Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Whoever asks others to give him water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور سہل بن سعد ساعدی ؓ نے کہا کہ رسول کریم ﷺنے مجھ سے فرمایا ” مجھے پانی پلاو “ ( اس سے اپنے ساتھیوں سے پانی مانگنا ثابت ہوا )۔ تشریح : سہل بن سعد ساعدی ؓ انصاری ہیں اور ابوعباس ان کی کنیت ہے۔ ان کا نام حزن تھا، لیکن رسول کریم ﷺ نے اس کو سہل سے بدل دیا۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کی تھی، انہوں نے مدینہ میں91ھ میں انتقال فرمایا۔ یہ سب سے آخری صحابی ہیں جن کا مدینہ میں انتقال ہوا۔ ان سے ان کے بیٹے عباس اور زہری اور ابوحازم روایت کرتے ہیں۔
2571.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے اس گھر میں تشریف لائے تو آپ نے پانی طلب فرمایا۔ ہم نے آپ کے لیے ایک بکری کادودھ نکالا، پھر میں نے اس میں اپنے کنویں کاپانی ملایا۔ اسکے بعد اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جبکہ حضرت ابو بکر ؓ آپ کی بائیں جانب، حضرت عمرفاروق ؓ آپ کے سامنے اور ایک اعرابی آپ کی دائیں طرف تھا۔ جب آپ نوش فرماکر فارغ ہوئے تو حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا: یہ حضرت ابوبکر ؓ ہیں، لیکن آپ نے اپنا بچا ہوا دودھ اعرابی کو دے دیا، پھر فرمایا: ’’دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ اچھی طرح سن لو!دائیں جانب سے شروع کیاکرو۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: یہ سنت ہے۔ یہ سنت ہے تین مرتبہ ایسا فرمایا۔
تشریح:
حضرت عمر فاروق ؓ نے ازخود آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کا بچا ہوا تبرک ابوبکر ؓ کا حق ہے انہیں ملنا چاہیے، نیز عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کے گھر تشریف لا کر ازخود پانی پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بہرحال ہر انسان کے لیے اس کی زندگی میں دوست احباب کے ساتھ بے تکلفی کے بہت سے مواقع آتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ اس کے متعلق تنگ نظر نہیں ہے۔ ایسے مواقع پر دین اسلام نے ہمیں ہر ممکن سہولت دی ہے جو معیوب نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ سے پانی طلب کیا۔ چونکہ حضرت انس ؓ آپ کے مزاج شناس تھے، انہوں نے دودھ میں پانی ملا کر آپ کے حضور پیش کیا تو آپ نے نوش فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2482
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2571
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2571
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2571
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
پیش کردہ روایت ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے کتاب الاشربۃ، حدیث: 5637 کے تحت موصولاً ذکر کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عرب خاتون کا ذکر ہوا تو آپ نے حضرت اسید رضی اللہ عنہ کو اس کی طرف روانہ کیا۔ اس میں ہے کہ آپ نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "ہمیں پانی پلاؤ۔"
اور سہل بن سعد ساعدی ؓ نے کہا کہ رسول کریم ﷺنے مجھ سے فرمایا ” مجھے پانی پلاو “ ( اس سے اپنے ساتھیوں سے پانی مانگنا ثابت ہوا )۔ تشریح : سہل بن سعد ساعدی ؓ انصاری ہیں اور ابوعباس ان کی کنیت ہے۔ ان کا نام حزن تھا، لیکن رسول کریم ﷺ نے اس کو سہل سے بدل دیا۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کی تھی، انہوں نے مدینہ میں91ھ میں انتقال فرمایا۔ یہ سب سے آخری صحابی ہیں جن کا مدینہ میں انتقال ہوا۔ ان سے ان کے بیٹے عباس اور زہری اور ابوحازم روایت کرتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے اس گھر میں تشریف لائے تو آپ نے پانی طلب فرمایا۔ ہم نے آپ کے لیے ایک بکری کادودھ نکالا، پھر میں نے اس میں اپنے کنویں کاپانی ملایا۔ اسکے بعد اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جبکہ حضرت ابو بکر ؓ آپ کی بائیں جانب، حضرت عمرفاروق ؓ آپ کے سامنے اور ایک اعرابی آپ کی دائیں طرف تھا۔ جب آپ نوش فرماکر فارغ ہوئے تو حضرت عمر فاروق ؓ نے عرض کیا: یہ حضرت ابوبکر ؓ ہیں، لیکن آپ نے اپنا بچا ہوا دودھ اعرابی کو دے دیا، پھر فرمایا: ’’دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ دائیں جانب والے مقدم ہیں۔ اچھی طرح سن لو!دائیں جانب سے شروع کیاکرو۔‘‘ حضرت انس ؓ نے فرمایا: یہ سنت ہے۔ یہ سنت ہے تین مرتبہ ایسا فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر فاروق ؓ نے ازخود آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کا بچا ہوا تبرک ابوبکر ؓ کا حق ہے انہیں ملنا چاہیے، نیز عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ کے گھر تشریف لا کر ازخود پانی پینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بہرحال ہر انسان کے لیے اس کی زندگی میں دوست احباب کے ساتھ بے تکلفی کے بہت سے مواقع آتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ اس کے متعلق تنگ نظر نہیں ہے۔ ایسے مواقع پر دین اسلام نے ہمیں ہر ممکن سہولت دی ہے جو معیوب نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ سے پانی طلب کیا۔ چونکہ حضرت انس ؓ آپ کے مزاج شناس تھے، انہوں نے دودھ میں پانی ملا کر آپ کے حضور پیش کیا تو آپ نے نوش فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت سہل ؓ کہتے ہیں: (ایک دفعہ) نبی کریمﷺ نے مجھ سے فرمایا: "مجھے پانی پلاؤ"
حدیث ترجمہ:
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، کہا کہ مجھ سے ابوطوالہ نے جن کا نام عبداللہ بن عبدالرحمن تھاکہ میں نے انس ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم ﷺ ہمارے اسی گھر میں تشریف لائے اور پانی طلب فرمایا۔ ہمارے پاس ایک بکری تھی، اسے ہم نے دوہا۔ پھر میں نے اس میں اسی کنویں کا پانی ملاکر آپ کی خدمت میں (لسی بناکر) پیش کیا، حضرت ابوبکر ؓ آپ ﷺ کی بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت عمر ؓ سامنے تھے اور ایک دیہاتی آپ کے دائیں طرف تھا۔ جب آپ ﷺ پی کر فارغ ہوئے تو (پیالے میں کچھ دودھ بچ گیا تھا اس لیے) حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ یہ حضرت ابوبکر ؓ ہیں۔ لیکن آپ نے اسے دیہاتی کو عطا فرمایا۔ ( کیوں کہ وہ دائیں طرف تھا ) پھر آپ ﷺ نے فرمایا، دائیں طرف بیٹھنے والے، دائیں طرف بیٹھنے والے ہی حق رکھتے ہیں۔ پس خبردار دائیں طرف ہی سے شروع کیا کرو۔ انس ؓ نے کہا کہ یہی سنت ہے، یہی سنت ہے، تین مرتبہ (آپ نے اس بات کو دہرایا)۔
حدیث حاشیہ:
مقصد باب اور خلاصہ حدیث واردہ یہ ہے کہ ہر انسان کے لیے اس کی مجلس زندگی میں دوست احباب کے ساتھ بے تکلفی کے بہت سے مواقع آجاتے ہیں۔ شریعت اسلامیہ اس بارے میں تنگ نظر نہیں ہے، اس نے ایسے مواقع کے لیے ہر ممکن سہولتیں دی ہیں جو معیوب نہیں ہیں۔ مثلاً اپنے دوست احباب سے پانی پلانے کی فرمائش کرنا جیسا کہ حدیث میں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت انس ؓ کے یہاں تشریف لاکر پانی طلب فرمایا۔ حضرت انس ؓ بھی مزاج رسالت کے قدر داں تھے۔ انہوں نے پانی اور دودھ ملاکر لسی بناکر پیش کردیا۔ آداب مجلس کا یہاں دوسرا واقعہ وہ پیش آیا جو روایت میں مذکور ہے۔ حضرت انس ؓ نے سنت رسول ﷺ کے اظہار اور اس کی اہمیت بتلانے کے لیے تین بار یہ لفظ دہرائے۔ واقعہ یہی ہے کہ سنت رسول ﷺ کی بڑی اہمیت ہے خواہ وہ سنت کتنی ہی چھوٹی کیو ں نہ ہو۔ فدائیان رسول ﷺ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت ہر کام میں سنت رسول ﷺ کو سامنے رکھیں، اسی میں دارین کی بھلائی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) visited us in this house of ours and asked for something to drink. We milked one of our sheep and mixed it with water from this well of ours and gave it to him. Abu Bakr (RA) was sitting on his left side and 'Umar in front of him and a bedouin on his right side. When Allah's Apostle (ﷺ) finished, 'Umar said to Allah's Apostle (ﷺ) "Here is Abu Bakr." But Allah's Apostle (ﷺ) gave the remaining milk to the bedouin and said twice, "The (persons on the) right side! So, start from the right side." Anas added, "It is a Sunna (the Prophet's traditions)" and repeated it thrice.