(یتیم لڑکیوں کے بارے میں) انصاف نہیں کرسکو گے(تو پھر دوسری عورتوں میں سے جو تمھیں پسند آئیں دودو، تین تین) چار چار تک(نکاح کرلو)۔‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میرے بھانجے!یہ آیت کریمہ اس یتیم بچی کے متعلق نازل ہوئی جو اپنے کسی سرپرست کی کفالت میں ہو اور اس کے مال میں شریک بننے والی ہو، تو وہ سرپرست اس کے مال اور حسن وجمال سے متاثر ہوکر اس سے نکاح کرنا چاہتا ہو مگر اس کے مہر میں انصاف سے کام نہ لے کہ اسے اتنا مہر دے جتنا دوسرے لوگ دیتے ہیں تو ایسے لوگ ان(یتیم بچیوں) سے نکاح کرنے سے روک دیے گئے، البتہ اگر وہ ان سے انصاف کریں اوردستور کے مطابق ان تک پورا حق مہر پہنچائیں تو ان سے نکاح کیاجاسکتا ہے بصورت دیگر انھیں حکم ہوا کہ تم، ان کےعلاوہ، ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمھیں پسند ہو۔ حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: لوگوں نے اس آیت کے بعد رسول اللہ ﷺ سے فتویٰ پوچھاتو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت نازل فرمائی: ’’لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں۔۔۔ لیکن ان سے نکاح کی رغبت رکھتے ہو۔‘‘ اس آیت میں جو ذکر ہے کہ’’تم پر کتاب اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں" اس سے مراد پہلی آیت ہے کہ’’اگر تمھیں ڈر ہوکہ یتیموں کے متعلق تم انصاف نہیں کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمھیں پسند ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: دوسری آیت کریمہ میں جو ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو اس کے پاس مال تھوڑا ہے اور حسن وجمال بھی نہیں رکھتی اس سے تو تم نفرت کرتے ہو، اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال وجمال کی وجہ سے تمھیں رغبت ہو اس سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا پورا مہر دینے کا ارادہ رکھتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں مذکور دو آیات میں دو قسم کی عورتوں کا بیان ہے: ٭ وہ یتیم بچی جس کے حسن و جمال اور مال و دولت کی وجہ سے سرپرست نکاح کی خواہش مند ہے۔ ٭ حسن و جمال اور مال و دولت کی کمی کی وجہ سے سرپرست کی نکاح میں کوئی رغبت نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ یتیم بچی جس کے پاس مال و دولت اور حسن و جمال نہیں اسے تم چھوڑ دیتے ہو اور نکاح کے لیے دوسری عورتیں تلاش کرتے ہو، اس اعتبار سے تمہیں اس صورت میں بھی انہیں چھوڑ دینا چاہیے جب ان کے مال اور جمال میں رغبت کی وجہ سے تم نکاح تو کرنا چاہتے ہو لیکن دستور کے مطابق حق مہر نہیں ادا کرنا چاہتے۔ ہاں اگر ان کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اور حق مہر بھی پورا دینے کا ارادہ ہو تو اس صورت میں تمہیں ان سے نکاح کا حق پہنچتا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ یتیم کے مال میں شراکت کے متعلق وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ یتیم کے مال میں شراکت صرف اس صورت میں جائز ہے کہ یتیم کی اس میں بھلائی پیش نظر ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ﴾ ’’اور لوگ آپ سے یتیموں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ ان سے کہہ دیں کہ ان کی اصلاح اور فلاح و بہبود ہی میں بھلائی ہے اور اگر انہیں اپنے ساتھ رکھ لو تو وہ تمہارے ہی بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ اصلاح کرنے والے اور بگاڑ کرنے والے کو خوب جانتا ہے۔‘‘ (البقرة:220:2) الغرض یتیموں کے تمام معاملات میں عدل و انصاف کا برتاؤ ہونا چاہیے، شراکت میں بھی اس پہلو کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ عامری اویسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا تھا (دوسری سند) اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عائشہ ؓ سے (سورہ نساء میں) اس آیت کو پوچھا ”اگر تم کو یتیموں میں انصاف نہ کرنے کا ڈر ہو تو جو عورتیں پسند آئیں دو دو تین تین چار چار نکاح میں لاو“ انہوں نے کہا میرے بھانجے یہ آیت اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جو اپنے ولی (محافظ رشتہ دار جیسے چچیرا بھائی، پھوپھی زاد یا ماموں زاد بھائی) کی پرورش میں ہو اور ترکے کے مال میں اس کی ساجھی ہو اور وہ اس کی مالداری اور خوبصورتی پر فریفتہ ہوکر اس سے نکاح کرلینا چاہے لیکن پورا مہر انصاف سے جتنا اس کو اور جگہ ملتا وہ دے، تو اسے اس سے منع کردیاگیا کہ ایسی یتیم لڑکیوں سے نکاح کرے۔ البتہ اگر ان کے ساتھ ان کے ولی انصاف کرسکیں اور ان کی حسب حیثیت بہتر سے بہتر طرز عمل مہر کے بارے میں اختیار کریں ( تو اس صورت میں نکاح کرنے کی اجازت ہے ) اور ان سے یہ بھی کہہ دیا گیا کہ ان کے سوا جو بھی عورت انہیں پسند ہو ان سے وہ نکاح کرسکتے ہیں۔ عروہ بن زبیر نے کہا کہ عائشہ ؓا نے بتلایا، پھر لوگوں نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد (ایسی لڑکیوں سے نکاح کی اجازت کے بارے میں) مسئلہ پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ”اور آپ سے عورتوں کے بارے میں یہ لوگ سوال کرتے ہیں “۔ آگے فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو۔ یہ جو اس آیت میں ہے اور جو قرآن میں تم پر پڑھا جاتا ہے اس سے مراد پہلی آیت ہے یعنی ”اگر تم کو یتیموںمیں انصاف نہ ہوسکنے کا ڈر ہو تو دوسری عورتیں جو بھلی لگیں ان سے نکاح کرلو۔“ حضرت عائشہ ؓ نے کہا یہ جو اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا اور تم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو اس سے یہ غرض ہے کہ جو یتیم لڑکی تمہاری پرورش میں ہو اور مال اور جمال کم رکھتی ہو اس سے تو تم نفرت کرتے ہو، اس لیے جس یتیم لڑکی کے مال اور جمال میں تم کو رغبت ہو ا س سے بھی نکاح نہ کرو مگر اس صورت میں جب انصاف کے ساتھ ان کا پورا مہر ادا کرو۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa bin Az-Zubair (RA): That he had asked 'Aisha (RA) about the meaning of the Statement of Allah: "If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (Other) women of your choice Two or three or four." (4.3) She said, "O my nephew! This is about the orphan girl who lives with her guardian and shares his property. Her wealth and beauty may tempt him to marry her without giving her an adequate Mahr (bridal-money) which might have been given by another suitor. So, such guardians were forbidden to marry such orphan girls unless they treated them justly and gave them the most suitable Mahr; otherwise they were ordered to marry any other woman." 'Aisha (RA) further said, "After that verse the people again asked the Prophet (ﷺ) (about the marriage with orphan 'girls), so Allah revealed the following verses:-- 'They ask your instruction Concerning the women. Say: Allah Instructs you about them And about what is Recited unto you In the Book, concerning The orphan girls to whom You give not the prescribed portions and yet whom you Desire to marry..." (4.127) What is meant by Allah's Saying:-- 'And about what is Recited unto you is the former verse which goes:-- 'If you fear that you shall not Be able to deal justly With the orphan girls, then Marry (other) women of your choice.' (4.3) 'Aisha (RA) said, "Allah's saying in the other verse:--'Yet whom you desire to marry' (4.127) means the desire of the guardian to marry an orphan girl under his supervision when she has not much property or beauty (in which case he should treat her justly). The guardians were forbidden to marry their orphan girls possessing property and beauty without being just to them, as they generally refrain from marrying them (when they are neither beautiful nor wealthy)."