باب : جو شخص اپنے دوستوں سے کوئی چیز بطور تحفہ مانگے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Whoever asks his friends to grant him a gift(3)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´ابوسعید ؓنے بیان کیا کہ` نبی کریم ﷺنے فرمایا، اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگانا (اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا
2570.
حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے کچھ اصحاب کے ساتھ مکہ کے راستے میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے آگے تشریف فرماتھے۔ میرے علاوہ سب لوگ حالت احرام میں تھے۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گورخر دیکھا جبکہ میں اس وقت اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا تھا۔ انھوں نے مجھے تو نہ بتایا لیکن ان کے دل میں خواہش ضرور تھی کہ میں اسے دیکھ لوں، چنانچہ میں نے ذرا سی توجہ کی تو اسے دیکھ لیا۔ میں گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہوگیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!اس سلسلے میں ہم تیری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں گھوڑے سے اترا اور دونوں چیزیں لیں پھر سوار ہوگیا اور گورخر پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔ پھر میں اسے ساتھ لے آیا جبکہ وہ دم توڑچکا تھا، چنانچہ سب لوگ اسے کھانے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ پھر انھیں شک ہوا کہ ہم نے اسے حالت احرام میں کھایا ہے۔ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور میں نے اپنے پاس شانے (دستی) کا گوشت چھپالیا۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے اور اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ کو میں نے شانے کا گوشت پیش کیا۔ آپ نے اسے کھایا حتیٰ کہ اسے ختم کردیا جبکہ آپ حالت احرام میں تھے۔ زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے حضرت ابوقتادہ ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
تشریح:
(1) سیدنا قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے کوڑا اور نیزہ پکڑانے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور احرام کی حالت میں نہ شکار کرنا درست ہے اور نہ شکار کے لیے کسی کی مدد کرنا ہی جائز ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے خود گورخر کے گوشت کی فرمائش کی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؒ سے بکری کا تحفہ لینے کی خواہش کی تھی۔ دراصل احادیث میں سوال کرنے کی سخت وعید اور مذمت بیان کی گئی ہے۔ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ساتھیوں کے بے تکلفانہ ماحول میں کسی چیز کی فرمائش کرنا اور بات ہے، یہ اس وعید کی زد میں نہیں آتا جو احادیث میں سوال کے متعلق آئی ہے۔ دوست احباب میں تحائف لینے دینے اور بعض اوقات خود فرمائش کرنے کا ہمارے ہاں بھی عام دستور ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2481
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2570
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2570
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2570
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ انہوں نے کسی سردار کو دم کرنے کے لیے بکریاں لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی تھی۔ بکریاں لے کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: "ان بکریوں میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا۔" معلوم ہوا کہ ہدیہ وغیرہ میں حصے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،الاجارۃ،حدیث:2276)
´ابوسعید ؓنے بیان کیا کہ` نبی کریم ﷺنے فرمایا، اپنے ساتھ میرا بھی ایک حصہ لگانا (اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوقتادہ سلمی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دن نبی کریم ﷺ کے کچھ اصحاب کے ساتھ مکہ کے راستے میں بیٹھا ہوا تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ ہمارے آگے تشریف فرماتھے۔ میرے علاوہ سب لوگ حالت احرام میں تھے۔ اس دوران میں انھوں نے ایک گورخر دیکھا جبکہ میں اس وقت اپنے جوتے کو پیوند لگا رہا تھا۔ انھوں نے مجھے تو نہ بتایا لیکن ان کے دل میں خواہش ضرور تھی کہ میں اسے دیکھ لوں، چنانچہ میں نے ذرا سی توجہ کی تو اسے دیکھ لیا۔ میں گھوڑے کی طرف گیا، اس پر زین رکھی اور سوار ہوگیا لیکن اپنا کوڑا اور نیزہ لینا بھول گیا۔ میں نے ان لوگوں سے کہا: مجھے نیزہ اور کوڑا پکڑا دو تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم!اس سلسلے میں ہم تیری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں گھوڑے سے اترا اور دونوں چیزیں لیں پھر سوار ہوگیا اور گورخر پر حملہ کرکے اسے زخمی کردیا۔ پھر میں اسے ساتھ لے آیا جبکہ وہ دم توڑچکا تھا، چنانچہ سب لوگ اسے کھانے کے لیے ٹوٹ پڑے۔ پھر انھیں شک ہوا کہ ہم نے اسے حالت احرام میں کھایا ہے۔ ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور میں نے اپنے پاس شانے (دستی) کا گوشت چھپالیا۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے اور اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ کو میں نے شانے کا گوشت پیش کیا۔ آپ نے اسے کھایا حتیٰ کہ اسے ختم کردیا جبکہ آپ حالت احرام میں تھے۔ زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے حضرت ابوقتادہ ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) سیدنا قتادہ ؓ کے ساتھیوں نے کوڑا اور نیزہ پکڑانے سے اس لیے انکار کیا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور احرام کی حالت میں نہ شکار کرنا درست ہے اور نہ شکار کے لیے کسی کی مدد کرنا ہی جائز ہے۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے خود گورخر کے گوشت کی فرمائش کی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؒ سے بکری کا تحفہ لینے کی خواہش کی تھی۔ دراصل احادیث میں سوال کرنے کی سخت وعید اور مذمت بیان کی گئی ہے۔ امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ساتھیوں کے بے تکلفانہ ماحول میں کسی چیز کی فرمائش کرنا اور بات ہے، یہ اس وعید کی زد میں نہیں آتا جو احادیث میں سوال کے متعلق آئی ہے۔ دوست احباب میں تحائف لینے دینے اور بعض اوقات خود فرمائش کرنے کا ہمارے ہاں بھی عام دستور ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابو سعید ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اپنے ساتھ میرے لیے بھی کچھ حصہ رکھ لینا۔ "
فائدہ: ۔حضرت ابو سعید خدری ؓ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، انھوں نے کسی سردار کو دم کرنے کے لیے بکریاں لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی تھی، بکریاں لے کر وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: "ان بکریوں میں اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھنا۔ "معلوم ہوا کہ ہدیہ وغیرہ میں حصے کے لیے کہاجاسکتاہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ابو حازم سے، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سلمی سے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ مکہ کے راستے میں ایک جگہ میں رسول اللہ ﷺ کے چند ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ رسول کریم ﷺ ہم سے آگے قیام فرماتھے۔ (حجۃ الوداع کے موقع پر) اور لوگ تو احرام باندھے ہوئے تھے لیکن میرا احرام نہیں تھا۔ میرے ساتھیوں نے ایک گورخردیکھا۔ میں اس وقت اپنی جوتی گانٹھنے میں مشغول تھا۔ ان لوگوں نے مجھ کو کچھ خبر نہیں دی۔ لیکن ان کی خواہش یہی تھی کہ کسی طرح میں گورخر کو دیکھ لوں۔ چنانچہ میں نے جو نظر اٹھائی تو گورخر دکھائی دیا۔ میں فوراً گھوڑے کے پاس گیا اور اس پر زین کس کر سوار ہوگیا، مگر اتفاق سے (جلدی میں) کوڑا اور نیزہ دونوں بھول گیا۔ اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ مجھے کوڑا اور نیزہ اٹھادیں۔ انہوں نے کہا ہرگز نہیں قسم اللہ کی، ہم تمہارے (شکار میں) کسی قسم کی مدد نہیں کرسکتے۔ (کیوں کہ ہم سب لوگ حالت احرام میں ہیں) مجھے اس پر غصہ آیا اور میں نے خود ہی اتر کر دونوں چیزیں لے لیں۔ پھر سوار ہوکر گورخر پر حملہ کیا اور اس کو شکار کرلایا۔ وہ مربھی چکا تھا۔ اب لوگو ں نے کہا کہ اسے کھانا چاہئے۔ لیکن پھر احرام کی حالت میں اسے کھانے (کے جواز) پر شبہ ہوا۔ (لیکن بعض لوگوں نے شبہ نہیں کیا اور گوشت کھایا) پھر ہم آگے بڑھے اور میں نے اس گورخر کا ایک بازو چھپا رکھا تھا۔ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچے تو اس کے متعلق آپ سے سوال کیا، (آپ نے محرم کے لیے شکار کے گوشت کھانے کا فتویٰ دیا) اور دریافت فرمایا کہ اس میں سے کچھ بچا ہوا گوشت تمہارے پاس موجود بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ! اور وہی بازو آپ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اسے تناول فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا۔ آپ بھی اس وقت احرام سے تھے (ابوحازم نے کہا کہ) مجھ سے یہ ی حدیث زید بن اسلم نے بیان کی، ان سے عطاءبن یسار نے اور ان سے ابوقتادہ ؓ نے۔
حدیث حاشیہ:
ساتھیوں نے امداد سے انکار اس لیے کیا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور احرام کی حالت میں نہ شکار کرنا درست ہے نہ شکار میں مدد کرنا۔ آنحضرت ﷺ نے اس گوشت میں تحفہ کی خود خواہش فرمائی۔ اسی سے مقصد باب حاصل ہوا۔ ابوقتادہ سلمی ؒ نے تیر بسم اللہ پڑھ کر چلایا ہوگا۔ پس وہ شکار حلال ہوا۔ دوست احباب میں تحفے تحائف لینے دینے بلکہ بعض دفعہ باہمی طور پر خود فرمائش کردینے کا عام دستور ہے، اسی کا جواز یہاں سے ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abu Qatada Al-Aslami (RA): That his father said, "One day I was sitting with some of the Prophet's companions on the way to Makkah. Allah's Apostle (ﷺ) was ahead of us. All of my companions were in the state of Ihram while I was a non-Muhrim. They saw an onager while I was busy repairing my shoes, so they did not tell me about it but they wished I had seen it. By chance I looked up and saw it. So, I turned to the horse, saddled it and rode on it, forgetting to take the spear and the whip. I asked them if they could hand over to me the whip and the spear but they said, 'No, by Allah, we shall not help you in that in any way.' I became angry and got down from the horse, picked up both the things and rode the horse again. I attacked the onager and slaughtered it, and brought it (after it had been dead). They took it (cooked some of it) and started eating it, but they doubted whether it was allowed for them to eat it or not, as they were in the state of Ihram. So, we proceeded and I hid with me one of its fore-legs. When we met Allah's Apostle (ﷺ) and asked him about the case, he asked, 'Do you have a portion of it with you?' I replied in the affirmative and gave him that fleshy fore-leg which he ate completely while he was in the state of Ihram .