باب : غلام پر دست درازی کرنا اور یوں کہنا کہ یہ میرا غلام ہے یا لونڈی مکروہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
Manumission of Slaves
(Chapter: It is dislike to look down upon a slave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حافظ نے کہا کہ کراہیت تنزیہی مراد ہے۔ کیوں کہ غلام سے اپنے کو اعلیٰ سمجھنا ایک طرح کا تکبر ہے۔ غلام بھی ہماری طرح خدا کا بندہ ہے۔ آدمی اپنے تئیں جانور سے بھی بدتر سمجھے غلام تو آدمی ہے اور ہماری طرح آدم کی اولاد ہے اور غلام لونڈی اس وجہ سے کہنا مکروہ ہے کہ کوئی اس سے حقیقی معنی نہ سمجھے۔ کیوں کہ حقیقی بندگی تو سوائے خدا کے اور کسی کے لیے نہیں ہوسکتی ( وحیدی ) آگے مجتہد مطلق حضرت امام بخارینے آیات قرآنی نقل کی ہیں جن سے لفظ غلام، لونڈی اور سید کے الفاظ استعمال کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ یہ سب مجازی معانی میں ہیں۔ لفظ عبد، مملوک اور سید آیات قرآنی و احادیث نبوی میں ملتے ہیں جیسا کہ یہاں منقول ہیں۔ ان سے ان الفاظ کا مجازی معانی میں استعمال ثابت ہوا۔ قال ابن بطال جاز ان یقول الرجل عبدی او امتی بقولہ تعالی و الصالحین من عبادکم و امتکم انما نہی عنہ علی سبیل الغلظۃ لاعلی سبیل التحریم و کرہ ذلک لاشتراک اللفظ اذ یقال عبداللہ وامۃ اللہ فعلی ہذا لا ینبغی التسمیۃ بنحو عبدالرسول و عبدالنبی و نحو ذلک مما یضاف العبد فیہ الی غیراللہ تعالی ( حاشیہ بخاری شریف ) اور سورہ نور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ” اور تمہارے غلاموں اور تمہاری باندیوں میں جو نیک بخت ہیں “ اور ( سورۃ نحل میں فرمایا ) ” مملوک غلام “ نیز ( سورہ یوسف میں فرمایا ) اور دونوں ( حضرت یوسف اور زلیخا ) نے اپنے آقا ( عزیز مصر ) کو دروازے پر پایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے سوہ نساءمیں ) فرمایا ” تمہاری مسلمان باندیوں میں سے “ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اپنے سردار کے لینے کے لیے اٹھو ( سعد بن معاذ ؓ کے لیے ) اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا ( یوسف نے اپنے جیل خانہ کے ساتھی سے کہا تھا کہ ) اپنے سردار ( حاکم ) کے یہاں میرا ذکر کردینا “۔ اور نبی کریم ﷺ نے ( بنو سلمہ سے دریافت فرمایا تھا کہ ) تمہارا سردار کون ہے؟
2553.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو کہ کسی عادل کی قیمت لگانے کے مطابق اس کی قیمت اداکی جاسکے تو اس کے مال سے پورا غلام آزاد کیاجائے، بصورت دیگر جتنا اس نے آزاد کیا اتنا ہی آزاد ہوگا۔‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2465
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2553
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2553
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2553
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ عتق مصدر ہے جس کے معنی آزاد ہونے اور قوت حاصل کرنے کے ہیں۔ غلام کو آزادی کے بعد شرعی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کی ماتحتی اور زیردستی ختم کر دینے کی باعث ہے۔ عتق کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی آدمی سے غلامی کو ختم کر دینا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کو غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔" (صحیح البخاری،کفارات الایمان،حدیث:6715،وصحیح مسلم،العتق،حدیث:3797(1509)) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63)، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ (67)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ستر (70)، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوران محاصرہ میں بیس (20)، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے سو (100)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000)، ذو کلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے ایک دن میں آٹھ ہزار (8000) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار (30000) غلام آزاد کیے۔ (سبل السلام)حضرت سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے آزاد کرتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ (مسند احمد:5/221)اس قدر فضیلت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اب غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ علمی اعتبار سے یہ امانت اسلاف نے ہمارے حوالے کی ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے اس امانت کو آگے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ غلام، اسیران جنگ کی ایک شاخ ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق کفار سے جنگ کے دوران میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے متعلق حکم ہے کہ ان پر احسان کرو یا ان سے فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ٭ دوران قید میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ ان پر ٹیکس لگا کر انہیں ذمی بنا لیا جائے۔ ٭ انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ اسی طرح فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کی قید میں ہوں تبادلہ کر لیا جائے۔جنگی قیدیوں پر احسان کی دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ "روشن خیال" لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور آئے دن اس شبہ کی آڑ میں اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے ازالے کے لیے مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ کو مستعار لیتے ہوئے چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:(1) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں۔ حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کر لے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اسی عورت سے تمتع کرنے (فائدہ اٹھانے) کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔(2) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔(3) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔(4) جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔(5) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔(6) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں بلکہ در حقیقت معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔(7) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔(8) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا کہ نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔(9) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔(10) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھا لینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (تفہیم القرآن،سورہ نساء،حاشیہ نمبر:44)اگرچہ دور حاضر میں غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، تاہم آج بھی اگر کسی مقروض کا قرض ادا کر دیا جائے یا کسی ناحق مقدمے میں پھنسے ہوئے انسان کو رہائی دلائی جائے تو ایسا کرنا بھی غلام کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مرفوع احادیث پر تقریباً بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں غلاموں کے حقوق و آداب بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ میں قارئین کرام کو بے شمار احکام و مسائل سے آگاہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حدیث میں ہے کہ انسان کو اپنے غلام یا لونڈی کے لیے یوں نہیں کہنا چاہیے: يا عبدي اور يا أمتي یہ ممانعت مشترک لفظ کی وجہ سے ہے کیونکہ عبداللہ اور امۃ اللہ کہا جاتا ہے اور اگر اپنے غلام لونڈی کو عبدي اور أمتي کہا جائے تو اشتراک کا وہم کرتا ہے۔ چونکہ قرآن میں یہ لفظ اس معنی میں بندوں کے لیے استعمال ہوا ہے، اس لیے مکروہ تنزیہی ہے۔ قرآن کریم میں استعمال کا امام بخاری رحمہ اللہ نے حوالہ دیا ہے۔ قرآن و حدیث کے مذکورہ استعمالات سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے اطلاقات جائز ہیں، مکروہ تحریمی نہیں ہیں مگر ایک مسلمان کو ان سے بچنا چاہیے کیونکہ جہاں شرک کا وہم ہو اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے۔ خاص طور پر لفظ عبد ایسا ہے کہ اس کی اضافت اسماء الحسنیٰ کی طرف ہی مناسب ہے۔ توحید و سنت کے پیروکاروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی عبدیت غیراللہ کی طرف منسوب نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے سلف نے عبدالنبی یا عبدالحسین جیسے نام رکھنا مکروہ خیال کیا ہے کیونکہ ایسے ناموں میں شرک کا شائبہ یا ابہام ہے۔ اگر حقیقی معنی مراد ہوں تو شرک ہے اور اگر مجازی معنی لیے جائیں تو شرک تو نہیں، تاہم کراہت سے خالی نہیں۔ ترجمۃ الباب میں وارد پہلی حدیث: (قوموا إلي سيدكم) کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے موصولاً ذکر کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الجھادوالسیر،حدیث:3043) اور دوسری روایت (من سيدكم) کو امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے۔ (مسند احمد:3/432واسنادہ ضعیف)
حافظ نے کہا کہ کراہیت تنزیہی مراد ہے۔ کیوں کہ غلام سے اپنے کو اعلیٰ سمجھنا ایک طرح کا تکبر ہے۔ غلام بھی ہماری طرح خدا کا بندہ ہے۔ آدمی اپنے تئیں جانور سے بھی بدتر سمجھے غلام تو آدمی ہے اور ہماری طرح آدم کی اولاد ہے اور غلام لونڈی اس وجہ سے کہنا مکروہ ہے کہ کوئی اس سے حقیقی معنی نہ سمجھے۔ کیوں کہ حقیقی بندگی تو سوائے خدا کے اور کسی کے لیے نہیں ہوسکتی ( وحیدی ) آگے مجتہد مطلق حضرت امام بخارینے آیات قرآنی نقل کی ہیں جن سے لفظ غلام، لونڈی اور سید کے الفاظ استعمال کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔ یہ سب مجازی معانی میں ہیں۔ لفظ عبد، مملوک اور سید آیات قرآنی و احادیث نبوی میں ملتے ہیں جیسا کہ یہاں منقول ہیں۔ ان سے ان الفاظ کا مجازی معانی میں استعمال ثابت ہوا۔ قال ابن بطال جاز ان یقول الرجل عبدی او امتی بقولہ تعالی و الصالحین من عبادکم و امتکم انما نہی عنہ علی سبیل الغلظۃ لاعلی سبیل التحریم و کرہ ذلک لاشتراک اللفظ اذ یقال عبداللہ وامۃ اللہ فعلی ہذا لا ینبغی التسمیۃ بنحو عبدالرسول و عبدالنبی و نحو ذلک مما یضاف العبد فیہ الی غیراللہ تعالی ( حاشیہ بخاری شریف ) اور سورہ نور میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ ” اور تمہارے غلاموں اور تمہاری باندیوں میں جو نیک بخت ہیں “ اور ( سورۃ نحل میں فرمایا ) ” مملوک غلام “ نیز ( سورہ یوسف میں فرمایا ) اور دونوں ( حضرت یوسف اور زلیخا ) نے اپنے آقا ( عزیز مصر ) کو دروازے پر پایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے سوہ نساءمیں ) فرمایا ” تمہاری مسلمان باندیوں میں سے “ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ اپنے سردار کے لینے کے لیے اٹھو ( سعد بن معاذ ؓ کے لیے ) اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ یوسف میں فرمایا ( یوسف نے اپنے جیل خانہ کے ساتھی سے کہا تھا کہ ) اپنے سردار ( حاکم ) کے یہاں میرا ذکر کردینا “۔ اور نبی کریم ﷺ نے ( بنو سلمہ سے دریافت فرمایا تھا کہ ) تمہارا سردار کون ہے؟
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو کہ کسی عادل کی قیمت لگانے کے مطابق اس کی قیمت اداکی جاسکے تو اس کے مال سے پورا غلام آزاد کیاجائے، بصورت دیگر جتنا اس نے آزاد کیا اتنا ہی آزاد ہوگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور تمہارے غلاموں اور تمہاری لونڈیوں میں سے جو نیک ہیں۔ "نیز فرمایا: "(اللہ نے مثال بیا ن کی) عبد مملوک کی۔ "ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ان دونوں نے اپنے سید کو دروازے کے پاس پایا۔ "نیز فرمایا: "تمہاری مسلمان لونڈیوں میں سے۔ "نبی کریم ﷺنے فرمایا: "اپنے سردار کی طرف کھڑے ہوجاؤ۔ "ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے مالک کے پاس میرا ذکر کرنا۔ "آیت کریمہ میںربك سے مرادسيدك یعنی تیرا سردار ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "تمہارا سردار کون ہے؟"
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے نافع سے، وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، جس نے غلام کا اپنا حصہ آزاد کردیا، اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو جس سے غلام کی واجبی قیمت ادا کی جاسکے تو اسی کے مال سے پورا غلام آزاد کیا جائے گا ورنہ جتنا آزاد ہوگیا ہوگیا۔
حدیث حاشیہ:
صرف وہی حصہ اس کی طرف سے آزاد ہورہے گا۔ اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں عبد کا لفظ غلام کے لیے آیا ہے۔ پس مجازاً غلام پر عبد بولا جاسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If one manumits his share of a common slave (Abd), and he has money sufficient to free the remaining portion of the price of the slave (justly estimated), then he should free the slave completely by paying the rest of his price; otherwise the slave is freed partly. "