باب: اس بارے میں کہ مردکا اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرنا درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Taking a bath by a man along with his wife)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
250.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ وہ برتن ایک بڑا پیالہ تھا جسے فرق کہا جاتا ہے۔
تشریح:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ بعض حضرات کے نزدیک خاوند بیوی کا اکٹھے غسل جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ ان کی تردید کرتے ہوئے اس کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں: مذکورہ روایت سے بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اتحاد ظرف اتحاد زمان کو لازم نہیں کہ ایک ہی وقت میں دونوں کا غسل ہوتا ہو، نیز واؤ کا استعمال عطف اور انفصال کے لیے ہے، قران و اتحاد کے لیے ان کا استعمال نہیں ہوتا، وہاں دوسری روایات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اس برتن سے ایک وقت میں دونوں غسل کرتے تھے۔ (حاشیة السندي :56/1) امام بخاری نے کتاب الوضو میں مرد عورت کا ایک برتن میں وضو کرنا ثابت فرمایا۔ اسی طرح یہاں مرد وعورت کا ایک وقت میں ایک ہی برتن سے اکٹھا غسل کرنا ثابت کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں اورنبی ﷺ ایک برتن سے اکٹھے غسل کرتے تھے اور اس برتن میں ہمارے ہاتھ باری باری جاتے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:261) ایک روایت میں ہے کہ ہم اس سے اکٹھے چلو بھرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:273) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے چلو بھرتے تو میں کہتی میرے لیے پانی بچانا۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:32 (321)) نسائی کی روایت میں ہے کہ جب میں پہلے چلو بھر لیتی تو رسول اللہ ﷺ (مزاح کے طور پر) فرماتے : ’’میرے لیے پانی بچا رکھیو۔‘‘(سنن النسائي، الغسل، حدیث:414) بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصود عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کا جواز ثابت کرنا ہے، جیسا کہ قبل ازیں عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کا جواز ثابت کر چکے ہیں، کیونکہ جب ایک ساتھ غسل کریں گے تو جس وقت ایک پانی لے گا تو بقیہ پانی دوسرے کے لیے"فضل" بن جائے گا۔ لیکن اس قدر تکلف کی کیا ضرورت ہے، کیونکہ احادیث میں صراحت ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ ؓ سے بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:743 (323)) 2۔ علامہ داودی نے اس حدیث سے ایک دوسرے کا عضو مستور دیکھنے کا جواز ثابت کیا ہے، کیونکہ جب بیوی خاوند مل کر اکٹھے غسل کریں گے تو یقیناً ایک دوسرے کے عضو مستور پر نظر پڑے گی، اس کی تائید ابن حبان کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سلیمان بن موسیٰ سے خاوند بیوی کے ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کے متعلق حضرت عطاء سے سوال کیا وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا تو انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دیا۔ (فتح الباری:473/1) 3۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ ایک برتن (قدح) سے غسل کرتے تھے۔ اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔ فرق سولہ رطل کا پیمانہ ہے۔ چونکہ ایک صاع 3۔1۔5 رطل کا ہوتا ہے، اس لیے فرق میں تین صاع پانی آتا تھا۔ اس کی تائید سفیان بن عیینہ کے قول سے بھی ہوتی ہے، جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے کہ فرق تین صاع کا پیمانہ ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:727 (319)) جب رسول اللہ ﷺ اکیلے غسل فرماتے توایک صاع پانی کی مقدار استعمال کرتے، جیسا کہ احادیث میں بصراحت آیا ہے، لیکن تحدید نہیں، بلکہ حسب ضرورت اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث عائشہ ؓ میں جو فرق سے غسل کرنے کا ذکر ہے اس میں مقدار ماء کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ بھرا ہوا تھا یا کم تھا۔ (عمدة القاري:13/1) اگر وہ بھرا ہوا تھا تو ہر ایک کے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ صاع آتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس وقت برتن میں دو صاع پانی ہو تو پھر مذکورہ بالا حدیث کے خلاف نہیں ہوگا اور یہ تحقیقی صورت ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ایک ہی صاع سے غسل فرماتے تھے۔ کبھی وہ مقدار چھوٹے برتن میں ہوتی تھی اور کبھی بڑے برتن میں اسے ڈال لیا جاتا تھا۔ اگر پہلی صورت ہے تو غسل کے پانی کی مقدارتقریبی ہو گی۔ تحدید سے اس کا تعلق نہیں ہو گا، یعنی ایک ڈیڑھ صاع سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
252
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
250
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
250
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
250
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ وہ برتن ایک بڑا پیالہ تھا جسے فرق کہا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ بعض حضرات کے نزدیک خاوند بیوی کا اکٹھے غسل جائز نہیں۔ امام بخاری ؒ ان کی تردید کرتے ہوئے اس کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں: مذکورہ روایت سے بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اتحاد ظرف اتحاد زمان کو لازم نہیں کہ ایک ہی وقت میں دونوں کا غسل ہوتا ہو، نیز واؤ کا استعمال عطف اور انفصال کے لیے ہے، قران و اتحاد کے لیے ان کا استعمال نہیں ہوتا، وہاں دوسری روایات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اس برتن سے ایک وقت میں دونوں غسل کرتے تھے۔ (حاشیة السندي :56/1) امام بخاری نے کتاب الوضو میں مرد عورت کا ایک برتن میں وضو کرنا ثابت فرمایا۔ اسی طرح یہاں مرد وعورت کا ایک وقت میں ایک ہی برتن سے اکٹھا غسل کرنا ثابت کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں اورنبی ﷺ ایک برتن سے اکٹھے غسل کرتے تھے اور اس برتن میں ہمارے ہاتھ باری باری جاتے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:261) ایک روایت میں ہے کہ ہم اس سے اکٹھے چلو بھرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث:273) صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے چلو بھرتے تو میں کہتی میرے لیے پانی بچانا۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:32 (321)) نسائی کی روایت میں ہے کہ جب میں پہلے چلو بھر لیتی تو رسول اللہ ﷺ (مزاح کے طور پر) فرماتے : ’’میرے لیے پانی بچا رکھیو۔‘‘(سنن النسائي، الغسل، حدیث:414) بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصود عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کا جواز ثابت کرنا ہے، جیسا کہ قبل ازیں عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کا جواز ثابت کر چکے ہیں، کیونکہ جب ایک ساتھ غسل کریں گے تو جس وقت ایک پانی لے گا تو بقیہ پانی دوسرے کے لیے"فضل" بن جائے گا۔ لیکن اس قدر تکلف کی کیا ضرورت ہے، کیونکہ احادیث میں صراحت ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ ؓ سے بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:743 (323)) 2۔ علامہ داودی نے اس حدیث سے ایک دوسرے کا عضو مستور دیکھنے کا جواز ثابت کیا ہے، کیونکہ جب بیوی خاوند مل کر اکٹھے غسل کریں گے تو یقیناً ایک دوسرے کے عضو مستور پر نظر پڑے گی، اس کی تائید ابن حبان کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سلیمان بن موسیٰ سے خاوند بیوی کے ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کے متعلق حضرت عطاء سے سوال کیا وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا تو انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دیا۔ (فتح الباری:473/1) 3۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ ایک برتن (قدح) سے غسل کرتے تھے۔ اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔ فرق سولہ رطل کا پیمانہ ہے۔ چونکہ ایک صاع 3۔1۔5 رطل کا ہوتا ہے، اس لیے فرق میں تین صاع پانی آتا تھا۔ اس کی تائید سفیان بن عیینہ کے قول سے بھی ہوتی ہے، جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے کہ فرق تین صاع کا پیمانہ ہے۔ (صحیح مسلم، الحیض، حدیث:727 (319)) جب رسول اللہ ﷺ اکیلے غسل فرماتے توایک صاع پانی کی مقدار استعمال کرتے، جیسا کہ احادیث میں بصراحت آیا ہے، لیکن تحدید نہیں، بلکہ حسب ضرورت اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث عائشہ ؓ میں جو فرق سے غسل کرنے کا ذکر ہے اس میں مقدار ماء کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ بھرا ہوا تھا یا کم تھا۔ (عمدة القاري:13/1) اگر وہ بھرا ہوا تھا تو ہر ایک کے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ صاع آتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس وقت برتن میں دو صاع پانی ہو تو پھر مذکورہ بالا حدیث کے خلاف نہیں ہوگا اور یہ تحقیقی صورت ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ایک ہی صاع سے غسل فرماتے تھے۔ کبھی وہ مقدار چھوٹے برتن میں ہوتی تھی اور کبھی بڑے برتن میں اسے ڈال لیا جاتا تھا۔ اگر پہلی صورت ہے تو غسل کے پانی کی مقدارتقریبی ہو گی۔ تحدید سے اس کا تعلق نہیں ہو گا، یعنی ایک ڈیڑھ صاع سے غسل فرمایا کرتے تھے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے حدیث بیان کی۔ انھوں نے زہری سے، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں اور نبی کریم ﷺ ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ہردومیاں بیوی ایک ہی برتن میں پانی بھرکر غسل کرسکتے ہیں۔ یہاں فرق ( برتن ) کا ذکر ہردو کے لیے مذکور ہے۔ جن احادیث میں صرف ایک صاع پانی کا ذکر ہے، وہاں آنحضرت ﷺ کا تنہا اکیلے غسل کا ذکر ہے۔ دوفرق کا وزن سولہ رطل یعنی آٹھ سیر کے قریب ہوتا ہے جو تین صاع حجازی کے برابرہے۔ صاحب عون المعبود ؒ فرماتے ہیں: ''وَلَيْسَ الْغُسْلُ بِالصَّاعِ وَالْوُضُوءُ بِالْمُدِّ لِلتَّحْدِيدِ وَالتَّقْدِيرِ بَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُبَّمَا اقْتَصَرَ عَلَى الصَّاعِ وَرُبَّمَا زَادَ رَوَى مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ تَغْتَسِلُ هِيَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ هو الفرق قال بن عُيَيْنَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُمَا هُوَ ثَلَاثَةُ آصُعٍ'' (عون المعبود،ج1،ص: 35 ) یعنی غسل اور وضو کے لیے صاع کی تحدید نہیں ہے، کبھی آپ ﷺ نے ایک صاع پر کبھی زیادہ پر اکتفا فرمایا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) and I used to take a bath from a single pot called 'Faraq'.