باب: اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Taking a bath with a Sa' of water or so (One Sa' = 3 kilograms approx.))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
251.
حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں اور حضرت عائشہ ؓ کے بھائی حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے بھائی نے نبی ﷺ کے غسل کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اسے اپنے سر پر بہایا۔ اس وقت ہمارے اور آپ کے درمیان پردہ حائل تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز (بن اسعد) اور (عبدالملک بن ابراہیم) جدی نے حضرت شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
تشریح:
1۔ روایت میں ابو سلمہ سے عبداللہ بن عبد الرحمٰن بن عوف ؓ ہیں جنھیں اُم کلثوم بنت ابی بکر ؓ نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر وہ حضرت عائشہ ؓ کے رضاعی بھانجے ہیں۔ (عمدة القاري:13/3) اور دوسرے شخص جو حضرت عائشہ ؓ کے بھائی ہیں، ان کے متعلق محدث داودی کا خیال ہے کہ وہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ ہیں جبکہ بعض نے کہا ہے کہ وہ طفیل بن عبد اللہ ؓ ہیں جو حضرت عائشہ ؓ کے مادری بھائی ہیں، لیکن یہ اس لیے صحیح نہیں کہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ وہ حضرت عائشہ ؓ کا رضاعی بھائی تھا۔ امام نووی ؒ نے کہا ہے کہ وہ عبداللہ بن یزید ہے، جیسا کہ مسلم کی روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2198 (947)) ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہویا کوئی دوسرا ہو۔ (فتح الباري:474/1) واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث سے عملی تعلیم کی قدرو قیمت کا پتہ چلتا ہے۔ کیونکہ عملی تعلیم جس قدر اطمینان بخش ہوتی ہے، قول اس درجے میں نہیں ہوتا۔ اسلاف میں تعلیم کا یہی طريقہ رائج تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بھی یہ بات موجود تھی کہ جب کوئی شخص ان سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کرتا تو زبانی بتانے کے بجائے وہ وضو کر کے دکھا دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے غسل کے طریقے اور مقدار ماء کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے عملاً کر کے دکھا دیا۔ (فتح الباري:474/1) 3۔ اس حدیث کی آڑ میں منکرین حدیث اور رافضی بہت اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں عریانیت ہے، کیونکہ لوگوں کے سامنے غسل کرنے کا بیان ہے، لہٰذا احادیث کی صداقت مجروح ہے، حالانکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ہمارے اور عائشہ کے درمیان حجاب تھا، یعنی یہ غسل پس پردہ کیا گیا تھا۔ پھر سوال کرنے والے بھی محرم تھے۔ ایک آپ کا رضاعی بھانجا اور دوسرا رضاعی بھائی تھا چونکہ غسل کر کے دکھانا تھا، اس لیے سر کا حصہ پردے سے باہر تھا اور یہ دونوں محرم دیکھ رہتے تھے کہ غسل کی ابتدا کہاں سے ہوئی، لیکن جسم کے دیگر اعضاء جن کا چھپانا محرم سے بھی ضروری ہے وہ پردے میں تھے۔ (فتح الباري:474/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
253
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
251
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
251
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
251
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان عنوان کو ایک خاص اہمیت کے پیش نظر قائم کیا ہے کہ جو معاملات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعامل سے ثابت ہیں انھیں نمایاں کیا جائے اس سے مراد تحدید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صاع کے ساتھ نحوہ کا اضافہ کیا ہے۔ دراصل مسئلہ بالا تفاق یہی ہے کہ اسراف کے بغیر جتنے پانی کی بھی ضرورت ہو غسل میں صرف کیا جائے حصول طہارت میں کمی نہیں ہونی چاہیے مقدار ماء کی عدم تحدید پر تمام علماء اتفاق ہے۔
حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں اور حضرت عائشہ ؓ کے بھائی حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے بھائی نے نبی ﷺ کے غسل کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اسے اپنے سر پر بہایا۔ اس وقت ہمارے اور آپ کے درمیان پردہ حائل تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز (بن اسعد) اور (عبدالملک بن ابراہیم) جدی نے حضرت شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ روایت میں ابو سلمہ سے عبداللہ بن عبد الرحمٰن بن عوف ؓ ہیں جنھیں اُم کلثوم بنت ابی بکر ؓ نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر وہ حضرت عائشہ ؓ کے رضاعی بھانجے ہیں۔ (عمدة القاري:13/3) اور دوسرے شخص جو حضرت عائشہ ؓ کے بھائی ہیں، ان کے متعلق محدث داودی کا خیال ہے کہ وہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ ہیں جبکہ بعض نے کہا ہے کہ وہ طفیل بن عبد اللہ ؓ ہیں جو حضرت عائشہ ؓ کے مادری بھائی ہیں، لیکن یہ اس لیے صحیح نہیں کہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ وہ حضرت عائشہ ؓ کا رضاعی بھائی تھا۔ امام نووی ؒ نے کہا ہے کہ وہ عبداللہ بن یزید ہے، جیسا کہ مسلم کی روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2198 (947)) ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہویا کوئی دوسرا ہو۔ (فتح الباري:474/1) واللہ أعلم۔ 2۔ اس حدیث سے عملی تعلیم کی قدرو قیمت کا پتہ چلتا ہے۔ کیونکہ عملی تعلیم جس قدر اطمینان بخش ہوتی ہے، قول اس درجے میں نہیں ہوتا۔ اسلاف میں تعلیم کا یہی طريقہ رائج تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بھی یہ بات موجود تھی کہ جب کوئی شخص ان سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کرتا تو زبانی بتانے کے بجائے وہ وضو کر کے دکھا دیتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے غسل کے طریقے اور مقدار ماء کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے عملاً کر کے دکھا دیا۔ (فتح الباري:474/1) 3۔ اس حدیث کی آڑ میں منکرین حدیث اور رافضی بہت اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں عریانیت ہے، کیونکہ لوگوں کے سامنے غسل کرنے کا بیان ہے، لہٰذا احادیث کی صداقت مجروح ہے، حالانکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ہمارے اور عائشہ کے درمیان حجاب تھا، یعنی یہ غسل پس پردہ کیا گیا تھا۔ پھر سوال کرنے والے بھی محرم تھے۔ ایک آپ کا رضاعی بھانجا اور دوسرا رضاعی بھائی تھا چونکہ غسل کر کے دکھانا تھا، اس لیے سر کا حصہ پردے سے باہر تھا اور یہ دونوں محرم دیکھ رہتے تھے کہ غسل کی ابتدا کہاں سے ہوئی، لیکن جسم کے دیگر اعضاء جن کا چھپانا محرم سے بھی ضروری ہے وہ پردے میں تھے۔ (فتح الباري:474/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد نے، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، انھوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن حفص نے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے یہ حدیث سنی کہ میں (ابوسلمہ) اور حضرت عائشہ ؓ کے بھائی حضرت عائشہ کی خدمت میں گئے۔ ان کے بھائی نے نبی کریم ﷺ کے غسل کے بارے میں سوال کیا۔ تو آپ نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اپنے اوپر پانی بہایا۔ اس وقت ہمارے درمیان اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔ امام ابوعبداللہ (بخاری) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز اور جدی نے شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ روایت کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ ابوسلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور آپ کے محرم تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے پردہ سے خود غسل فرماکر ان کو طریقہ غسل کی تعلیم فرمائی۔ مسنون غسل یہی ہے کہ ایک صاع پانی استعمال کیا جائے۔ صاع حجازی کچھ کم پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل کچھ پہلے گزر چکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salama (RA): 'Aisha's brother and I went to 'Aisha (RA) and he asked her about the bath of the Prophet (ﷺ). She brought a pot containing about a Sa' of water and took a bath and poured it over her head and at what time there was a screen between her and us.