Sahi-Bukhari:
Mortgaging
(Chapter: Mortgaging things to Jews and others)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2513.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھ دی۔
تشریح:
(1) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ غیر مسلم حضرات سے مالی معاملات کرنے جائز ہیں بشرطیکہ وہ حربی نہ ہوں، اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭ ان سے صلح کا معاہدہ ہو اور تجارتی لین دین کے لیے عام ہو۔ ٭ وہ غیر مسلم کسی مسلمان حکومت کے ماتحت ہوں اور ان کی حیثیت ذمی کی ہو۔ جن غیر مسلم حکومتوں سے صلح نہیں یا جو غیر مسلم کسی مسلمان حکومت کے ماتحت نہیں ہیں ان سے مالی معاملات کرنے درست نہیں۔ (2) مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی متواضع تھے۔ آپ نے قرض لینے کا معاملہ کسی صحابی سے نہیں کیا کہ شاید وہ آپ سے غلے کی قیمت نہ لے یا اس وقت ان کے پاس زائد غلہ نہ ہو گا، اس لیے آپ نے ایک یہودی سے اناج قرض لیا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھ دی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2426
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2513
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2513
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2513
تمہید کتاب
لغوی طور پر رہن مصدر ہے، جس کے معنی گروی رکھنے، گروی ثابت ہونے، ہمیشہ رہنے، روکنے اور لازم ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا گروی کہلاتا ہے۔ ارتہان گروی لینے، استرہان گروی طلب کرنے، راہن گروی رکھنے والے مقروض، مرتہن گروی لینے والے حق دار اور مرہون یا رہن گروی رکھی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے۔رہن ایک طرح کا معاہدہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ راہن اور مرتہن دونوں راضی خوشی یہ معاملہ کریں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ راہن نے جو چیز مرتہن کو بطور رہن دی ہے اس پر قبضہ بھی دے، مثلاً: اگر اس نے کوئی کھیتی رہن میں رکھی ہے مگر اس پر کسی دوسرے کا قبضہ ہے تو اس صورت میں رہن کا معاملہ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ مرہون اس قابل ہو کہ اسے فروخت کر کے قیمت وصول کی جا سکتی ہو، یعنی شریعت اسے قابلِ استعمال مال تسلیم کرتی ہو، چنانچہ اگر کسی نے تالاب کی مچھلی یا اُڑتا ہوا پرندہ یا پھل آنے سے پہلے باغ کا پھل گروی رکھا تو ایسی چیزوں سے گروی رکھنے کا معاملہ صحیح نہیں ہو گا۔دراصل اعتماد کی فضا سازگار رہنے یا رکھنے کے لیے کسی چیز کو گروی رکھا جاتا ہے، مثلاً: ایک آدمی سفر میں ہے اور اسے رقم کی ضرورت ہے یا اپنے وطن میں ہے لیکن اسے کوئی جانتا نہیں یا اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے اسے کوئی قرض نہیں دیتا تو شریعت نے قرض لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز کسی کے پاس گروی رکھ کر اس سے قرض لے لے۔ اس طرح قرض دینے والے کو بھی اطمینان ہو جائے گا کہ اس کی رقم ماری نہیں جائے گی اور قرض لینے والے کی بھی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ کسی شخص کو گروی کے ذریعے سے قرض دینے پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا، البتہ شریعت نے ہر خوش حال سے یہ امید رکھی ہے کہ وہ ایسے موقع پر اپنے ضرورت مند بھائی کی مدد کرے۔ اگر ضمانت کے بغیر مدد نہیں کرتا تو آسان صورت یہ ہے کہ ضرورت مند کی کوئی چیز گروی رکھ لے اور اس کی مدد کرے۔زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب راہن مقررہ مدت تک قرض کی ادائیگی نہ کرتا تو مرتہن مرہونہ چیز کا مالک بن جاتا لیکن شریعت نے اسے باطل قرار دیا ہے بلکہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانے کی بھی محدود پیمانے پر اجازت دی ہے۔ اگر گروی شدہ چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں تو راہن کی اجازت کے بغیر اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ مرہونہ چیز راہن کی ملکیت ہے اور اس کا منافع بھی اسی کا ہو گا اِلا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ اور اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج ہے، مثلاً: کوئی جانور ہے تو خرچ کے مطابق مرتہن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شریعت نے فائدہ اٹھانے کو خرچے کے ساتھ معلق کیا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔ واضح رہے کہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس امانت ہوتی ہے، اگر وہ اس کی زیادتی، کوتاہی یا خیانت کے بغیر ضائع ہو جائے تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا، بصورت دیگر وہ ضامن قرار پائے گا۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھ دی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ غیر مسلم حضرات سے مالی معاملات کرنے جائز ہیں بشرطیکہ وہ حربی نہ ہوں، اس کی دو صورتیں ممکن ہیں: ٭ ان سے صلح کا معاہدہ ہو اور تجارتی لین دین کے لیے عام ہو۔ ٭ وہ غیر مسلم کسی مسلمان حکومت کے ماتحت ہوں اور ان کی حیثیت ذمی کی ہو۔ جن غیر مسلم حکومتوں سے صلح نہیں یا جو غیر مسلم کسی مسلمان حکومت کے ماتحت نہیں ہیں ان سے مالی معاملات کرنے درست نہیں۔ (2) مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی متواضع تھے۔ آپ نے قرض لینے کا معاملہ کسی صحابی سے نہیں کیا کہ شاید وہ آپ سے غلے کی قیمت نہ لے یا اس وقت ان کے پاس زائد غلہ نہ ہو گا، اس لیے آپ نے ایک یہودی سے اناج قرض لیا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھ دی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کچھ مدت ٹھہرا کر ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔
حدیث حاشیہ:
یہودی کا نام ابوالشحم تھا۔ آپ ﷺ نے اس یہودی سے جو کے تیس صاع قرض لیے تھے اور جو زرہ گروی تھی اس کا نام ذات الفضول تھا۔ بعضوں نے کہا کہ آپ نے وفات سے پہلے یہ زرہ چھڑا لی تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کی وفات تک وہ گروی رہی۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) bought some foodstuff from a Jew and mortgaged his armor to him.