Sahi-Bukhari:
Mortgaging
(Chapter: The Statement of Allah Taa'la: "And if you are on a journey and cannot find a scribe, then let there be a pledge taken...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ پاک نے سورۃ بقرہ میں فرمایا اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضہ میں رکھ لو (باب تشریح) تشریح : رہن کے معنی ثبوت یا رکنا اور اصطلاح شرع میں رہن کہتے ہیں قرض کے بدل کوئی چیز رکھوادینے کو مضبوطی کے لیے کہ اگر قرض ادا نہ ہو تو مرتہن اس چیز سے اپنا قرض وصول کرلے۔ جو شخص رہن کی چیز کا مالک ہو اس کو راہن اور جس کے پاس رکھا جائے اس کو مرتہن اور اس چیز کو مرہون کہتے ہیں۔ رہن کے لغوی معنی گروی رکھنا، روک رکھنا، اقامت کرنا، ہمیشہ رہنا۔ مصدر ارہان کے معنی گروی کرنا۔ قرآن مجید کی آیت کل نفس بما کسبت رھین ( المدثر: 38 ) میں گروی مراد ہے۔ یعنی ہر نفس اپنے اعمال کے بدلے میں اپنے آپ کو گروی کرچکا ہے۔ حدیث نبوی کل غلام رہینۃ بعقیقتہمیں بھی گروی مراد ہے۔ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ہاتھ میں گروی ہے۔ بعض نے کہا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہوا اور وہ مرگیا تو وہ اپنے والدین کی سفارش نہیں کرے گا۔ بعض نے عقیقہ ہونے تک بچے کا بالوں کی گندگی وغیرہ میں مبتلا رہنا مراد لیا ہے۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق رہن کے جواز کے لیے آیت قرآنی سے استشہاد فرمایا۔ پھر سفر کی خصوصیت کا شبہ پیدا ہورہا تھا کہ رہن صرف سفر سے متعلق ہے، اس لیے لفظ ” حضر “ کا بھی اضافہ فرماکر اس شبہ کو رد کیا اور حضر میں رہن کا ثبوت حدیث نبوی سے پیش فرمایا جو کہ آگے مذکور ہے۔ جس میں یہودی کے ہاں آپ نے اپنی زرہ مبارک گروی رکھی۔ اس کا نام ابوشحم تھا اور یہ بنوظفر سے تعلق رکھتا تھا جو قبیلہ خزرج کی ایک شاخ کا نام ہے۔ (ترجمۃ الباب) یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بتلایا کہ قرآن شریف میں جو یہ قید ہے و ان کنتم علي سفر ( البقرۃ: 283 ) یہ قید اتفاقی ہے اس لیے کہ اکثر سفر میں گروی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضر میں گروی رکھنا درست نہیں۔
2508.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کے عوض اپنی زرہ گروی رکھی۔ اور میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور باسی چربی لے کرحاضر ہواتھا اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’محمد ﷺ کے گھر والوں پر کوئی صبح یا شام ایسی نہیں گزری کہ ان کے پاس ایک صاع سے زیادہ رہا ہو۔‘‘ حالانکہ آپ کے نوگھر ہوتے تھے۔
تشریح:
(1) اگرچہ اس حدیث میں حضر میں رہن رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؓ نے اس حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے اہل خانہ کے لیے جو لیے تھے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2069) یہودی کا نام ابو شحم اور وہ بنو ظفر سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ذات الفضول نامی زرہ گروی رکھی اور اس سے تیس صاع جو ادھار لیے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ آپ کی وفات تک وہ زرہ گروی رہی۔ (مسند أحمد:238/3) حضرت ابوبکر ؓ نے قرض دے کر وہ زرہ واپس لی۔ (فتح الباري:174/5) (2) رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے بجائے ایک یہودی سے ادھار کا معاملہ کیا۔ اس کی کئی ایک وجوہات علماء نے بیان کی ہیں: ایک یہ ہے کہ ان دنوں صحابۂ کرام ؓ کے پاس فالتو غلہ نہ تھا، اس لیے مجبوراً ایک یہودی سے یہ معاملہ کرنا پڑا۔ دوسری یہ کہ آپ اس بات کا بخوبی علم رکھتے تھے کہ صحابۂ کرام تکلف کریں گے اور آپ کو بلا معاوضہ غلہ دیں گے، خواہ مخواہ انہیں تنگ ہونا پڑے گا۔ اس بنا پر خاموشی سے یہ معاملہ کر لیا۔ (فتح الباري:175/5)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2421
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2508
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2508
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2508
تمہید کتاب
لغوی طور پر رہن مصدر ہے، جس کے معنی گروی رکھنے، گروی ثابت ہونے، ہمیشہ رہنے، روکنے اور لازم ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا گروی کہلاتا ہے۔ ارتہان گروی لینے، استرہان گروی طلب کرنے، راہن گروی رکھنے والے مقروض، مرتہن گروی لینے والے حق دار اور مرہون یا رہن گروی رکھی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے۔رہن ایک طرح کا معاہدہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ راہن اور مرتہن دونوں راضی خوشی یہ معاملہ کریں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ راہن نے جو چیز مرتہن کو بطور رہن دی ہے اس پر قبضہ بھی دے، مثلاً: اگر اس نے کوئی کھیتی رہن میں رکھی ہے مگر اس پر کسی دوسرے کا قبضہ ہے تو اس صورت میں رہن کا معاملہ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ مرہون اس قابل ہو کہ اسے فروخت کر کے قیمت وصول کی جا سکتی ہو، یعنی شریعت اسے قابلِ استعمال مال تسلیم کرتی ہو، چنانچہ اگر کسی نے تالاب کی مچھلی یا اُڑتا ہوا پرندہ یا پھل آنے سے پہلے باغ کا پھل گروی رکھا تو ایسی چیزوں سے گروی رکھنے کا معاملہ صحیح نہیں ہو گا۔دراصل اعتماد کی فضا سازگار رہنے یا رکھنے کے لیے کسی چیز کو گروی رکھا جاتا ہے، مثلاً: ایک آدمی سفر میں ہے اور اسے رقم کی ضرورت ہے یا اپنے وطن میں ہے لیکن اسے کوئی جانتا نہیں یا اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے اسے کوئی قرض نہیں دیتا تو شریعت نے قرض لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز کسی کے پاس گروی رکھ کر اس سے قرض لے لے۔ اس طرح قرض دینے والے کو بھی اطمینان ہو جائے گا کہ اس کی رقم ماری نہیں جائے گی اور قرض لینے والے کی بھی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ کسی شخص کو گروی کے ذریعے سے قرض دینے پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا، البتہ شریعت نے ہر خوش حال سے یہ امید رکھی ہے کہ وہ ایسے موقع پر اپنے ضرورت مند بھائی کی مدد کرے۔ اگر ضمانت کے بغیر مدد نہیں کرتا تو آسان صورت یہ ہے کہ ضرورت مند کی کوئی چیز گروی رکھ لے اور اس کی مدد کرے۔زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب راہن مقررہ مدت تک قرض کی ادائیگی نہ کرتا تو مرتہن مرہونہ چیز کا مالک بن جاتا لیکن شریعت نے اسے باطل قرار دیا ہے بلکہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانے کی بھی محدود پیمانے پر اجازت دی ہے۔ اگر گروی شدہ چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں تو راہن کی اجازت کے بغیر اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ مرہونہ چیز راہن کی ملکیت ہے اور اس کا منافع بھی اسی کا ہو گا اِلا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ اور اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج ہے، مثلاً: کوئی جانور ہے تو خرچ کے مطابق مرتہن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شریعت نے فائدہ اٹھانے کو خرچے کے ساتھ معلق کیا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔ واضح رہے کہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس امانت ہوتی ہے، اگر وہ اس کی زیادتی، کوتاہی یا خیانت کے بغیر ضائع ہو جائے تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا، بصورت دیگر وہ ضامن قرار پائے گا۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان میں "حضر" کا ذکر کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن کریم میں سفر کا ذکر اتفاقی ہے کیونکہ دوران سفر میں عام طور پر کاتب نہیں ملتا۔ دراصل رہن قرضے کے حصول کی توثیق ہوتی ہے، اس کی سفر میں کوئی خصوصیت نہیں، لہذا سفر و حضر میں رہن کے ذریعے سے قرض لیا جا سکتا ہے۔ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے، البتہ اہل ظاہر، امام مجاہد اور امام ضحاک اس کے خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک دوران سفر میں اگر کاتب نہ ملے تو رہن کے ذریعے سے قرض لیا جا سکتا ہے، حضر میں ایسا کرنا جائز نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ حدیث ذکر کر کے ان حضرات کی تردید کی ہے۔ (فتح الباری:5/174)
اور اللہ پاک نے سورۃ بقرہ میں فرمایا اگر تم سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے تو رہن قبضہ میں رکھ لو (باب تشریح) تشریح : رہن کے معنی ثبوت یا رکنا اور اصطلاح شرع میں رہن کہتے ہیں قرض کے بدل کوئی چیز رکھوادینے کو مضبوطی کے لیے کہ اگر قرض ادا نہ ہو تو مرتہن اس چیز سے اپنا قرض وصول کرلے۔ جو شخص رہن کی چیز کا مالک ہو اس کو راہن اور جس کے پاس رکھا جائے اس کو مرتہن اور اس چیز کو مرہون کہتے ہیں۔ رہن کے لغوی معنی گروی رکھنا، روک رکھنا، اقامت کرنا، ہمیشہ رہنا۔ مصدر ارہان کے معنی گروی کرنا۔ قرآن مجید کی آیت کل نفس بما کسبت رھین ( المدثر: 38 ) میں گروی مراد ہے۔ یعنی ہر نفس اپنے اعمال کے بدلے میں اپنے آپ کو گروی کرچکا ہے۔ حدیث نبوی کل غلام رہینۃ بعقیقتہمیں بھی گروی مراد ہے۔ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ہاتھ میں گروی ہے۔ بعض نے کہا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہ ہوا اور وہ مرگیا تو وہ اپنے والدین کی سفارش نہیں کرے گا۔ بعض نے عقیقہ ہونے تک بچے کا بالوں کی گندگی وغیرہ میں مبتلا رہنا مراد لیا ہے۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق رہن کے جواز کے لیے آیت قرآنی سے استشہاد فرمایا۔ پھر سفر کی خصوصیت کا شبہ پیدا ہورہا تھا کہ رہن صرف سفر سے متعلق ہے، اس لیے لفظ ” حضر “ کا بھی اضافہ فرماکر اس شبہ کو رد کیا اور حضر میں رہن کا ثبوت حدیث نبوی سے پیش فرمایا جو کہ آگے مذکور ہے۔ جس میں یہودی کے ہاں آپ نے اپنی زرہ مبارک گروی رکھی۔ اس کا نام ابوشحم تھا اور یہ بنوظفر سے تعلق رکھتا تھا جو قبیلہ خزرج کی ایک شاخ کا نام ہے۔ (ترجمۃ الباب) یہ باب لاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ بتلایا کہ قرآن شریف میں جو یہ قید ہے و ان کنتم علي سفر ( البقرۃ: 283 ) یہ قید اتفاقی ہے اس لیے کہ اکثر سفر میں گروی کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضر میں گروی رکھنا درست نہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جو کے عوض اپنی زرہ گروی رکھی۔ اور میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جو کی روٹی اور باسی چربی لے کرحاضر ہواتھا اور میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’محمد ﷺ کے گھر والوں پر کوئی صبح یا شام ایسی نہیں گزری کہ ان کے پاس ایک صاع سے زیادہ رہا ہو۔‘‘ حالانکہ آپ کے نوگھر ہوتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگرچہ اس حدیث میں حضر میں رہن رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؓ نے اس حدیث کے بعض طرق کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے اہل خانہ کے لیے جو لیے تھے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2069) یہودی کا نام ابو شحم اور وہ بنو ظفر سے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ذات الفضول نامی زرہ گروی رکھی اور اس سے تیس صاع جو ادھار لیے۔ مسند امام احمد میں ہے کہ آپ کی وفات تک وہ زرہ گروی رہی۔ (مسند أحمد:238/3) حضرت ابوبکر ؓ نے قرض دے کر وہ زرہ واپس لی۔ (فتح الباري:174/5) (2) رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کے بجائے ایک یہودی سے ادھار کا معاملہ کیا۔ اس کی کئی ایک وجوہات علماء نے بیان کی ہیں: ایک یہ ہے کہ ان دنوں صحابۂ کرام ؓ کے پاس فالتو غلہ نہ تھا، اس لیے مجبوراً ایک یہودی سے یہ معاملہ کرنا پڑا۔ دوسری یہ کہ آپ اس بات کا بخوبی علم رکھتے تھے کہ صحابۂ کرام تکلف کریں گے اور آپ کو بلا معاوضہ غلہ دیں گے، خواہ مخواہ انہیں تنگ ہونا پڑے گا۔ اس بنا پر خاموشی سے یہ معاملہ کر لیا۔ (فتح الباري:175/5)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم سفر میں ہو اور کوئی کاتب نہ ملے تو کوئی چیز رہن کے طور پر قبضہ میں د ے دی جائے(اورقرض لے لیاجائے)۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی زرہ جو َ کے بدلے گروی رکھی تھی۔ ایک دن میں خود آپ کے پاس جو کی روٹی اور باسی چربی لے کر حاضر ہوا تھا۔ میں نے خود آپ سے سنا تھا۔ آپ فر ما رہے تھے کہ آل محمد (ﷺ) پر کوئی صبح اور کوئی شام ایسی نہیں آئی کہ ایک صاع سے زیادہ کچھ اور موجود رہا ہو، حالانکہ آپ کے نو گھر تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہ آپ نے اپنا واقعہ بیان فرمایا، دوسرے مومنین کو تسلی دینے کے لیے نہ کہ بطور شکوہ اور شکایت کے۔ اہل اللہ تو فقر اور فاقہ پر ایسی خوشی کرتے ہیں جو غنا اور تونگری پر نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ فقر اور فاقہ اور دکھ اور بیماری خالص محبوب یعنی خداوند کریم کی مراد ہے اور غنا اور تونگری میں بندے کی مراد بھی شریک ہوتی ہے۔ حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاءقدس سرہ سے منقول ہے۔ جب وہ اپنے گھر میں جاتے اور والدہ سے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے؟ وہ کہتی ’’بابا نظام الدین ماامروز مہمان خدائیم‘‘ تو بے حد خوشی کرتے اور جس دن وہ کہتی کہ ’’ہاں! کھانا حاضر ہے‘‘ تو کچھ خوشی نہ ہوتی۔ (وحیدی) حافظ صاحب فرماتے ہیں: وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ مُعَامَلَةِ الْكُفَّارِ فِيمَا لَمْ يَتَحَقَّقْ تَحْرِيمُ عَيْنِ الْمُتَعَامَلِ فِيهِ وَعَدَمُ الِاعْتِبَارِ بِفَسَادِ مُعْتَقَدِهِمْ وَمُعَامَلَاتِهِمْ فِيمَا بَيْنَهُمْ وَاسْتُنْبِطَ مِنْهُ جَوَازُ مُعَامَلَةِ مَنْ أَكْثَرُ مَالِهِ حَرَامٌ وَفِيهِ جَوَازُ بَيْعِ السِّلَاحِ وَرَهْنِهِ وَإِجَارَتِهِ وَغَيْرِ ذَلِكَ مِنَ الْكَافِرِ مَا لَمْ يَكُنْ حَرْبِيًّا وَفِيهِ ثُبُوتُ أَمْلَاكِ أَهْلِ الذِّمَّةِ فِي أَيْدِيهِمْ وَجَوَازُ الشِّرَاءِ بِالثَّمَنِ الْمُؤَجَّلِ وَاتِّخَاذِ الدُّرُوعِ وَالْعُدَدِ وَغَيْرِهَا مِنْ آلَاتِ الْحَرْبِ وَأَنَّهُ غَيْرُ قَادِحٍ فِي التَّوَكُّلِ وَأَنَّ قُنْيَةَ آلَةِ الْحَرْبِ لَا تَدُلُّ على تحبيسها قَالَه بن الْمُنِيرِ وَأَنَّ أَكْثَرَ قُوتِ ذَلِكَ الْعَصْرِ الشَّعِيرُ قَالَهُ الدَّاوُدِيُّ وَأَنَّ الْقَوْلَ قَوْلُ الْمُرْتَهِنِ فِي قيمَة الْمَرْهُون مَعَ يَمِينه حَكَاهُ بن التِّينِ وَفِيهِ مَا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ التَّوَاضُعِ وَالزُّهْدِ فِي الدُّنْيَا وَالتَّقَلُّلِ مِنْهَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَيْهَا وَالْكَرَمِ الَّذِي أَفْضَى بِهِ إِلَى عَدَمِ الِادِّخَارِ حَتَّى احْتَاجَ إِلَى رَهْنِ دِرْعِهِ وَالصَّبْرِ عَلَى ضِيقِ الْعَيْشِ وَالْقَنَاعَةِ بِالْيَسِيرِ وَفَضِيلَةٌ لِأَزْوَاجِهِ لِصَبْرِهِنَّ مَعَهُ عَلَى ذَلِكَ وَفِيهِ غَيْرُ ذَلِكَ مِمَّا مَضَى وَيَأْتِي قَالَ الْعُلَمَاءُ الْحِكْمَةُ فِي عُدُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُعَامَلَةِ مَيَاسِيرِ الصَّحَابَةِ إِلَى مُعَامَلَةِ الْيَهُودِ إِمَّا لِبَيَانِ الْجَوَازِ أَوْ لِأَنَّهُمْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ إِذْ ذَاكَ طَعَامٌ فَاضل عَنْ حَاجَةِ غَيْرِهِمْ أَوْ خَشِيَ أَنَّهُمْ لَا يَأْخُذُونَ مِنْهُ ثَمَنًا أَوْ عِوَضًا فَلَمْ يُرِدِ التَّضْيِيقَ عَلَيْهِمْ فَإِنَّهُ لَا يَبْعُدُ أَنْ يَكُونَ فِيهِمْ إِذْ ذَاكَ مَنْ يَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ وَأَكْثَرَ مِنْهُ فَلَعَلَّهُ لَمْ يُطْلِعْهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَإِنَّمَا أَطْلَعَ عَلَيْهِ مَنْ لَمْ يَكُنْ مُوسِرًا بِهِ مِمَّنْ نَقَلَ ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ(فتح الباري)یعنی اس حدیث سے کفار کے ساتھ ایسی چیزوں میں جن کی حرمت متحقق نہ ہو، معاملہ کرنے کا جواز ثابت ہوا اس بارے میںان کے معتقدات اور باہمی معاملات کے بگاڑ کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور اس سے ان کے ساتھ بھی معاملہ کا جواز ثابت ہوا جن کے مالک کا اکثر حصہ حرام سے تعلق رکھتا ہے اور اس سے کافر کے ہاتھ ہتھیاروں کا رہن رکھناو بیچنا ثابت ہوا جب تک وہ حربی نہ ہو اور اس سے ذمیوں کے املاک کا بھی ثبوت ہوا جو ان کے قابو میں ہوں اور اس سے ادھار قیمت پر خرید کرنا بھی ثابت ہوا اور زرہ وغیرہ آلات حرب کا تیار کرنا بھی ثابت ہوا، اور یہ کہ اس قسم کی تیاریاں تو کل کے منافی نہیں ہیں اور یہ کہ آلات حرب کا ذخیرہ جمع کرنا ان کے روکنے پر دلالت نہیں کرتا۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس زمانہ میں زیادہ تر کھانے میں جو کا رواج تھا۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ شئے مرہونہ کے بارے میں قسم کے ساتھ مرتہن کا قول ہی معتبر مانا جائے گا اور اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کا زہد و توکل بھی بدرجہ اتم ثابت ہوا۔ حالانکہ آپ کو ہر قسم کی آسانیاں بہم تھیں۔ ان کے باوجود آپ نے دنیا میں ہمیشہ کمی ہی کو محبوب رکھا اور آپ کا کرم و سخا اور عدم ذخیرہ اندوزی بھی ثابت ہوا۔ جس کے نتیجہ میں آپ کو مجبوراً اپنی زرہ کو رہن رکھنا ضروری ہوا اور آپ کا صبر بھی ثابت ہوا جو آپ تنگی معاش میں فرمایا کرتے تھے اورکم سے کم پر آپ کا قناعت کرنا بھی ثابت ہوا اور آپ کی بیویوں کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو وہ آپ کے ساتھ کرتی تھیں اور اس بارے میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے بجائے یہودیوں سے ادھار کا معاملہ کیوں فرمایا؟ علماءنے ایک حکمت بیان کی ہے کہ آپ نے یہ معاملہ جواز کے اظہار کے لیے فرمایا، یا اس لیے کہ ان دنوں صحابہ کرام کے پاس فاضل غلہ نہ تھا۔ لہٰذا مجبوراً یہود سے آپ کو معاملہ کرنا پڑا۔ یا اس لیے بھی کہ آپ جانتے تھے کہ صحابہ کرام بجائے ادھار معاملہ کرنے کے بلا قیمت ہی وہ غلہ آپ کے گھر بھیج دیں گے اور خواہ مخواہ ان کو تنگ ہونا پڑے گا، اس لیے خاموشی سے آپ نے یہود سے ہی کام چلالیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): No doubt, the Prophet (ﷺ) mortgaged his armor for barley grams. Once I took barley bread with some dissolved fat on it to the Prophet (ﷺ) and I heard him saying, "The household of Muhammad did not possess except a Sa (of food grain, barley, etc.) for both the morning and the evening meals although they were nine houses."