مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ نے شکار کے بازو کا تحفہ ابوقتادہ سے قبول فرمایا تھا ( اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا )
2572.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم نے مرالظہران میں ایک خرگوش بھگایا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے لیکن تھک گئے۔ البتہ میں اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں اسے حضرت ابوطلحہ ؓ کے پاس لے کرآیا توا نھوں نے اسے ذبح کیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کاپچھلا حصہ یارانیں بھجوائیں۔ پھر راوی نے کہا: اس میں شک نہیں کہ آپ کے پاس رانیں بھجوائیں۔ ۔ ۔ توآ پ نے اسے قبول فرمایا۔ راوی حدیث نے پوچھا: کیا آپ نے اس میں سے کھایا؟ توانھوں نے جواب دیا: ہاں، اس سے کچھ کھایا، پھر اس کے بعد کہا: آپ نے اسے قبول فرمالیا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جس نے شکار کا پیچھا کیا وہ غافل ہوا۔ (سنن أبي داود، الصید، حدیث:2859) اس کا مطلب یہ ہے کہ شکار کا پیچھا کرنے میں اتنا مصروف ہو جائے کہ اس کی نماز فوت ہو جائے یا وہ شخص غفلت کا شکار ہے جو زندگی بھر اسی میں مصروف رہے، اس میں دینی اور دنیاوی مصلحتیں فوت ہو جائیں۔ اس انداز سے شکار کرنا واقعی سبب غفلت ہے، البتہ کبھی کبھار شکار کرنا غفلت کا باعث نہیں اور ایسے شخص کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ہے۔ (2) صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے خرگوش کا پچھلا حصہ رانوں سمیت ہی بھیجا تھا جسے آپ نے قبول فرمایا۔ (صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث:5048(1953))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2483
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2572
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2572
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2572
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ حدیث باب نمبر: 3 کے تحت ابھی ابھی گزری ہے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ۔۔۔۔،حدیث:2570) اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے جب حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ایک گورخر شکار کیا اور اس کے شانے کا گوشت آپ کو پیش کیا تو آپ نے اسے قبول فرمایا۔
اور نبی کریم ﷺ نے شکار کے بازو کا تحفہ ابوقتادہ سے قبول فرمایا تھا ( اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا )
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم نے مرالظہران میں ایک خرگوش بھگایا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے لیکن تھک گئے۔ البتہ میں اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں اسے حضرت ابوطلحہ ؓ کے پاس لے کرآیا توا نھوں نے اسے ذبح کیا، پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس اس کاپچھلا حصہ یارانیں بھجوائیں۔ پھر راوی نے کہا: اس میں شک نہیں کہ آپ کے پاس رانیں بھجوائیں۔ ۔ ۔ توآ پ نے اسے قبول فرمایا۔ راوی حدیث نے پوچھا: کیا آپ نے اس میں سے کھایا؟ توانھوں نے جواب دیا: ہاں، اس سے کچھ کھایا، پھر اس کے بعد کہا: آپ نے اسے قبول فرمالیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جس نے شکار کا پیچھا کیا وہ غافل ہوا۔ (سنن أبي داود، الصید، حدیث:2859) اس کا مطلب یہ ہے کہ شکار کا پیچھا کرنے میں اتنا مصروف ہو جائے کہ اس کی نماز فوت ہو جائے یا وہ شخص غفلت کا شکار ہے جو زندگی بھر اسی میں مصروف رہے، اس میں دینی اور دنیاوی مصلحتیں فوت ہو جائیں۔ اس انداز سے شکار کرنا واقعی سبب غفلت ہے، البتہ کبھی کبھار شکار کرنا غفلت کا باعث نہیں اور ایسے شخص کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ہے۔ (2) صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے خرگوش کا پچھلا حصہ رانوں سمیت ہی بھیجا تھا جسے آپ نے قبول فرمایا۔ (صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث:5048(1953))
ترجمۃ الباب:
نبی کریمﷺنے حضرت ابوقتادہ سے شکار کے بازو (دستی) کاگوشت قبول فرمایا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن زید بن انس بن مالک نے اور ان سے انس ؓ نے بیان کیا کہ مرالظہران نامی جگہ میں ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا۔ لوگ (اس کے پیچھے) دوڑے اور اسے تھکا دیا اور میں نے قریب پہنچ کر اسے پکڑ لیا۔ پھر ابوطلحہ ؓ کے یہاں لایا۔ انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کے پیچھے کا یا دونوں رانوں کا گوشت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ ( شعبہ نے بعد میں یقین کے ساتھ ) کہا کہ دونوں رانیں انہوں نے بھیجی تھیں، اس میں کوئی شک نہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے اسے قبول فرمایا تھا میں نے پوچھا اور اس میں سے آپ نے کچھ تناول بھی فرمایا؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں! کچھ تناول فرمایا تھا۔ اس کے بعد پھر انہوں نے کہا کہ آپ نے وہ ہد یہ قبول فرما لیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): We chased a rabbit at Mar-al-Zahran and the people ran after it but were exhausted. I overpowered and caught it, and gave it to Abu Talha who slaughtered it and sent its hip or two thighs to Allah's Apostle. (The narrator confirms that he sent two thighs). The Prophet (ﷺ) accepted that. (The sub-narrator asked Anas, "Did the Prophet; eat from it?" Anas replied, "He ate from it.")