باب: اس بارے میں کہ جس نے حلاب سے یا خوشبو لگا کر غسل کیا تو اس کا بھی غسل ہو گیا۔
)
Sahi-Bukhari:
Bathing (Ghusl)
(Chapter: Starting one's bath by scenting oneself with Hilab or some other scent)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
258.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب غسل جنابت کرنے کا ارادہ فرماتے تو حلاب جیسی کوئی چیز منگواتے اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر پہلے سر کے دائیں حصے سے ابتدا کرتے، پھر بائیں جانب لگاتے۔ اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں سے تالو پر مالش کرتے۔
تشریح:
شارحین نے باب میں وارد لفظ حلاب کے درج ذیل مفہوم بیان کیے ہیں۔ * شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں کہ حلاب بیجوں سے نکالے ہوئے دودھ یعنی روغن کو کہتے ہیں اہل عرب اپنی عادت کے مطابق سر اور دیگر اعضاء کی صفائی کے لیے اس محلب کو استعمال کرتے تھے۔ اس سے مراد برتن نہیں، لیکن اہل عرب آج اس لفظ حلاب کو اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ شاید یہ لفظ ان معنوں میں پہلے مستعمل رہا ہو گا، جو اب متروک ہو چکا ہے۔ *حلاب اس برتن کو کہتے ہیں جس میں اونٹنی کا دودھ جمع کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت کے متعلق محدثین کرام کو خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ آئمہ کرام نے امام بخاری ؒ کی تغلیط کی ہے، بغرض افادہ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: * ان میں سر فہرست محدث اسماعیلی کا نام ہے، انھوں نے فرمایا کہ امام بخاری کی سمجھ کے مطابق حلاب کسی خوشبو کا نام ہے، حالانکہ غسل سے پہلے خوشبو استعمال کرنا چہ معنی وارد؟ (فتح الباري:479/1) * علامہ خطابی نے کہا: حلاب ایک ایسا برتن ہے جس میں اونٹنی کو ایک بار دوھنے کی مقدار آتی ہے، امام بخاری ؒ نے اس لفظ کا ذکر کیا ہے، لیکن اسے غسل میں خوشبو استعمال کرنے پر محمول کیا ہے۔ (فتح الباري:480/1) * محدث حمیدی نے لکھا کہ امام مسلم نے تو حلاب سے برتن ہی سمجھا، مگر امام بخاری کے خیال کے مطابق ایک خوشبو کا نام ہے جو غسل سے پہلے استعمال ہوتی ہے۔ (فتح الباري:480/1) * علامہ سندھی نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے ظاہر طریقے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حلاب کو خوشبو کی کوئی قسم خیال کیا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حلاب سے مراد ایک برتن ہے۔ (حاشیة السندي:57/1) * مشہور لغوی ازہری نے کہا ہے کہ صحیح بخاری کے نسخے میں کتابت کی غلطی ہے، کیونکہ اصل لفظ جلاب ہے جو گلاب کا معرب ہے، اس کے معنی آب ورد ہیں، کسی کاتب کی غلطی سے حلاب بن گیا ہے۔ (فتح الباري:480/1) واضح رہے کہ یہ تمام احتمالات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور امام بخاری ؒ کی دقت نظر اور علمی جامعیت سے انھیں دور کا واسطہ بھی نہیں۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ میں نے بعض حضرات کی جن کا نام اب مجھے یاد نہیں آ رہا یہ توجیہ دیکھی ہے کہ عنوان میں الطیب سے مقصود حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ وہ احرام کے وقت رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگایا کرتی تھیں اور غسل چونکہ سنن احرام سے ہے، اس لیے گویا خوشبو وقت غسل ثابت ہوئی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر غسل کے وقت آپ کی عادت خوشبو لگانے کی نہ تھی اور آپ نے خوشبو کے بغیر بھی غسل فرمایا ہے۔ وہ اس توجیہ کو احسن الاجوبۃ قراردیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ اس توجیہ کی تقویت اس امر سے ہوتی ہے کہ سات ابواب کے بعد امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔’’جس نے خوشبو لگائی پھر غسل کیا اور خوشبو کے اثرات باقی رہے۔‘‘ پھر حدیث عائشہ ؓ ذکر کی ہے جس سے خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنا ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اس عنوان میں (باب من بدأ بالحلاب) سے غسل کا برتن مراد ہے جسے آپ نے بغرض غسل طلب فرمایا اور من بدأ بالطیب کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے غسل کا ارادہ کرتے وقت خوشبو کا استعمال فرمایا ۔ عنوان میں دونوں امر ملحوظ ہیں، لیکن پیش کردہ حدیث میں آپ کی مداومت بداءت غسل ثابت ہوتی ہے اور غسل کے بعد خوشبو لگانا تو آپ کی عام عادت تھی اور قبل از غسل خوشبو لگانا اس کی طرف اشارہ حدیث عائشہ ؓ سے کردیا۔ (فتح الباري:481/1) لیکن حدیث عائشہ ؓ میں جس خوشبو کا ذکر ہے وہ حصول نشاط کے لیے معلوم ہوتی ہے کہ خوشبو محرک ہونے کی وجہ سے جماع کے لیے مفید ہوتی ہے اور اس کا غسل سے کوئی تعلق نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
260
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
258
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
258
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
258
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے طہارت صغریٰ(وضو)کا بیان ختم کر کے طہارت کبری (غسل)کا ذکر شروع فرمایا طہارت صغری کو اس لیے مقدم کیا ہے کہ طہارت کبریٰ کے مقابلے میں اس کی ضرورت زیادہ پیش آتی ہے واضح رہے کہ موجبات غسل کئی چیزیں ہیں مثلاًجنابت حیض نفاس اسلام، احرام ،تغسیل، میت ،نماز جمعہ اور نماز عیدین وغیرہ مؤخر الذکر چار تو استحباب کے درجے میں ہیں جبکہ پہلی چار فرض کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سے حیض و نفاس صرف عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور غسل اسلام زندگی میں صرف ایک مرتبہ کیا جاتا ہے اس بنا پر وہ کثیر الوقوع نہیں چونکہ غسل جنابت میں مردوعورت کو یکساں طور پر واسطہ پڑتا ہے اس بنا پر یہ کثیر الوقوع ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اس کے احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کے متعلق آپ نے45 چھوٹے بڑے عنادین قائم کیے ہیں، پھر ان کی تفصیل و تشریح کے لیے 75احادیث بیان کی ہیں۔ ان احادیث کی روشنی میں غسل جنابت کا وجوب علت وجوب شرائط وواجبات اور احکام وآداب کو ثابت کیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز میں دو قرآنی آیات کا حوالہ دے کر اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ غسل جنابت کے سلسلے میں ان آیات کو بنیاد اور اصل کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے بعد آنے والی احادیث انھی آیات کی تبیین و تفصیل ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ تراجم ابواب سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ احکام غسل جنابت سے تعلق رکھتے ہیں۔مثلاً غسل سے پہلے وضو کرنا غسل سے پہلے خوشبو کا استعمال جس کے اثرات غسل کے بعد باقی رہیں دوران غسل میں صابن وغیرہ کا استعمال غسل سے پہلے اعضائے مخصوصہ سے آلائش دور کرنے کے بعد ہاتھوں کو مٹی سے صاف کرنا، ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈالنا دوران غسل میں بالوں کا خلال کرنا، متعدد مرتبہ مباشرت کرنے کے بعد آخر میں ایک ہی غسل کر لینا غسل میں عدد کا لحاظ رکھا جائے یا صرف تمام بدن پر پانی بہا دیا جائے اور غسل کے لیے کم ازکم پانی کی مقدار وغیرہ اور کچھ احکام جنبی انسان کے بارے میں ہیں مثلاً وہ بحالت جنابت سو سکتا ہے یا نہیں ؟ اس کا بازار جانا یا گھر رہنا شرعاً کیسا ہے؟ اگر مسجد میں یہ حالت (احتلام وغیرہ )پیش آجائے تو کیا کرے؟اس کے پسینے کا کیا حکم ہے؟ بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ خلوت و جلوت میں غسل کرنے کے لوازمات کیا ہیں؟ عورت کو احتلام کا عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ کیا کرے؟ اور خروج مذی کا حکم وغیرہ آخر میں مباشرت کے دوران میں اندام نہانی سے برآمد ہونے والی رطوبت کا شرعی حکم بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بے شمار حقائق و دقائق سے پردہ اٹھایا ہے جو پڑھتے وقت غور و فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ دوران مطالعہ میں ہماری پیش کردہ گزارشات کو مدنظر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی گہرائی اور گیرائی کا عملی تجربہ ہو ۔(وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ سَوَاءَ السَّبِيلِ)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور اگر تم بحالتِ جنات ہو تو غسل کر لو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے اختلاف کیا ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک مٹی سے تیمم کرلو۔ اسے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ملو۔ اللہ تم پر کسی قسم کی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمہیں پاک کرنے اور تمہیں بھرپور نعمت دینے کا ہے تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔" نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے ایمان والو! جب تم بحالت نشہ ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ تا آنکہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور بحالت جنابت بھی، جب تک تم غسل نہ کر لو، ہاں اگر تم راہ چلتے گزر جانے والے ہو تو اور بات ہے۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اسے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مل لو۔ بےشک اللہ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا بے حد بخشنے والا ہے۔"
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو آیات سے غسل جنابت کے واجب ہونے پر استدلال کیا ہے پہلی آیت میں صیغہ مبالغہ (اِطَّهَّرُوا)استعمال کیا گیا ہے اس میں تنبیہ ہے کہ بحالت جنابت جہاں تک اثر جنابت پہنچ چکا ہو وہاں وہاں کوشش کرکے پانی پہنچا کر اس کے اثرات کو زائل کرنا ضروری ہے چونکہ غسل جنابت کا تعلق پورے جسم سے ہے اس سلسلے میں کسی عضو کا ذکر نہیں جیسا کہ وضو میں اعضائے اربعہ کا ذکر تھا اس لیے غسل جنابت میں معمولی طہارت کافی نہ ہو گی بلکہ کان ناک اور حلق کے اندر پانی پہنچانا ضروری ہے ہاں !جس عضو میں پانی پہنچانے سے کسی نقصان کا اندیشہ ہوگا وہاں معافی ہوگی مثلاً آنکھوں کے اندر کا معاملہ ہے۔ اگر وہاں پانی پہنچانے کی کوشش کریں گے تو بصارت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اس لیے اثرات جنابت دور کرنے کے لیے آنکھوں کے اندر پانی پہنچانے کا مکلف قرارنہیں دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ والی آیت کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ اس میں مبالغے کا صیغہ آیا ہے حالانکہ ترتیب کے لحاظ سے یہ سورت سورۃ النشاء کے بعد ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور نکتہ بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورہ مائدہ کی آیت کو سورہ نساء کی آیت پر اس لیے مقدم کیا ہے کہ سورہ مائدہ کی آیت میں (تَغْتَسِلُوا) کا لفظ ہے جس میں اجمال اور ابہام تھا اور سورہ نساء کی آیت میں(اِطَّهَّرُوا) کا لفظ ہے اس میں غسل کی تصریح آگئی گویا دوسری آیت پہلی آیت کے لیے تفسیر کاکام دیتی ہے پھر لکھتے ہیں کہ (اِغْتَسِلُوا)سے مراد لینے پر دلیل یہ ہے کہ یہی لفظ حائضہ کے سلسلے میں بھی وارد ہوا ہے وہاں (تَطَهَّرْنَ)سے بالاتفاق (اغتسلن) مراد لیا گیا ہے۔( فتح الباری1/468۔) لیکن علامہ عینی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے سے متفق نہیں ہیں فرماتے ہیں: لفظ (اِطَّهَّرُوا) میں کوئی اجمال نہیں نہ لغوی اور نہ اصطلاحی کیونکہ اس کے معنی ہر لحاظ سے غسل بدن کے ہیں۔( عمدۃ القاری3/4۔)علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ ان آیات سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ غسل جنابت کا وجوب قرآن مجید سے مستفاد ہے۔( شرح الکرمانی1/111۔)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب غسل جنابت کرنے کا ارادہ فرماتے تو حلاب جیسی کوئی چیز منگواتے اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر پہلے سر کے دائیں حصے سے ابتدا کرتے، پھر بائیں جانب لگاتے۔ اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں سے تالو پر مالش کرتے۔
حدیث حاشیہ:
شارحین نے باب میں وارد لفظ حلاب کے درج ذیل مفہوم بیان کیے ہیں۔ * شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں کہ حلاب بیجوں سے نکالے ہوئے دودھ یعنی روغن کو کہتے ہیں اہل عرب اپنی عادت کے مطابق سر اور دیگر اعضاء کی صفائی کے لیے اس محلب کو استعمال کرتے تھے۔ اس سے مراد برتن نہیں، لیکن اہل عرب آج اس لفظ حلاب کو اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔ شاید یہ لفظ ان معنوں میں پہلے مستعمل رہا ہو گا، جو اب متروک ہو چکا ہے۔ *حلاب اس برتن کو کہتے ہیں جس میں اونٹنی کا دودھ جمع کیا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت کے متعلق محدثین کرام کو خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ آئمہ کرام نے امام بخاری ؒ کی تغلیط کی ہے، بغرض افادہ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: * ان میں سر فہرست محدث اسماعیلی کا نام ہے، انھوں نے فرمایا کہ امام بخاری کی سمجھ کے مطابق حلاب کسی خوشبو کا نام ہے، حالانکہ غسل سے پہلے خوشبو استعمال کرنا چہ معنی وارد؟ (فتح الباري:479/1) * علامہ خطابی نے کہا: حلاب ایک ایسا برتن ہے جس میں اونٹنی کو ایک بار دوھنے کی مقدار آتی ہے، امام بخاری ؒ نے اس لفظ کا ذکر کیا ہے، لیکن اسے غسل میں خوشبو استعمال کرنے پر محمول کیا ہے۔ (فتح الباري:480/1) * محدث حمیدی نے لکھا کہ امام مسلم نے تو حلاب سے برتن ہی سمجھا، مگر امام بخاری کے خیال کے مطابق ایک خوشبو کا نام ہے جو غسل سے پہلے استعمال ہوتی ہے۔ (فتح الباري:480/1) * علامہ سندھی نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے ظاہر طریقے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حلاب کو خوشبو کی کوئی قسم خیال کیا ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حلاب سے مراد ایک برتن ہے۔ (حاشیة السندي:57/1) * مشہور لغوی ازہری نے کہا ہے کہ صحیح بخاری کے نسخے میں کتابت کی غلطی ہے، کیونکہ اصل لفظ جلاب ہے جو گلاب کا معرب ہے، اس کے معنی آب ورد ہیں، کسی کاتب کی غلطی سے حلاب بن گیا ہے۔ (فتح الباري:480/1) واضح رہے کہ یہ تمام احتمالات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور امام بخاری ؒ کی دقت نظر اور علمی جامعیت سے انھیں دور کا واسطہ بھی نہیں۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ میں نے بعض حضرات کی جن کا نام اب مجھے یاد نہیں آ رہا یہ توجیہ دیکھی ہے کہ عنوان میں الطیب سے مقصود حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ وہ احرام کے وقت رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگایا کرتی تھیں اور غسل چونکہ سنن احرام سے ہے، اس لیے گویا خوشبو وقت غسل ثابت ہوئی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر غسل کے وقت آپ کی عادت خوشبو لگانے کی نہ تھی اور آپ نے خوشبو کے بغیر بھی غسل فرمایا ہے۔ وہ اس توجیہ کو احسن الاجوبۃ قراردیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ اس توجیہ کی تقویت اس امر سے ہوتی ہے کہ سات ابواب کے بعد امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔’’جس نے خوشبو لگائی پھر غسل کیا اور خوشبو کے اثرات باقی رہے۔‘‘ پھر حدیث عائشہ ؓ ذکر کی ہے جس سے خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنا ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اس عنوان میں (باب من بدأ بالحلاب) سے غسل کا برتن مراد ہے جسے آپ نے بغرض غسل طلب فرمایا اور من بدأ بالطیب کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے غسل کا ارادہ کرتے وقت خوشبو کا استعمال فرمایا ۔ عنوان میں دونوں امر ملحوظ ہیں، لیکن پیش کردہ حدیث میں آپ کی مداومت بداءت غسل ثابت ہوتی ہے اور غسل کے بعد خوشبو لگانا تو آپ کی عام عادت تھی اور قبل از غسل خوشبو لگانا اس کی طرف اشارہ حدیث عائشہ ؓ سے کردیا۔ (فتح الباري:481/1) لیکن حدیث عائشہ ؓ میں جس خوشبو کا ذکر ہے وہ حصول نشاط کے لیے معلوم ہوتی ہے کہ خوشبو محرک ہونے کی وجہ سے جماع کے لیے مفید ہوتی ہے اور اس کا غسل سے کوئی تعلق نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
محمد بن مثنیٰ نے ہم سے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم (ضحاک بن مخلد) نے بیان کیا، وہ حنظلہ بن ابی سفیان سے، وہ قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ ؓ سے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ جب غسل جنابت کرنا چاہتے تو حلاب کی طرح ایک چیز منگاتے۔ پھر (پانی کا چلو) اپنے ہاتھ میں لیتے اور سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتدا کرتے۔ پھر بائیں حصہ کا غسل کرتے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے بیچ میں لگاتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حلاب کے متعلق مجمع البحار میں ہے : "الحلاب" بكسر مهملة وخفة لام إناء يسع قدر حلب ناقة أي كان يبتدئ بطلب ظرف، وبطلب طيب، أو أراد به إناء الطيب يعني بدأ تارة بطلب ظرف، وتارة بطلب نفس الطيب، وروى بشدة لام وبجيم وهو خطأ.''(مجمع بحار الأنوار:555/1) ’’یعنی حلاب ایک برتن ہوتا تھا جس میں ایک اونٹنی کا دودھ سما سکے۔ آ پ وہ برتن پانی سے پر کر کے منگاتے اور اس سے غسل فرماتے یا اس سے خوشبو رکھنے کا برتن مراد لیا ہے۔ یعنی کبھی محض آپ برتن منگاتے کبھی محض خوشبو۔‘‘ ترجمہ باب کا مطلب یہ ہے کہ خواہ غسل پہلے پانی سے شروع کرے جو حلاب جیسے برتن میں بھرا ہوا ہو، پھرغسل کے بعد خوشبو لگائے یا پہلے خوشبو لگا کر بعد میں نہائے۔ یہاں باب کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت کیا اور دوسرے مطلب کے لیے وہ حدیث ہے جو آگے آرہی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے خوشبو لگانے کے بعد اپنی بیویوں سے صحبت کی اور صحبت کے بعد غسل ہوتا ہے توغسل سے قبل خوشبو لگانا ثابت ہوا۔ شاہ ولی اللہ ؒ مرحوم نے فرمایا ہے کہ حلاب سے مراد بیجوں کا ایک شیرہ ہے جو عرب لوگ غسل سے پہلے لگایا کرتے تھے۔ جیسے آج کل صابون یا بٹنہ یا تیل اور بیسن ملاکر لگاتے ہیں پھر نہایا کرتے ہیں۔ بعضوں نے اس لفظ کو جیم کے ساتھ جلاب پڑھا ہے اور اسے گلاب کا معرب قراردیا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Whenever the Prophet (ﷺ) took the bath of Janaba (sexual relation or wet dream) he asked for the Hilab or some other scent. He used to take it in his hand, rub it first over the right side of his head and then over the left and then rub the middle of his head with both hands.