Sahi-Bukhari:
Mortgaging
(Chapter: Mortgaging an armour)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2509.
حضرت اعمش سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ابراہیم نخعی کے پاس بیع سلم میں گروی رکھنے اور ضمانت لینے کے متعلق گفتگو کررہے تھے تو انھوں نے حضرت اسود کے حوالے سے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک معین مدت کی ادائیگی تک اناج خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی۔
تشریح:
حضرت ابراہیم نخعی نے حدیث سے یہ استدلال کیا کہ جب قیمت کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے تو قیمت والی چیز میں بھی جائز ہے۔ قیمت والی چیز سے مراد بیع سلم میں وہ جنس ہے جسے بعد میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس عنوان کی اہمیت بایں طور ہے کہ زرہ اگرچہ ایک دفاعی اسلحہ ہے لیکن بوقت ضرورت اسے بھی گروی رکھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو شحم نامی یہودی سے ایک دینار کے عوض بیس صاع جو خریدے تھے اور ایک سال تک اس کی ادائیگی طے ہوئی تھی لیکن مدت سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے قیمت ادا کر کے گروی شدہ زرہ واپس لی اور حضرت علی ؓ کے حوالے کر دی۔ (فتح الباري:176/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2422
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2509
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2509
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2509
تمہید کتاب
لغوی طور پر رہن مصدر ہے، جس کے معنی گروی رکھنے، گروی ثابت ہونے، ہمیشہ رہنے، روکنے اور لازم ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا گروی کہلاتا ہے۔ ارتہان گروی لینے، استرہان گروی طلب کرنے، راہن گروی رکھنے والے مقروض، مرتہن گروی لینے والے حق دار اور مرہون یا رہن گروی رکھی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے۔رہن ایک طرح کا معاہدہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ راہن اور مرتہن دونوں راضی خوشی یہ معاملہ کریں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ راہن نے جو چیز مرتہن کو بطور رہن دی ہے اس پر قبضہ بھی دے، مثلاً: اگر اس نے کوئی کھیتی رہن میں رکھی ہے مگر اس پر کسی دوسرے کا قبضہ ہے تو اس صورت میں رہن کا معاملہ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ مرہون اس قابل ہو کہ اسے فروخت کر کے قیمت وصول کی جا سکتی ہو، یعنی شریعت اسے قابلِ استعمال مال تسلیم کرتی ہو، چنانچہ اگر کسی نے تالاب کی مچھلی یا اُڑتا ہوا پرندہ یا پھل آنے سے پہلے باغ کا پھل گروی رکھا تو ایسی چیزوں سے گروی رکھنے کا معاملہ صحیح نہیں ہو گا۔دراصل اعتماد کی فضا سازگار رہنے یا رکھنے کے لیے کسی چیز کو گروی رکھا جاتا ہے، مثلاً: ایک آدمی سفر میں ہے اور اسے رقم کی ضرورت ہے یا اپنے وطن میں ہے لیکن اسے کوئی جانتا نہیں یا اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے اسے کوئی قرض نہیں دیتا تو شریعت نے قرض لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز کسی کے پاس گروی رکھ کر اس سے قرض لے لے۔ اس طرح قرض دینے والے کو بھی اطمینان ہو جائے گا کہ اس کی رقم ماری نہیں جائے گی اور قرض لینے والے کی بھی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ کسی شخص کو گروی کے ذریعے سے قرض دینے پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا، البتہ شریعت نے ہر خوش حال سے یہ امید رکھی ہے کہ وہ ایسے موقع پر اپنے ضرورت مند بھائی کی مدد کرے۔ اگر ضمانت کے بغیر مدد نہیں کرتا تو آسان صورت یہ ہے کہ ضرورت مند کی کوئی چیز گروی رکھ لے اور اس کی مدد کرے۔زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب راہن مقررہ مدت تک قرض کی ادائیگی نہ کرتا تو مرتہن مرہونہ چیز کا مالک بن جاتا لیکن شریعت نے اسے باطل قرار دیا ہے بلکہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانے کی بھی محدود پیمانے پر اجازت دی ہے۔ اگر گروی شدہ چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں تو راہن کی اجازت کے بغیر اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ مرہونہ چیز راہن کی ملکیت ہے اور اس کا منافع بھی اسی کا ہو گا اِلا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ اور اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج ہے، مثلاً: کوئی جانور ہے تو خرچ کے مطابق مرتہن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شریعت نے فائدہ اٹھانے کو خرچے کے ساتھ معلق کیا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔ واضح رہے کہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس امانت ہوتی ہے، اگر وہ اس کی زیادتی، کوتاہی یا خیانت کے بغیر ضائع ہو جائے تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا، بصورت دیگر وہ ضامن قرار پائے گا۔
حضرت اعمش سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ابراہیم نخعی کے پاس بیع سلم میں گروی رکھنے اور ضمانت لینے کے متعلق گفتگو کررہے تھے تو انھوں نے حضرت اسود کے حوالے سے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک معین مدت کی ادائیگی تک اناج خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابراہیم نخعی نے حدیث سے یہ استدلال کیا کہ جب قیمت کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے تو قیمت والی چیز میں بھی جائز ہے۔ قیمت والی چیز سے مراد بیع سلم میں وہ جنس ہے جسے بعد میں ادا کیا جاتا ہے۔ اس عنوان کی اہمیت بایں طور ہے کہ زرہ اگرچہ ایک دفاعی اسلحہ ہے لیکن بوقت ضرورت اسے بھی گروی رکھا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو شحم نامی یہودی سے ایک دینار کے عوض بیس صاع جو خریدے تھے اور ایک سال تک اس کی ادائیگی طے ہوئی تھی لیکن مدت سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے قیمت ادا کر کے گروی شدہ زرہ واپس لی اور حضرت علی ؓ کے حوالے کر دی۔ (فتح الباري:176/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے یہاں قرض میں رہن اور ضامن کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہ ودی سے غلہ خریدا ایک مقررہ مدت کے قرض پر اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): The Prophet (ﷺ) bought some foodstuff on credit for a limited period and mortgaged his armor for it.