مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2575.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ ام حفید ؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پنیر، گھی اور سانڈے کا ہدیہ بھیجا۔ آپ نے پنیر اور گھی میں سے تو کچھ کھالیا لیکن سانڈا ناگواری کی وجہ چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سانڈا آپ کے دسترخواں پر کھایا گیا۔ اگرحرام ہوتا تو کم از کم رسول اللہ ﷺ کے دستر خواں پر اسے نہ کھایا جاتا۔
تشریح:
(1) ضَب جسے ہمارے ہاں سانڈا کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہدیہ قبول فرمایا لیکن طبعی ناگواری کی وجہ سے اسے تناول نہیں فرمایا کیونکہ آپ کو یہ پسند نہ تھا، البتہ آپ کے دستر خواں پر دیگر صحابۂ کرام ؓ نے اسے کھایا ہے جو اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے۔ اگر کوئی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے نہ کھائے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔ اسے حرام کہنا غلط ہے۔ (2) بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے دیار میں نہیں کھائی جاتیں لیکن انہیں حرام کہنا مشکل ہے، سانڈے کے متعلق عجائب و غرائب اور اپنے چشم دید مشاہدات ہم آئندہ کسی فرصت میں بیان کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2486
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2575
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2575
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2575
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ ام حفید ؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پنیر، گھی اور سانڈے کا ہدیہ بھیجا۔ آپ نے پنیر اور گھی میں سے تو کچھ کھالیا لیکن سانڈا ناگواری کی وجہ چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ سانڈا آپ کے دسترخواں پر کھایا گیا۔ اگرحرام ہوتا تو کم از کم رسول اللہ ﷺ کے دستر خواں پر اسے نہ کھایا جاتا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ضَب جسے ہمارے ہاں سانڈا کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس کا ہدیہ قبول فرمایا لیکن طبعی ناگواری کی وجہ سے اسے تناول نہیں فرمایا کیونکہ آپ کو یہ پسند نہ تھا، البتہ آپ کے دستر خواں پر دیگر صحابۂ کرام ؓ نے اسے کھایا ہے جو اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے۔ اگر کوئی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے نہ کھائے تو وہ گناہ گار نہیں ہو گا۔ اسے حرام کہنا غلط ہے۔ (2) بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو ہمارے دیار میں نہیں کھائی جاتیں لیکن انہیں حرام کہنا مشکل ہے، سانڈے کے متعلق عجائب و غرائب اور اپنے چشم دید مشاہدات ہم آئندہ کسی فرصت میں بیان کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جعفر بن ایاس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا کہ ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ ان کی خالہ ام حفید ؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پنیر، گھی اور گوہ (ساہنہ) کے تحائف بھیجے۔ آنحضرت ﷺ نے پنیر اور گھی میں سے تو تناول فرمایا لیکن گوہ پسند نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دی۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے (اسی) دسترخوان پر گوہ (ساہنہ) کو بھی کھایاگیا اور اگروہ حرام ہوتی تو آپ ﷺ کے دسترخوان پر کیوں کھائی جاتی۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے گوہ (ساہنہ) کا ہدیہ قبول تو فرمالیا، مگر خود نہیں کھایا، کیوں کہ آپ کو یہ مرغوب نہ تھا۔ ہاں آپ کے دسترخوان پر اسے صحابہ کرام ؓ نے کھایا جو اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے مگر طبعی کراہیت سے کوئی اسے نہ کھائے تو وہ گنہگار نہ ہوگا، ہاں اسے حرام کہنا غلط ہے۔ المحدث الکبیر حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں: وذکر ابن خالویه أن الضب یعیش سبع مائة سنة وأنه لایشرب الماء و یبول في کل أربعین یوما قطرة ولا یسقط له سن و یقال بل أسنانه قطعة واحدة و حکی غیرہ أن أکل لحمه يذهب العطش۔ یعنی ابن خالویہ نے ذکر کیا ہے کہ گوہ (ساہنہ) سات سو سال تک زندہ رہتی ہے اور وہ پانی نہیں پیتی اور چالیس دن میں صرف ایک قطرہ پیشاب کرتی ہے اور اس کے دانت نہیں گرتے بلکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے دانت ایک ہی قطعہ کی شکل میں ہوتے ہیں اور بعض کا ایسا بھی کہنا ہے کہ اس کا گوشت پیاس بجھادیتا ہے۔ آگے حضرت مولانا فرماتے ہیں: وقال النووي أجمع المسلمون علی أن الضب حلال لیس بمکروہیعنی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ گوہ (ساہنہ) حلال ہے مکروہ نہیں ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے اصحاب اسے مکروہ کہتے ہیں۔ ان حضرات کا یہ قول نصوص صریحہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔ ترمذی کی روایت عن ابن عمر ؓ میں صاف موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لاآکلهُ ولا أُحرمُهُ. نہ میں اسے کھاتا ہوں نہ حرام قرار دیتا ہوں۔ اس حدیث کے ذیل حضرت امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں: وقد اختلف أهل العلم في أکل الضب فرخص فیه بعض أهل العلم من أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم و غیرهم وکرهه بعضهم و یروی عن ابن عباس أنه قال أکل الضب علی مائدة رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم وإنما ترکه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تقذرا۔یعنی گوہ (ساہنہ) کے بارے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے۔ پس اصحاب رسول اللہ ﷺ میں سے بعض نے اس کے لیے رخصت دی ہے اور ان کے علاوہ دوسرے اہل علم نے بھی اور بعض نے اسے مکروہ کہا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول کريم ﷺ کے دسترخوان پر گوہ (ساہنہ) کا گوشت کھایاگیا مگر آپ ﷺ نے طبعی کراہیت کی بنا پر نہیں کھایا۔ حضرت مولانا مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں: وهو قول الجمهور وهو الراجح المعمول علیه۔ یعنی جمہور کا قول حلت ہی کے لیے ہے اور یہی قول راجح ہے جس پر فتویٰ دیاگیا ہے اور اس مسلک پر حضرت مولانا مرحوم نے آٹھ احادیث و آثار نقل فرمائے ہیں اور مکروہ کہنے والوں کے دلائل پر بطریق احسن تبصرہ فرمایا ہے۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی جلد: 3ص: 73,74 کا مطالعہ کیا جانا ضروری ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Jubair (RA): Ibn Abbas (RA) said: Um Hufaid, Ibn 'Abbas's aunt sent some dried yogurt (butter free), ghee (butter) and a mastigar to the Prophet (ﷺ) as a gift. The Prophet (ﷺ) ate the dried yogurt and butter but left the mastigar because he disliked it. Ibn 'Abbas (RA) said, "The mastigar was eaten at the table of Allah's Apostle (ﷺ) and if it had been illegal to eat, it could not have been eaten at the table of Allah's Apostle."