باب : جو شخص اپنے دوستوں سے کوئی چیز بطور تحفہ مانگے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Whoever asks his friends to grant him a gift(3)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´ابوسعید ؓنے بیان کیا کہ` نبی کریم ﷺنے فرمایا، اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگانا (اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا
2569.
حضرت سہل ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مہاجرین کی ایک خاتون کی طرف پیغام بھیجا، اس کا ایک بڑھئی غلام تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا: ’’اپنے غلام سے کہو کہ وہ ہمارے لیے منبر کے تختے بنادے۔‘‘ اس عورت نے اپنے غلام کو حکم دیا، وہ جنگل کی طرف گیا اور جھاؤ کی لکڑی کاٹ لایا، پھر اس سے آپ کے لیے منبر تیار کیا۔ جب اس نے کام پورا کرلیا تو اس خاتون نے نبی کریم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ اس(غلام) نے منبر تیار کردیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس بھیج دو۔‘‘ لوگ منبر لے کر آئے تو نبی کریم ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور وہاں رکھ دیاجہاں تم اسے دیکھتے ہو۔
تشریح:
(1) اس روایت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے خود اس خاتون سے منبر تیار کرنے کی فرمائش کی، گویا آپ نے اس عورت سے ہدیہ طلب کیا تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد رسول اللہ ﷺ کھجور کے تنے کا سہارا لے کر خطبہ دیتے تھے۔ اس کے بعد باقاعدہ منبر کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے ایک خاتون کو پیغام بھیجا کہ اپنے بڑھئی ملازم سے ہمارے لیے منبر بنوا دیں، اس نے اپنے غلام کو یہ کام سونپا اور پھر منبر تیار کر کے مسجد میں رکھ دیا گیا۔ یہ مسجد نبوی کے پہلے منبر کی تاریخ ہے۔ (2) معلوم ہوا کہ منبر کی تاریخ قدم ہے۔ منبر پر چڑھ کر خطیب خطبہ دیتے اور شعراء بڑی شان سے قصیدے پڑھتے تھے۔ اس روایت میں اس عورت کو مہاجر کہا گیا ہے جبکہ بعض روایات میں اس کے انصار میں سے ہونے کا ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ سکونت کی وجہ سے مہاجرین میں شمار ہوتا ہو اگرچہ وہ نسبت کے اعتبار سے انصاریہ تھی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2480
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2569
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2569
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2569
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے کسی سردار کو دم کرنے کے لیے بکریاں لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی تھی۔ بکریاں لے کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: "ان بکریوں میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا۔" معلوم ہوا کہ ہدیہ وغیرہ میں حصے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الاجارۃ،حدیث:2276)
´ابوسعید ؓنے بیان کیا کہ` نبی کریم ﷺنے فرمایا، اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگانا (اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مہاجرین کی ایک خاتون کی طرف پیغام بھیجا، اس کا ایک بڑھئی غلام تھا۔ آپ نے اس سے فرمایا: ’’اپنے غلام سے کہو کہ وہ ہمارے لیے منبر کے تختے بنادے۔‘‘ اس عورت نے اپنے غلام کو حکم دیا، وہ جنگل کی طرف گیا اور جھاؤ کی لکڑی کاٹ لایا، پھر اس سے آپ کے لیے منبر تیار کیا۔ جب اس نے کام پورا کرلیا تو اس خاتون نے نبی کریم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ اس(غلام) نے منبر تیار کردیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے میرے پاس بھیج دو۔‘‘ لوگ منبر لے کر آئے تو نبی کریم ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور وہاں رکھ دیاجہاں تم اسے دیکھتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے خود اس خاتون سے منبر تیار کرنے کی فرمائش کی، گویا آپ نے اس عورت سے ہدیہ طلب کیا تھا۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد رسول اللہ ﷺ کھجور کے تنے کا سہارا لے کر خطبہ دیتے تھے۔ اس کے بعد باقاعدہ منبر کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے ایک خاتون کو پیغام بھیجا کہ اپنے بڑھئی ملازم سے ہمارے لیے منبر بنوا دیں، اس نے اپنے غلام کو یہ کام سونپا اور پھر منبر تیار کر کے مسجد میں رکھ دیا گیا۔ یہ مسجد نبوی کے پہلے منبر کی تاریخ ہے۔ (2) معلوم ہوا کہ منبر کی تاریخ قدم ہے۔ منبر پر چڑھ کر خطیب خطبہ دیتے اور شعراء بڑی شان سے قصیدے پڑھتے تھے۔ اس روایت میں اس عورت کو مہاجر کہا گیا ہے جبکہ بعض روایات میں اس کے انصار میں سے ہونے کا ذکر ہے۔ ممکن ہے کہ سکونت کی وجہ سے مہاجرین میں شمار ہوتا ہو اگرچہ وہ نسبت کے اعتبار سے انصاریہ تھی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو سعید ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اپنے ساتھ میرے لیے بھی کچھ حصہ رکھ لینا۔ "
فائدہ: ۔حضرت ابو سعید خدری ؓ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، انھوں نے کسی سردار کو دم کرنے کے لیے بکریاں لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی تھی، بکریاں لے کر وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: "ان بکریوں میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا۔ "معلوم ہوا کہ ہدیہ وغیرہ میں حصے کے لیے کہاجاسکتاہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان، کہا ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہاجرہ عورت کے پاس ( اپنا آدمی ) بھیجا۔ ان کا ایک غلام بڑھئی تھا۔ ان سے آپ نے فرمایا کہ اپنے غلام سے ہمارے لیے لکڑیوں کا ایک منبربنانے کے لیے کہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا۔ وہ غابہ سے جاکر جھاو کاٹ لایا اور اسی کا ایک منبر بنادیا۔ جب وہ منبر بناچکے تو اس عورت نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ منبر بن کر تیار ہے۔ آپ ﷺ نے کہلوایا کہ اسے میرے پاس بھجوادیں۔ جب لوگ اسے لائے تو آنحضرت ﷺ نے خود اسے اٹھایا اور جہاں تم اب دیکھ رہے ہو۔ وہیں آپ ﷺ نے اسے رکھا۔
حدیث حاشیہ:
رسول کریم ﷺ نے بطور ہدیہ خود ایک انصاری عورت سے فرمائش کی کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے ایک منبر بنوادیں۔ چنانچہ تعمیل کی گئی اور غابہ کے جھاؤ کی لکڑیوں سے منبر تیار کرکے پیش کردیاگیا۔ جب یہ پہلے دن استعمال کیاگیا تو آنحضرت ﷺ نے اس کھجور کے تنے کا سہارا چھوڑدیا جس پر آپ ٹیک دے کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ یہی تنا تھا جو آپ ﷺ کی جدائی کے غم میں سبک سبک کر ( سسک سسک کر ) رونے لگا تھا۔ جب آپ ﷺ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تب وہ خاموش ہوا۔ مہاجر کا لفظ ابوغسان راوی کا وہم ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ یہ عورت انصاری تھی۔ اس سے لکڑی کا منبر سنت ہونا ثابت ہوا جو بیشتر اہل حدیث مساجد میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA): The Prophet (ﷺ) sent for a woman from the emigrants and she had a slave who was a carpenter. The Prophet (ﷺ) said to her "Order your slave to prepare the wood (pieces) for the pulpit." So, she ordered her slave who went and cut the wood from the tamarisk and prepared the pulpit, for the Prophet. When he finished the pulpit, the woman informed the Prophet (ﷺ) that it had been finished. The Prophet (ﷺ) asked her to send that pulpit to him, so they brought it. The Prophet (ﷺ) lifted it and placed it at the place in which you see now."