باب: اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Taking a bath with a Sa' of water or so (One Sa' = 3 kilograms approx.))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
252.
حضرت ابوجعفر ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور ان کے والد گرامی، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس تھے جبکہ ان کے ہاں اور لوگ بھی تھے۔ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ تجھے ایک صاع کافی ہے۔ اس پر انہی لوگوں میں سے کسی نے کہا: مجھے تو کافی نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: اتنا پانی تو اس ذات گرامی کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال بھی تجھ سے زیادہ تھے اور وہ خود بھی تجھ سے بہتر تھے۔ پھر حضرت جابر ؓ نے ایک کپڑے میں ہماری امامت کرائی۔
تشریح:
1۔ روایت میں ابو جعفر سے مراد حضرت باقر ہیں جن کا نام محمد بن حسین بن علی بن ابی طالبؒ ہے۔ ان کے والد حضرت زین العابدین علی بن حسین ہیں دراصل ان حضرات میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کے بارے میں کچھ اختلاف ہوا تو انھوں نے حضرت جابر ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تحقیق کرنی چاہی سوال کرنے والے صرف حضرت باقر ہیں چونکہ تحقیق کی طلب سب حضرات کو تھی اس لیے سوال کی نسبت سب کی طرف کردی گئی ہے۔ جب حضرت جابر ؓ نے بتایا کہ غسل کے لیے ایک صاع کافی ہے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا کہ اتنی سی مقدار غسل کے لیے ناکافی ہے۔ یہ بات کہنے والے حضرت محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے حضرت حسن ہیں، چونکہ ان کا انداز مناسب نہیں تھا، اس لیے حضرت جابر ؓ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ تمھیں یہ مقدار کافی نہ ہوگی، شاید تمھارے سر میں بال زیادہ ہیں یا تم زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہو۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے لیے تو یہ مقدار کافی تھی، حالانکہ آپ کے سر مبارک پر بال بھی تم سے زیادہ تھے۔ پھر آپ ہر معاملے میں محتاط بھی بہت تھے، اس لیے کافی نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ تم پانی کے استعمال میں اسراف سے کام لیتے ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف جھگڑنے والے کو سختی سے سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:475/1) 2۔ اس روایت کے مطابق حضرت ابو جعفر باقر نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے لیے پانی کی مقدار کے متعلق سوال کیا جس کا حضرت جابر ؓ نے جواب دے دیا کہ ایک صاع کافی ہے۔ حسن بن محمد بن حنفیہ نے کہا کہ مجھے کافی نہ ہو گا تو اس کا بھی جواب دیا۔ آگے حسن بن محمد بن حنفیہ کا غسل کی کیفیت کے بارے میں سوال آرہا ہے کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ تین چلو پانی لیتے اور انھیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے اس پر حسن بن محمد نے کہا میں تو بہت بالوں والا ہوں۔ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث:256)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
254
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
252
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
252
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
252
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
تمہید باب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان عنوان کو ایک خاص اہمیت کے پیش نظر قائم کیا ہے کہ جو معاملات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعامل سے ثابت ہیں انھیں نمایاں کیا جائے اس سے مراد تحدید نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے صاع کے ساتھ نحوہ کا اضافہ کیا ہے۔ دراصل مسئلہ بالا تفاق یہی ہے کہ اسراف کے بغیر جتنے پانی کی بھی ضرورت ہو غسل میں صرف کیا جائے حصول طہارت میں کمی نہیں ہونی چاہیے مقدار ماء کی عدم تحدید پر تمام علماء اتفاق ہے۔
حضرت ابوجعفر ؓ سے روایت ہے کہ وہ اور ان کے والد گرامی، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے پاس تھے جبکہ ان کے ہاں اور لوگ بھی تھے۔ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا۔ تجھے ایک صاع کافی ہے۔ اس پر انہی لوگوں میں سے کسی نے کہا: مجھے تو کافی نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا: اتنا پانی تو اس ذات گرامی کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال بھی تجھ سے زیادہ تھے اور وہ خود بھی تجھ سے بہتر تھے۔ پھر حضرت جابر ؓ نے ایک کپڑے میں ہماری امامت کرائی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ روایت میں ابو جعفر سے مراد حضرت باقر ہیں جن کا نام محمد بن حسین بن علی بن ابی طالبؒ ہے۔ ان کے والد حضرت زین العابدین علی بن حسین ہیں دراصل ان حضرات میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کے بارے میں کچھ اختلاف ہوا تو انھوں نے حضرت جابر ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کی تحقیق کرنی چاہی سوال کرنے والے صرف حضرت باقر ہیں چونکہ تحقیق کی طلب سب حضرات کو تھی اس لیے سوال کی نسبت سب کی طرف کردی گئی ہے۔ جب حضرت جابر ؓ نے بتایا کہ غسل کے لیے ایک صاع کافی ہے تو مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا کہ اتنی سی مقدار غسل کے لیے ناکافی ہے۔ یہ بات کہنے والے حضرت محمد بن حنفیہ کے صاحبزادے حضرت حسن ہیں، چونکہ ان کا انداز مناسب نہیں تھا، اس لیے حضرت جابر ؓ نے تنبیہ کے انداز میں فرمایا کہ تمھیں یہ مقدار کافی نہ ہوگی، شاید تمھارے سر میں بال زیادہ ہیں یا تم زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہو۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کے لیے تو یہ مقدار کافی تھی، حالانکہ آپ کے سر مبارک پر بال بھی تم سے زیادہ تھے۔ پھر آپ ہر معاملے میں محتاط بھی بہت تھے، اس لیے کافی نہ ہونے کی وجہ صرف یہ ہو سکتی ہے کہ تم پانی کے استعمال میں اسراف سے کام لیتے ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف جھگڑنے والے کو سختی سے سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:475/1) 2۔ اس روایت کے مطابق حضرت ابو جعفر باقر نے حضرت جابر ؓ سے غسل کے لیے پانی کی مقدار کے متعلق سوال کیا جس کا حضرت جابر ؓ نے جواب دے دیا کہ ایک صاع کافی ہے۔ حسن بن محمد بن حنفیہ نے کہا کہ مجھے کافی نہ ہو گا تو اس کا بھی جواب دیا۔ آگے حسن بن محمد بن حنفیہ کا غسل کی کیفیت کے بارے میں سوال آرہا ہے کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ رسول اللہ ﷺ تین چلو پانی لیتے اور انھیں اپنے سر پر بہاتے تھے، پھر اپنے تمام بدن پر پانی ڈالتے اس پر حسن بن محمد نے کہا میں تو بہت بالوں والا ہوں۔ حضرت جابر ؓ نے جواب دیا کہ نبی ﷺ کے بال تم سے زیادہ تھے۔ (صحیح البخاری، الغسل، حدیث:256)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا ہم سے زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے، انھوں نے کہا ہم سے ابوجعفر (محمد باقر) نے بیان کیا کہ وہ اور ان کے والد (جناب زین العابدین) جابر بن عبداللہ کے پاس تھے اور کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے آپ سے غسل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ایک صاع کافی ہے۔ اس پر ایک شخص بولا یہ مجھے تو کافی نہ ہو گا۔ حضرت جابر ؓ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال تم سے زیادہ تھے اور جو تم سے بہتر تھے (یعنی رسول اللہ ﷺ) پھر حضرت جابر ؓ نے صرف ایک کپڑا پہن کر ہمیں نماز پڑھائی۔
حدیث حاشیہ:
وہ بولنے والے شخص حسن بن محمد بن حنفیہ تھے۔ حضرت جابرؓ نے ان کوسختی سے سمجھایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف فضول اعتراض کرنے والوں کو سختی سے سمجھانا چاہیے اور حدیث کے مقابلہ پر رائے قیاس تاویل سے کام لینا کسی طرح بھی جائز نہیں: وَالْحَنَفِيَّةُ كَانَتْ زَوْجَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ تَزَوَّجَهَا بَعْدَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَوَلَدَتْ لَهُ مُحَمَّدًا فَاشْتُهِرَ بِالنِّسْبَةِ ۔(فتح الباري:368/1 )یعنی حنفیہ نامی عورت حضرت علی ؓ کی بیوی ہیں جو حضرت فاطمہ ؓ کے انتقال کے بعد آپ کے نکاح میں آئیں جن کے بطن سے محمد نامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماںہی کے نام سے زیادہ مشہورہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Ja'far (RA): While I and my father were with Jabir bin 'Abdullah, some People asked him about taking a bath He replied, "A Sa' of water is sufficient for you." A man said, "A Sa' is not sufficient for me." Jabir said, "A Sa was sufficient for one who had more hair than you and was better than you (meaning the Prophet)." And then Jabir (put on) his garment and led the prayer.