باب : راہن اورمرتہن میں اگر کسی بات میں اختلاف ہو جائے یا ان کی طرح دوسرے لوگوں میں تو گواہی پیش کرنا مدعی کے ذمہ ہے، ورنہ ( منکر ) مدعیٰ عل یہ سے قسم لی جائے گی
)
Sahi-Bukhari:
Mortgaging
(Chapter: Dispute between the mortgagor and mortgagee)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2515.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جس نے کوئی ایسی قسم اٹھائی جس کے ذ ریعے سے وہ کسی مال کا مستحق ٹھہرا، حالانکہ وہ اس میں جھوٹا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق نازل فرمائی ہے، پھر انھوں نے درج ذیل آیت تلاوت کی: ’’یقیناً جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے عوض بیچ ڈالیں۔۔۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ (راوی حدیث ابو وائل کہتے ہیں کہ) اسکے بعد اشعث بن قیس ؓ ہمارے پاس آئے اور انھوں نے پوچھاکہ ابوعبدالرحمان ؓ تم سے کیا حدیث بیان کررہے تھے؟ہم نے ان سے بیان کیا تو انھوں نے فرمایا: ٹھیک بات ہے، البتہ یہ آیت میرے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ میرے اور ایک شخص کے درمیان کنویں کے متعلق جھگڑا تھا تو ہم نے اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم گواہ پیش کرو یا وہ قسم اٹھالے۔‘‘ میں نے عرض کیا: وہ تو بے پرواقسم کا انسان ہے، اس بات پر قسم اٹھالے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی کسی کا مال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائے گا تووہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق نازل فرمائی۔ بعدازاں انھوں نے یہ آیت پڑھی: ’’جو لوگ اللہ کی عہد اور ا پنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں۔۔۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کی تشریح گزر چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی جھوٹی قسم اٹھا کر کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنا چاہے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہی ہو گی۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں ہے۔ یہ آیت تمام جھوٹے معاملات پر فٹ ہوتی ہے۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہ مقصد ہے کہ راہن اور مرتہن میں جو مدعی ہو گا وہ ثبوت پیش کرے گا اور انکار کی صورت میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔ مدعی کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے قسم اٹھائے بلکہ اس کے ذمے ثبوت فراہم کرنا ہے۔ اگر مدعا علیہ کے پاس اس کے دعوے کو جھوٹا کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے تو وہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ (2) گروی شدہ زمین میں اختلاف کی صورت یوں ہو گی کہ گروی رکھنے والا کہے: میں نے صرف زمین گروی رکھی ہے جبکہ گروی قبول کرنے والا دعویدار ہو کہ درخت بھی اس میں شامل ہیں۔ اب دعویدار کو اپنے دعوے کے لیے ثبوت دینا ہو گا یا گواہ پیش کرنے ہوں گے، بصورت دیگر گروی رکھنے والے کی بات قسم لے کر تسلیم کر لی جائے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2428
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2515
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2515
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2515
تمہید کتاب
لغوی طور پر رہن مصدر ہے، جس کے معنی گروی رکھنے، گروی ثابت ہونے، ہمیشہ رہنے، روکنے اور لازم ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا گروی کہلاتا ہے۔ ارتہان گروی لینے، استرہان گروی طلب کرنے، راہن گروی رکھنے والے مقروض، مرتہن گروی لینے والے حق دار اور مرہون یا رہن گروی رکھی ہوئی چیز کو کہا جاتا ہے۔رہن ایک طرح کا معاہدہ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ راہن اور مرتہن دونوں راضی خوشی یہ معاملہ کریں، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ راہن نے جو چیز مرتہن کو بطور رہن دی ہے اس پر قبضہ بھی دے، مثلاً: اگر اس نے کوئی کھیتی رہن میں رکھی ہے مگر اس پر کسی دوسرے کا قبضہ ہے تو اس صورت میں رہن کا معاملہ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ مرہون اس قابل ہو کہ اسے فروخت کر کے قیمت وصول کی جا سکتی ہو، یعنی شریعت اسے قابلِ استعمال مال تسلیم کرتی ہو، چنانچہ اگر کسی نے تالاب کی مچھلی یا اُڑتا ہوا پرندہ یا پھل آنے سے پہلے باغ کا پھل گروی رکھا تو ایسی چیزوں سے گروی رکھنے کا معاملہ صحیح نہیں ہو گا۔دراصل اعتماد کی فضا سازگار رہنے یا رکھنے کے لیے کسی چیز کو گروی رکھا جاتا ہے، مثلاً: ایک آدمی سفر میں ہے اور اسے رقم کی ضرورت ہے یا اپنے وطن میں ہے لیکن اسے کوئی جانتا نہیں یا اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے اسے کوئی قرض نہیں دیتا تو شریعت نے قرض لینے کی یہ صورت نکالی ہے کہ وہ اپنی کوئی چیز کسی کے پاس گروی رکھ کر اس سے قرض لے لے۔ اس طرح قرض دینے والے کو بھی اطمینان ہو جائے گا کہ اس کی رقم ماری نہیں جائے گی اور قرض لینے والے کی بھی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ کسی شخص کو گروی کے ذریعے سے قرض دینے پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا، البتہ شریعت نے ہر خوش حال سے یہ امید رکھی ہے کہ وہ ایسے موقع پر اپنے ضرورت مند بھائی کی مدد کرے۔ اگر ضمانت کے بغیر مدد نہیں کرتا تو آسان صورت یہ ہے کہ ضرورت مند کی کوئی چیز گروی رکھ لے اور اس کی مدد کرے۔زمانۂ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جب راہن مقررہ مدت تک قرض کی ادائیگی نہ کرتا تو مرتہن مرہونہ چیز کا مالک بن جاتا لیکن شریعت نے اسے باطل قرار دیا ہے بلکہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانے کی بھی محدود پیمانے پر اجازت دی ہے۔ اگر گروی شدہ چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں تو راہن کی اجازت کے بغیر اس سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ مرہونہ چیز راہن کی ملکیت ہے اور اس کا منافع بھی اسی کا ہو گا اِلا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ اور اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج ہے، مثلاً: کوئی جانور ہے تو خرچ کے مطابق مرتہن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ شریعت نے فائدہ اٹھانے کو خرچے کے ساتھ معلق کیا ہے جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہو گی۔ واضح رہے کہ مرہونہ چیز مرتہن کے پاس امانت ہوتی ہے، اگر وہ اس کی زیادتی، کوتاہی یا خیانت کے بغیر ضائع ہو جائے تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہو گا، بصورت دیگر وہ ضامن قرار پائے گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ جس نے کوئی ایسی قسم اٹھائی جس کے ذ ریعے سے وہ کسی مال کا مستحق ٹھہرا، حالانکہ وہ اس میں جھوٹا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تصدیق نازل فرمائی ہے، پھر انھوں نے درج ذیل آیت تلاوت کی: ’’یقیناً جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے عوض بیچ ڈالیں۔۔۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘ (راوی حدیث ابو وائل کہتے ہیں کہ) اسکے بعد اشعث بن قیس ؓ ہمارے پاس آئے اور انھوں نے پوچھاکہ ابوعبدالرحمان ؓ تم سے کیا حدیث بیان کررہے تھے؟ہم نے ان سے بیان کیا تو انھوں نے فرمایا: ٹھیک بات ہے، البتہ یہ آیت میرے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔ میرے اور ایک شخص کے درمیان کنویں کے متعلق جھگڑا تھا تو ہم نے اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم گواہ پیش کرو یا وہ قسم اٹھالے۔‘‘ میں نے عرض کیا: وہ تو بے پرواقسم کا انسان ہے، اس بات پر قسم اٹھالے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی کسی کا مال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائے گا تووہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق نازل فرمائی۔ بعدازاں انھوں نے یہ آیت پڑھی: ’’جو لوگ اللہ کی عہد اور ا پنی جھوٹی قسموں کے عوض تھوڑی قیمت لیتے ہیں۔۔۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی تشریح گزر چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی جھوٹی قسم اٹھا کر کسی دوسرے کا مال ہڑپ کرنا چاہے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہی ہو گی۔ اس سے بڑھ کر اور کوئی عذاب نہیں ہے۔ یہ آیت تمام جھوٹے معاملات پر فٹ ہوتی ہے۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہ مقصد ہے کہ راہن اور مرتہن میں جو مدعی ہو گا وہ ثبوت پیش کرے گا اور انکار کی صورت میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔ مدعی کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے قسم اٹھائے بلکہ اس کے ذمے ثبوت فراہم کرنا ہے۔ اگر مدعا علیہ کے پاس اس کے دعوے کو جھوٹا کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ہے تو وہ قسم اٹھائے گا کہ مجھ پر جھوٹا دعویٰ کیا گیا ہے۔ (2) گروی شدہ زمین میں اختلاف کی صورت یوں ہو گی کہ گروی رکھنے والا کہے: میں نے صرف زمین گروی رکھی ہے جبکہ گروی قبول کرنے والا دعویدار ہو کہ درخت بھی اس میں شامل ہیں۔ اب دعویدار کو اپنے دعوے کے لیے ثبوت دینا ہو گا یا گواہ پیش کرنے ہوں گے، بصورت دیگر گروی رکھنے والے کی بات قسم لے کر تسلیم کر لی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابو وائل نے کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ جو شخص جان بوجھ کر اس نیت سے جھوٹی قسم کھائے کہ اس طرح دوسرے کے مال پر اپنی ملکیت جمائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔ اس ارشاد کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ آل عمران میں) یہ آیت نازل فرمائی ”وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی پونجی خریدتی ہیں۔“ آخر آیت تک انہوں نے تلاوت کی۔ ابووائل نے کہا اس کے بعد اشعث بن قیس ؓ ہمارے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ ابوعبدالرحمن (ابومسعود ؓ) نے تم سے کون سی حدیث بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے حدیث بالا ان کے سامنے پیش کردی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ بیان کیا ہے۔ میرا ایک ( یہ ودی ) شخص سے کنویں کے معاملے میں جھگڑا ہوا تھا۔ ہم اپناجھگڑا لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاو ورنہ دوسرے فریق سے قسم لی جائے گی۔ میں نے عرض کیا پھر یہ تو قسم کھالے گا اور (جھوٹ بولنے پر) اسے کچھ پرواہ نہ ہوگی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر نہایت غضبناک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی۔ اس کے بعد انہوں نے وہی آیت پڑھی ”جو لوگ اللہ کے عہد اوراپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی پونجی خریدتے ہیں“۔ آیت ﴿وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ تک۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ مدعیٰ علیہ اگر جھوٹی قسم کھاکر کسی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ عنداللہ بہت ہی بڑا مجرم گنہگار ملعون قرار پائے گا اگرچہ قانوناً وہ عدالت سے جھوٹی قسم کھاکر ڈگری حاصل کرچکا ہے مگر اللہ کے نزدیک وہ آگ کے انگارے اپنے پیٹ میں داخل کررہا ہے۔ پس مدعیٰ علیہ کا فرض ہے کہ وہ بہت ہی سوچ سمجھ کر قسم کھائے اوردنیاوی عدالت کے فیصلے کو آخری فیصلہ نہ سمجھے کہ اللہ کی عدالت عالیہ کا معاملہ بہت سخت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Wail (RA): Abdullah (bin Mas'ud) said, "Whoever took a false oath in order to grab somebody's property will meet Allah while Allah will be angry with him." Allah revealed the following verse to confirm that:--"Verily! Those who purchase a small gain at the cost of Allah's covenant And their oaths...a painful torment." (3.77) Al-Ash'ath bin Qais came to us and asked as to what Abu Abdur-Rehman (i.e. Ibn Mas'ud (RA)) was telling you." We related the story to him. On that he said, "He has told the truth. This verse was revealed about me. I had some dispute with another man regarding a well and we took the case before Allah's Apostle. Allah's Apostle (ﷺ) said (to me), "Produce two witnesses (to support your claim); otherwise the defendant has the right to take an oath (to refute your claim).' I said, 'The defendant would not mind to take a false oath." Allah's Apostle (ﷺ) then said, 'Whoever took a false oath in order to grab someone else's property will meet Allah, Allah will be angry with him.' Allah then revealed what Confirmed it." Al-Ash'ath then recited the following Verse:--"Verily! Those who purchase a small gain at the cost of Allah's covenant, And their oaths . . . (to) . . . they shall have a painful torment!' (3.77) (See Hadith No. 546)