Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Superiority of giving gifts)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2567.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عروہ ؓ سے فرمایا: اے میرے بھانجے! ہم چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند دیکھتے، اس طرح دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں سے کسی میں آگ نہیں جلتی تھی۔ میں نے عرض کیا: خالہ جان!ایسے حالات میں آپ کا گزر اوقات کیا ہوتا تھا؟ انھوں نےفرمایا: دو کالی چیزوں: کھجور اور پانی پر (گزارہ کرتے تھے)، نیز رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ بھیجتے توآپ ہمیں بھی پلاتے تھے۔
تشریح:
(1) کھجور کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ کالی ہے کیونکہ مدینہ طیبہ کی کھجور سیاہ ہی ہوتی ہے لیکن پانی کو تغليباً سیاہ کہا گیا ہے۔ عربی زبان میں بسا اوقات غالب شے کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ کھجور اصل چیز ہے وہ اگر کالی ہے تو پانی کو بھی کالا کہہ دیا۔ (2) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے انصاری پڑوسی آپ کو دودھ بھیجتے تھے۔ اس بنا پر دودھ کا بطور تحفہ و ہدیہ بھیجنا ثابت ہوا۔ فوائد کے اعتبار سے یہ بہت قیمتی تحفہ ہے جو ایک انسان دوسرے کو پیش کرتا ہے۔ (3) حدیث سے معلوم ہوا کہ مال دار شخص غریب آدمی سے اچھا برتاؤ کرے اور اسے اپنے مال سے عطیہ کرتا رہے، نیز انسان کو چاہیے کہ وہ تھوڑی چیز پر قناعت کرے۔ قناعت سے انسان کی عزت و آبرو اور خودداری محفوظ رہتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2478
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2567
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2567
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2567
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے حضرت عروہ ؓ سے فرمایا: اے میرے بھانجے! ہم چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند دیکھتے، اس طرح دو ماہ میں تین چاند دیکھتے اور اس دوران میں رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں سے کسی میں آگ نہیں جلتی تھی۔ میں نے عرض کیا: خالہ جان!ایسے حالات میں آپ کا گزر اوقات کیا ہوتا تھا؟ انھوں نےفرمایا: دو کالی چیزوں: کھجور اور پانی پر (گزارہ کرتے تھے)، نیز رسول اللہ ﷺ کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دودھ کا تحفہ بھیجتے توآپ ہمیں بھی پلاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) کھجور کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ کالی ہے کیونکہ مدینہ طیبہ کی کھجور سیاہ ہی ہوتی ہے لیکن پانی کو تغليباً سیاہ کہا گیا ہے۔ عربی زبان میں بسا اوقات غالب شے کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ کھجور اصل چیز ہے وہ اگر کالی ہے تو پانی کو بھی کالا کہہ دیا۔ (2) اس حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے انصاری پڑوسی آپ کو دودھ بھیجتے تھے۔ اس بنا پر دودھ کا بطور تحفہ و ہدیہ بھیجنا ثابت ہوا۔ فوائد کے اعتبار سے یہ بہت قیمتی تحفہ ہے جو ایک انسان دوسرے کو پیش کرتا ہے۔ (3) حدیث سے معلوم ہوا کہ مال دار شخص غریب آدمی سے اچھا برتاؤ کرے اور اسے اپنے مال سے عطیہ کرتا رہے، نیز انسان کو چاہیے کہ وہ تھوڑی چیز پر قناعت کرے۔ قناعت سے انسان کی عزت و آبرو اور خودداری محفوظ رہتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد العزیز بن عبد اللہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابن ابی حازم نے بیان کیا‘ان سے ان کے والد نے یزید بن رومان سے‘ وہ عروہ سے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ آپ نے عروہ سے کہا‘ میرے بھانجے! آنحضرت ﷺ کےعہد مبارک میں (یہ حال تھا کہ) ہم ایک چاند دیکھتے‘ پھر دوسرا دیکھتے‘ پھر تیسرا دیکھتے‘ اسی طرح دو دو مہینے گزر جاتے اور رسول کریم ﷺ کے گھروں میں (کھانا پکانے کے لئے) آگ نہ جلتی تھی۔ میں نے پوچھا‘خالہ اماں!آپ لوگ پھر زندہ کیسے رہتی تھیں؟ آپ نے فرمایا کہ صرف کالی دو کھجور اور پانی پر۔ البتہ رسول اللہ ﷺ کے چند انصاری پڑوسی تھے۔ جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہﷺ کے یہاں بھی ان کا دودھ تحفہ کے طور پر پہنچا جایا کرتے تھے۔ آپﷺ اسے ہمیں بھی پلا دیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
دودھ بطور تحفہ بھیجنا اس سے ثابت ہوا۔ دو مہینے میں تین چاند اس طرح دیکھتیں کہ پہلا چاند مہینے کے شروع ہونے پر دیکھا‘ پھر دوسرا چاند اس کے ختم پر تیسرا چاند دوسرے مہینے کے ختم پر۔ کالی چیزوں میں پانی کو بھی شامل کر جیا‘ حا لانکہ پانی کالا نہیں ہوتا۔ لکن عرب لوگ تثنیہ ایک چیز کے نام سے کر دیتے ہیں۔ جیسے شمسین قمرین چاند سورج دونوں کو کہتے ہیں اس طرح ابیضین دودھ اور پانی دونوں کو کہہ دیتے ہیں اور صرف دودھ ابیض یعنی سفید ہوتا ہے۔پانی کا تو کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ اس حدیث سے دودھ کا بطور تحفہ و ہدیہ و ہبہ پیش کرنا ثابت ہوا۔ فوائد کے لحاظ سے یہ بہت ہی بڑا ہبہ ہے جو ایک انسان کو پیش کرتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Urwa (RA): Aisha said to me, "O my nephew! We used to see the crescent, and then the crescent and then the crescent in this way we saw three crescents in two months and no fire (for cooking) used to be made in the houses of Allah's Apostle. I said, "O my aunt! Then what use to sustain you?" 'Aisha (RA) said, "The two black things: dates and water, our neighbors from Ansar had some Manarh and they used to present Allah's Apostle (ﷺ) some of their milk and he used to make us drink."