باب : قربانی کے جانوروں اور اونٹوں میں شرکت اور اگر کوئی مکہ کو قربانی بھیج چکے پھر اس میں کسی کو شریک کرلے تو جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Partnership
(Chapter: Sharing the Hady and Budn)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2505.
حضرت جابر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ذوالحجہ کی چار تاریخ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے جبکہ لوگوں نے حج کا احرام باندھ رکھا تھا۔ ان کی اس کے ساتھ کوئی اور نیت نہ تھی۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سے عمرے کے احرام میں بدل لیں تو ہم نے اس کو عمرے کے احرام میں بدل ڈالا۔ اور یہ بھی حکم دیا کہ (عمرہ کرنے کے بعد) ہم احرام کھول دیں اور اپنی بیویوں کے بارے میں پابندیوں سے آزاد ہوجائیں۔ اس پر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ عطا کہتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ نے کہا: ہم میں سے کوئی منیٰ اس حالت میں جائے گا کہ اس کے عضو خاص سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ ہم نے بیویوں سے تازہ تازہ جماع کیاہوگا۔ حضرت جابر ؓ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ جب یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ لوگ اس اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ اپنے دل میں اللہ کا ڈر رکھتا ہوں۔ اگر پہلے سے مجھے اس بات کا علم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لاتا۔ اگر میرے ساتھ قربانی کےجانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام سے باہر ہوجاتا۔‘‘ اس پرحضرت سراقہ بن مالک بن جعثم ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ(حج کے دنوں میں عمرہ) صرف ہمارے لیے (خاص) ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے حضرت جابر ؓنے کہاکہ اس دوران میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب بھی آپہنچے۔ دونوں راویوں میں سے ایک نے کہاکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نیت کے مطابق لبیك کہا۔ دوسرے راوی کے بیان کے مطابق انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے حج کے مطابق لبیک کہا، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں اور آپ نے انھیں قربانی کے جانوروں میں شریک کرلیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے خمس لینے کے لیے یمن بھیجا تھا۔ انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا تھا اور اپنے ہمراہ 37 اونٹ لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے 63 اونٹ لے کر روانہ ہوئے۔ اس طرح کل سو اونٹ قربانی کے ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں قربانی کے جانوروں میں شریک کر لیا۔ (2) احناف کے نزدیک قربانی کے جانوروں میں شراکت جائز نہیں کیونکہ جب عبادت کی نیت سے ان کی تعیناتی ہو چکی ہے تو ان میں اشتراک جائز نہیں۔ احناف حدیث کا جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ہدی کے ثواب میں شریک فرمایا تھا۔ بہرحال حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ تعین کے بعد بھی کسی کو قربانی میں شریک کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2419
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2505
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2505
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2505
تمہید کتاب
لغوی طور پر "شراکت" کے معنی شامل ہونے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں دو یا زیادہ افراد کا ایک چیز میں حق دار ہونا شراکت کہلاتا ہے۔ شراکت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ٭ شرکتِ املاک۔ ٭ شرکت عقود۔٭ شرکتِ املاک: ملکیت میں شرکت، مثلاً: چند آدمیوں کو وراثت میں یا بطور ہبہ کوئی جائیداد یا نقد روپیہ ملا یا انہوں نے مل کر کوئی چیز خریدی، تو ملکیت میں سب شریک ہوں گے۔ اس میں ایجاب و قبول نہیں ہوتا۔ اس کی مزید دو قسمیں ہیں: ٭ اختیاری ٭ غیر اختیاری۔ اختیاری یہ ہے کہ شرکاء مل کر کوئی جائیداد خرید لیں اور غیر اختیاری یہ ہے کہ شرکاء کی مرضی اور اختیار کے بغیر ہی انہیں کسی چیز میں شریک مان لیا جائے، مثلاً: وراثت میں ملنے والے مال میں شریک ہو جائیں۔ شراکت کی اس قسم کا حکم یہ ہے کہ جتنے لوگ شریک ہوں، ان میں سے کسی ایک کو مشترکہ جائیداد میں تصرف کا حق نہیں ہے الا یہ کہ تمام شرکاء اجازت دے دیں۔٭ شرکتِ عقود: اس شرکت میں تمام شرکاء باہمی طور پر ایک معاہدے کے ذریعے سے ایک دوسرے سے بندھ جاتے ہیں اور اس کی شرائط کے پابند ہوتے ہیں۔ اس میں ایجاب و قبول ضروری ہے۔ اس میں دو یا دو سے زیادہ آدمی تھوڑا تھوڑا مال فراہم کر کے آپس میں یہ طے کر لیں کہ ہم سب مل کر اس مال سے فلاں کام کریں گے اور جو نفع ہو گا اسے آپس میں مناسب شرح میں تقسیم کر لیں گے۔ یہ اقرار زبانی بھی ہو سکتا ہے اور تحریری بھی، لیکن موجودہ دور میں شرکت عقود کو تحریر میں لانا بہت ضروری ہے۔ اس معاہدے میں ہر فرد کو یہ حق ہوتا ہے کہ جب چاہے اس معاہدے کو ختم کر کے شراکت سے الگ ہو جائے لیکن دوسرے شرکاء کو قبل از وقت مطلع کرنا ضروری ہے۔ اگر شرکاء میں سے کوئی فوت ہو جائے تو معاہدہ خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن متوفی کے ورثاء چاہیں تو اس کی تجدید کر کے اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔شراکت کا کاروبار بڑے پیمانے پر چلانے کے لیے شرکاء میں سے چند آدمیوں کو کاروبار چلانے کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ چونکہ ان کا وقت زیادہ خرچ ہو گا یا وہ اضافی صلاحیت رکھتے ہوں گے، اس لیے انہیں منافع سے کچھ زیادہ حصہ بھی دیا جا سکتا ہے۔یہ شراکت مال میں بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی محنت میں بھی۔ شراکت میں سرمائے کا برابر ہونا ضروری نہیں اور نہ نفع ہی میں برابری شرط ہے، تاہم منافع کی تقسیم اور اس کی مقدار روز اول ہی سے صاف صاف بیان کر دینا ضروری ہے کہ کس کو کتنا ملے گا، نیز اس میں ہر ایک شریک مشترکہ مال کا امین بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی۔ امین کی حیثیت سے مال کی حفاظت کرنا ہو گی اور وکیل کی حیثیت سے ہر ایک کو کاروبار کے نظم اور تصرف میں برابر کا اختیار حاصل ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے شراکت کے متعلق ضروری ضروری اقسام و مسائل سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ستائیس مرفوع احادیث اور ایک اثر بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث میں ایک معلق اور باقی چھبیس متصل اسانید سے مروی ہیں۔ ان میں تیرہ مکرر اور چودہ خالص ہیں۔ احادیث پر سولہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے گئے ہیں، جن میں چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ کھانے، زاد سفر اور دیگر اسباب میں شرکت۔ ٭ بکریوں کی تقسیم۔ ٭ تقسیم میں قرعہ اندازی۔ ٭ شرکاء میں منصفانہ قیمت ٹھہرانا۔ ٭ زمین کے معاملات میں شراکت۔ ٭ تقسیم کے بعد رجوع نہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی باریک بینی سے احکام شراکت کو مرتب فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مطابق ہمیں عمل کی توفیق دے۔ والله ولي التوفيق وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم
حضرت جابر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین ذوالحجہ کی چار تاریخ کو مکہ مکرمہ تشریف لائے جبکہ لوگوں نے حج کا احرام باندھ رکھا تھا۔ ان کی اس کے ساتھ کوئی اور نیت نہ تھی۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سے عمرے کے احرام میں بدل لیں تو ہم نے اس کو عمرے کے احرام میں بدل ڈالا۔ اور یہ بھی حکم دیا کہ (عمرہ کرنے کے بعد) ہم احرام کھول دیں اور اپنی بیویوں کے بارے میں پابندیوں سے آزاد ہوجائیں۔ اس پر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ عطا کہتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ نے کہا: ہم میں سے کوئی منیٰ اس حالت میں جائے گا کہ اس کے عضو خاص سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ ہم نے بیویوں سے تازہ تازہ جماع کیاہوگا۔ حضرت جابر ؓ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ جب یہ بات نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ لوگ اس اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ اللہ کی قسم! میں سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ اپنے دل میں اللہ کا ڈر رکھتا ہوں۔ اگر پہلے سے مجھے اس بات کا علم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں اپنے ساتھ قربانی کے جانور نہ لاتا۔ اگر میرے ساتھ قربانی کےجانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام سے باہر ہوجاتا۔‘‘ اس پرحضرت سراقہ بن مالک بن جعثم ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! یہ(حج کے دنوں میں عمرہ) صرف ہمارے لیے (خاص) ہے یا ہمیشہ کے لیے ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے حضرت جابر ؓنے کہاکہ اس دوران میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب بھی آپہنچے۔ دونوں راویوں میں سے ایک نے کہاکہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی نیت کے مطابق لبیك کہا۔ دوسرے راوی کے بیان کے مطابق انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے حج کے مطابق لبیک کہا، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں اور آپ نے انھیں قربانی کے جانوروں میں شریک کرلیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے خمس لینے کے لیے یمن بھیجا تھا۔ انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے احرام جیسا احرام باندھا تھا اور اپنے ہمراہ 37 اونٹ لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ سے 63 اونٹ لے کر روانہ ہوئے۔ اس طرح کل سو اونٹ قربانی کے ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے انہیں قربانی کے جانوروں میں شریک کر لیا۔ (2) احناف کے نزدیک قربانی کے جانوروں میں شراکت جائز نہیں کیونکہ جب عبادت کی نیت سے ان کی تعیناتی ہو چکی ہے تو ان میں اشتراک جائز نہیں۔ احناف حدیث کا جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو ہدی کے ثواب میں شریک فرمایا تھا۔ بہرحال حدیث اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ تعین کے بعد بھی کسی کو قربانی میں شریک کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی، انہیں عطاء نے اور انہیں جابر ؓ نے اور (ابن جریج اسی حدیث کی دوسری روایت) طاوس سے کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ چوتھی ذی الحجہ کی صبح کو حج کا تلب یہ کہتے ہوئے جس کے ساتھ کوئی اور چیز (عمرہ) نہ ملاتے ہوئے (مکہ میں) داخل ہوئے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو آپ کے حکم سے ہم نے اپنے حج کو عمرہ کرڈالا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ (عمرہ کے افعال ادا کرنے کے بعد حج کے احرام تک) ہماری بیویاں ہمارے لیے حلال رہیں گی۔ اس پر لوگوںمیں چرچا ہونے لگا۔ عطاءنے بیان کیا کہ جابر ؓ نے کہا کہ لوگ کہنے لگے کیا ہم میں سے کوئی منیٰ اس طرح جائے کہ منی اس کے ذکر سے ٹپک رہی ہو۔ جابر نے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔ یہ بات نبی کریم ﷺ تک پہنچی تو آپ خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض لوگ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے زیادہ نیک اور اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔ اگر مجھے وہ بات پہلے ہی معلوم ہوتی جو اب معلوم ہوئی ہے تو میں قربانی کے جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ قربانی کے جانور نہ ہوتے تو میں بھی احرام کھول دیتا۔ اس پرسراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا یہ حکم (حج کے ایام میں عمرہ) خاص ہمارے ہی لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ جابر ؓ نے کہا کہ علی بن ابی طالب ؓ (یمن سے) آئے۔ اب عطاء اور طاوس میں سے ایک تو یوں کہتا ہے حضرت علی ؓ نے احرام کے وقت یوں کہا تھا۔ لبیک ب اہل بہ رسول اللہ ﷺ اور دوسرا یوں کہتا ہے کہ انہوں نے لبیك بحجة رسول اللہ ﷺ کہا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے احرام پر قائم رہیں (جیسا بھی انہوں نے باندھا ہے) اور انہیں اپنی قربانی میں شریک کرلیا۔
حدیث حاشیہ:
اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ سند میں ابن جریج کا اس حدیث کو عطاء اور طاؤس دونوں سے سننا مذکور ہے۔ حافظ نے کہا میرے نزدیک تو طاؤس سے روایت منقطع ہے کیوں کہ ابن جریج نے مجاہد اور عکرمہ سے نہیں سنا اور طاؤس ان ہی کے ہم عصر ہیں، البتہ عطا سے سنا ہے کیوں کہ عطاء ان لوگوں کے دس برس بعد ہوئے تھے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے مدینہ سے قربانی کے لیے63 اونٹ لیے اور حضرت علی ؓ یمن سے 37 اونٹ لائے۔ جملہ سو اونٹ ہوئے اور حضرت علی ؓ نے آپ کو ان اونٹوں میں شریک کرلیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) (along with his companions) reached Makkah in the morning of the fourth of Dhul-Hijja assuming Ihram for Hajj only. So when we arrived at Makkah, the Prophet (ﷺ) ordered us to change our intentions of the Ihram for'Umra and that we could finish our Ihram after performing the 'Umra and could go to our wives (for sexual intercourse). The people began talking about that. Jabir said surprisingly, "Shall we go to Mina while semen is dribbling from our male organs?" Jabir moved his hand while saying so. When this news reached the Prophet (ﷺ) he delivered a sermon and said, "I have been informed that some peoples were saying so and so; By Allah I fear Allah more than you do, and am more obedient to Him than you. If I had known what I know now, I would not have brought the Hadi (sacrifice) with me and had the Hadi not been with me, I would have finished the Ihram." At that Suraqa bin Malik stood up and asked "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Is this permission for us only or is it forever?" The Prophet (ﷺ) replied, "It is forever." In the meantime 'Ali bin Abu Talib came from Yemen and was saying Labbaik for what the Prophet (ﷺ) has intended. (According to another man, 'Ali was saying Labbaik for Hajj similar to Allah's Apostle's). The Prophet (ﷺ) told him to keep on the Ihram and let him share the Hadi with him.