باب : اپنے کسی دوست کو خاص اس دن تحفہ بھیجنا جب وہ اپنی ایک خاص بیوی کے پاس ہو
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Chosing the to give a gift)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2581.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ک بیویوں کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت صفیہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ تھیں، جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ ؓ کے ساتھ باقی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی (والہانہ) محبت کو جانتے تھے، اس لیے جب کسی کے پاس تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا (تو) اس میں تاخیر کرتا حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تشریف فرماہوتے تو ہدیہ بھیجنے والا رسول اللہ ﷺ کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں ہدیہ بھیجتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ام سلمہ ؓ کے گروپ نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ جس کسی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تحفہ بھیجنا ہوتو آپ اپنی جس بیوی کے ہاں مقیم ہوں وہیں تحفہ بھیجا کرے۔ ان کے کہنے کے مطابق حضرت ام سلمہ ؓ نےآپ سے گفتگو کی لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب اس گروپ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے پوچھا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ انھوں نے ان سے کہا: آپ پھر بات کریں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب باری کے دن آپ تشریف لائے تو انھوں نے پھر بات چھیڑی لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب امہات المومنین رضوان اللہ عنھن أجمعین نے حضرت ام سلمہ ؓ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا: آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے ان سے کہا: تم یہ بات کرتی رہو جب تک آپ جواب نہیں دیتے۔ پھر جب ام سلمہ ؓ کی باری آئی توانھوں نے آپ سے عرض کیا، تب آپ نے فرمایا: ’’تم عائشہ ؓ کے بارے میں مجھے اذیت نہ دو کیونکہ میں جب عائشہ ؓ کے علاوہ کسی اور بیوی کے کپڑوں میں ہوتا ہوں تو مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی۔‘‘ حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں آپ کو اذیت پہنچانے سے توبہ کرتی ہوں۔ پھر امہات المومنین رضوان اللہ عنھن أجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کو بلایا اور انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ کی ازواج آپ کو اللہ کی قسم دیتی ہیں کہ آپ حضرت ابوبکر ؓ کی بیٹی کے متعلق انصاف کریں، چنانچہ حضرت فاطمہ ؓ نے بھی جاکر آپ سے بات چیت کی تو آپ نے فرمایا: ’’دختر من! کیا تو اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں؟‘‘ سیدہ فاطمہ ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج مطہرات کو جواب سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا: دوبارہ جاؤ لیکن حضرت فاطمہ ؓ نے دوبارہ جانے سے انکار کردیا۔ آخر انھوں نے حضرت زینب بنت جحش ؓ کو بھیجا۔ وہ آئیں تو سخت گفتگو کرنے لگیں اور کہا کہ آپ کی ازواج ابن ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کی قسم دے کر انصاف مانگتی ہیں، ان کی آواز بلند ہوئی یہاں تک کہ حضرت عائشہ ؓ سے لے دے شروع کردی جو وہاں بیٹھی ہوئی تھیں بلکہ انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ جواب دیتی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ بولیں اور حضرت زینب ؓ کو جواب دیتی رہیں یہاں تک کہ انھیں چپ کرادیا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’ آخر یہ ابو بکر ؓ کی بیٹی ہیں۔‘‘ امام بخاری ؒ کہتے ہیں: آخر کلام، یعنی حضرت فاطمہ ؓ کا قصہ ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بھی بیان کیا ہے، اس نے امام زہریؒ سے، انھوں نے محمد بن عبدالرحمان سے اسے روایت کیا ہے۔ ابو مروان نے ہشام سے، انھوں نے عروہ سے روایت کیا کہ لوگ اپنے تحائف بھیجنے میں حضرت عائشہ ؓ کی باری کے منتظر رہتے تھے۔ ایک دوسری سند سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھی جب سیدہ فاطمہ ؓ نے اجازت طلب کی۔
تشریح:
(1) اس طویل حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحائف و ہدایا اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کر سکتا ہے۔ یہ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے بھیجے، اس پر زبردستی کوئی حکم نہیں ٹھونسا جا سکتا کہ فلاں وقت بھیجے اور فلاں وقت نہ بھیجے۔ (2) رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ ؓ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو ان نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ ؓ کے متعلق زبان درازی کرتے ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا: ’’ آخر یہ حضرت ابوبکر ؓ کی دختر ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ شریف الطبع، زیرک و دانا اور معاملہ فہم ہیں جیسا کہ ان کے والد گرامی نہایت شریف اور عقلمند انسان ہیں۔ (فتح الباري:256/5) رسول اللہ ﷺ کا مقصد فتنے کا سدباب تھا۔ اگر فریقین دل کی بھڑاس نہ نکالتے تو قصہ دراز ہو جاتا۔ اچھا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قصہ کوتاہ (مختصر) ہو گیا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2492
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2581
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2581
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2581
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ک بیویوں کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت صفیہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ تھیں، جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ ؓ کے ساتھ باقی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی (والہانہ) محبت کو جانتے تھے، اس لیے جب کسی کے پاس تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا (تو) اس میں تاخیر کرتا حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تشریف فرماہوتے تو ہدیہ بھیجنے والا رسول اللہ ﷺ کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں ہدیہ بھیجتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ام سلمہ ؓ کے گروپ نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ جس کسی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تحفہ بھیجنا ہوتو آپ اپنی جس بیوی کے ہاں مقیم ہوں وہیں تحفہ بھیجا کرے۔ ان کے کہنے کے مطابق حضرت ام سلمہ ؓ نےآپ سے گفتگو کی لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب اس گروپ نے حضرت ام سلمہ ؓ سے پوچھا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ انھوں نے ان سے کہا: آپ پھر بات کریں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب باری کے دن آپ تشریف لائے تو انھوں نے پھر بات چھیڑی لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب امہات المومنین رضوان اللہ عنھن أجمعین نے حضرت ام سلمہ ؓ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا: آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے ان سے کہا: تم یہ بات کرتی رہو جب تک آپ جواب نہیں دیتے۔ پھر جب ام سلمہ ؓ کی باری آئی توانھوں نے آپ سے عرض کیا، تب آپ نے فرمایا: ’’تم عائشہ ؓ کے بارے میں مجھے اذیت نہ دو کیونکہ میں جب عائشہ ؓ کے علاوہ کسی اور بیوی کے کپڑوں میں ہوتا ہوں تو مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی۔‘‘ حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں آپ کو اذیت پہنچانے سے توبہ کرتی ہوں۔ پھر امہات المومنین رضوان اللہ عنھن أجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کو بلایا اور انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ کی ازواج آپ کو اللہ کی قسم دیتی ہیں کہ آپ حضرت ابوبکر ؓ کی بیٹی کے متعلق انصاف کریں، چنانچہ حضرت فاطمہ ؓ نے بھی جاکر آپ سے بات چیت کی تو آپ نے فرمایا: ’’دختر من! کیا تو اس سے محبت نہیں کرتی جس سے میں محبت کرتا ہوں؟‘‘ سیدہ فاطمہ ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج مطہرات کو جواب سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا: دوبارہ جاؤ لیکن حضرت فاطمہ ؓ نے دوبارہ جانے سے انکار کردیا۔ آخر انھوں نے حضرت زینب بنت جحش ؓ کو بھیجا۔ وہ آئیں تو سخت گفتگو کرنے لگیں اور کہا کہ آپ کی ازواج ابن ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کی قسم دے کر انصاف مانگتی ہیں، ان کی آواز بلند ہوئی یہاں تک کہ حضرت عائشہ ؓ سے لے دے شروع کردی جو وہاں بیٹھی ہوئی تھیں بلکہ انھیں برا بھلا کہنا شروع کردیا۔ رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ جواب دیتی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ حضرت عائشہ ؓ بولیں اور حضرت زینب ؓ کو جواب دیتی رہیں یہاں تک کہ انھیں چپ کرادیا۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’ آخر یہ ابو بکر ؓ کی بیٹی ہیں۔‘‘ امام بخاری ؒ کہتے ہیں: آخر کلام، یعنی حضرت فاطمہ ؓ کا قصہ ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بھی بیان کیا ہے، اس نے امام زہریؒ سے، انھوں نے محمد بن عبدالرحمان سے اسے روایت کیا ہے۔ ابو مروان نے ہشام سے، انھوں نے عروہ سے روایت کیا کہ لوگ اپنے تحائف بھیجنے میں حضرت عائشہ ؓ کی باری کے منتظر رہتے تھے۔ ایک دوسری سند سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نبی کریم ﷺ کے پاس تھی جب سیدہ فاطمہ ؓ نے اجازت طلب کی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس طویل حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحائف و ہدایا اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کر سکتا ہے۔ یہ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے بھیجے، اس پر زبردستی کوئی حکم نہیں ٹھونسا جا سکتا کہ فلاں وقت بھیجے اور فلاں وقت نہ بھیجے۔ (2) رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ ؓ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو ان نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ ؓ کے متعلق زبان درازی کرتے ہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا: ’’ آخر یہ حضرت ابوبکر ؓ کی دختر ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ شریف الطبع، زیرک و دانا اور معاملہ فہم ہیں جیسا کہ ان کے والد گرامی نہایت شریف اور عقلمند انسان ہیں۔ (فتح الباري:256/5) رسول اللہ ﷺ کا مقصد فتنے کا سدباب تھا۔ اگر فریقین دل کی بھڑاس نہ نکالتے تو قصہ دراز ہو جاتا۔ اچھا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قصہ کوتاہ (مختصر) ہو گیا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس نے، ان سے سلیمان نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی ازواج کی دو ٹکڑیاں تھیں۔ ایک میں عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ اور دوسری میں ام سلمہ اور بقیہ تمام ازواج مطہرات تھیں۔ مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ کی عائشہ ؓ کے ساتھ محبت کا علم تھا اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا۔ جب رسول اللہ ﷺ کی عائشہ ؓ کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجتے۔ اس پر ام سلہ ؓ کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور ام سلمہ ؓ سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں تاکہ آپ لوگوں سے فرمادیں کہ جسے آپ کے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپ ﷺ ہوں وہیں بھیجا کرے۔ چنانچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا لیکن آپ نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ان خواتین نے پوچھا تو انہوں نے بتادیا کہ مجھے آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ کہو۔ انہوں نے بیان کیا پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا۔ اس مرتبہ بھی آپ ﷺ نے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ازواج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپ ﷺ کو اس مسئلہ پر بلواو تو سہی۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ فرمایا۔ عائشہ ؓ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو۔ عائشہ ؓ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ آپ ﷺ کے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا، آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر ؓ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپ ﷺ سے بات چیت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا، میری بیٹی ! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اس کے بعد وہ واپس آگئیں اور ازواج کو اطلاع دی۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جانے کے لیے کہا۔ لیکن آپ نے دوبارہ جانے سے انکار کیا تو انہوں نے زینب بنت جحش ؓ کو بھیجا۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے خدا کے لیے انصاف مانگتی ہیں اور ان کی آواز اونچی ہوگئی۔ عائشہ ؓ وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے (ان کے منہ پر) انہیں بھی برا بھلا کہا۔ رسول اللہ ﷺ عائشہ ؓ کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ بولتی ہیں یا نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عائشہ ؓ بھی بول پڑیں اور زینب ؓ کی باتوں کا جواب دینے لگیں اور آخر انہیں خاموش کردیا۔ پھر رسول کریم ﷺ نے عائشہ ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ امام بخاری ؒ نے کہا کہ آخر کلام فاطمہ ؓ کے واقعہ سے متعلق ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے زہری سے روایت کی اور انہوں نے محمد بن عبدالرحمن سے اور ابومروان نے بیان کیا کہ ہشام سے اور انہوں نے عروہ سے کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے حضرت عائشہ ؓ کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اور ہشام کی ایک روایت قریش کے ایک صاحب اور ایک دوسرے صاحب سے جو غلاموں میں سے تھے، بھی ہے۔ وہ زہری سے نقل کرتے ہیں اور وہ محمد بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام سے کہ حضرت عائشہ ؓ نے کہا جب فاطمہ ؓ نے (اندر آنے کی) اجازت چاہی تو میں اس وقت آپ ﷺ ہی کی خدمت میں موجود تھا۔
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی بعض بیویاں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں جمع ہوئیں اور یہ کہا کہ تم آنحضرت ﷺ سے عرض کرو کہ آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ وہ ہدئیے اور تحائف بھیجنے میں یہ راہ نہ دیکھتے رہیں کہ آنحضرت ﷺ فلاں بیوی کے گھر تشریف لے جائیں تو ہم تحائف بھیجیں، بلکہ بلا قید آپ کسی بیوی کے پاس ہوں بھیج دیا کریں۔ چنانچہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کے معروضہ پر کچھ التفات نہیں فرمایا۔ وجہ التفات نہ فرمانے کی یہ تھی کہ ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کی درخواست معقول نہ تھی۔ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی جب چاہے بھیجے، اس کو جبراً کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا کہ فلاں وقت بھیجے فلاں وقت نہ بھیجے۔ اس طویل حدیث میں اسی واقعہ کی تفصیل مذکور ہے اور حدیث اور باب میں مطابقت ظاہرہے۔ جہاں تک بیویوں کے حقوق واجبہ کا تعلق تھا آنحضرت ﷺ نے سب کے لیے ایک ایک رات کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی اور اسی کے مطابق عمل درآمد ہورہا تھا۔ چونکہ حضرت عائشہ ؓ کے کچھ خصوصی اوصاف حسنہ تھے اور آپ انہیں کی وجہ سے ان سے زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے تحائف بھیجنے والے بعض صحابہ ؓ نے یہ سوچا کہ جب حضور ﷺ عائشہ ؓ کی باری میں ان کے ہاں آیا کریں اس وقت ہدیہ تحفہ بھیجا کریں گے۔ اس پر دوسری ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کی خدمت میں درخواست کی کہ صحابہ ؓ کو اس خصوصیت سے روک دیں۔ مطالبہ درست نہ تھا لہٰذا آپ ﷺ نے اس پر کوئی توجہ نہ فرمائی حتیٰ کہ حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کو درمیان میں لایاگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے میری پیاری بیٹی! کیا تم ان کو دوست نہیں رکھتی جن کو میں دوست رکھتا ہوں۔ اس پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا ہاں حضور بے شک میں بھی جسے آپ دوست رکھتے ہیں اس کو دوست رکھتی ہوں۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ ہمیشہ حضرت عائشہ ؓ کو دوست رکھتی رہیں۔ حضرت علی ؓ مناقبت عائشہ ؓ میں فرماتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ دنیا و آخرت میں رسول کریم ﷺ کی بیوی ہیں۔ خدا کی پھٹکار ہو ان بدزبان بے لگام نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شان میں زبان درازی کریں۔ هداهم اﷲ إلیٰ صراط مستقیم، آمین۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ہیں اور جس طرح حضرت صدیق اکبر ؓ صحابہ کرام میں زیادہ علم و فضل رکھتے تھے ویسے ہی ان کی صاحبزادی بھی عورتوں میں عالمہ اور فاضلہ اور مقررہ تھیں۔ ہزاروں اشعار ان کو برزبان یاد تھے۔ فصاحت اور بلاغت میں کوئی ان کا مثیل نہ تھا۔ وذلك فضل اﷲ یؤتیه من یشاء اور سب سے بڑی فضیلت یہ کہ سرکار رسالت نے ان کو بہت سی خصوصیات کی بنا پر اپنی خاص رفیقہ حیات قرار دیا۔ حضرت جبرائیل ؑ نے آپ کا خاص اکرام کیا۔ و کفی به فضلا حضرت امام بخاری ؒ اس طویل حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ باب کا مضمون اس سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحفے تحائف اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کرسکتا ہے۔ الحمد للہ اپریل1970ءکی پانچ تاریخ تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں یہ پارہ اس حدیث تک پڑھاگیا اور احادیث نبویہ کے لفظ لفظ پر غور و فکر کرکے اللہ سے کعبہ میں دعاءکی گئی کہ وہ مجھے اس کے سمجھنے اور تحقیق حق کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ و مختصر جامع شرح لکھنے کی توفیق عطا کرے اور اس باقیات الصالحات کا ثواب عظیم میرے مرحوم بھائی حاجی محمد علی عرف بلاری پیارو قریشی بنگلور کے حق میں بھی قبول کرے جن کی طرف سے حج بدل کرنے کے سلسلے میں مجھ کو زیارت حرمین شریفین کی یہ سعادت نصیب ہوئی۔ ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Urwa from ' Aisha (RA): The wives of Allah's Apostle (ﷺ) were in two groups. One group consisted of 'Aisha (RA), Hafsah (RA), Safiyya and Sauda; and the other group consisted of Um Salama and the other wives of Allah's Apostle. The Muslims knew that Allah's Apostle (ﷺ) loved 'Aisha (RA), so if any of them had a gift and wished to give to Allah's Apostle, he would delay it, till Allah's Apostle (ﷺ) had come to 'Aisha's home and then he would send his gift to Allah's Apostle (ﷺ) in her home. The group of Um Salama discussed the matter together and decided that Um Salama should request Allah's Apostle (ﷺ) to tell the people to send their gifts to him in whatever wife's house he was. Um Salama told Allah's Apostle (ﷺ) of what they had said, but he did not reply. Then they (those wives) asked Um Salama about it. She said, "He did not say anything to me." They asked her to talk to him again. She talked to him again when she met him on her day, but he gave no reply. When they asked her, she replied that he had given no reply. They said to her, "Talk to him till he gives you a reply." When it was her turn, she talked to him again. He then said to her, "Do not hurt me regarding Aisha (RA) , as the Divine Inspirations do not come to me on any of the beds except that of Aisha (RA) ." On that Um Salama said, "I repent to Allah for hurting you." Then the group of Um Salama called Fatima, the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) and sent her to Allah's Apostle (ﷺ) to say to him, "Your wives request to treat them and the daughter of Abu Bakr (RA) on equal terms." Then Fatima conveyed the message to him. The Prophet (ﷺ) said, "O my daughter! Don't you love whom I love?" She replied in the affirmative and returned and told them of the situation. They requested her to go to him again but she refused. They then sent Zainab bint Jahsh who went to him and used harsh words saying, "Your wives request you to treat them and the daughter of Ibn Abu Quhafa on equal terms." On that she raised her voice and abused 'Aisha (RA) to her face so much so that Allah's Apostle (ﷺ) looked at 'Aisha (RA) to see whether she would retort. 'Aisha (RA) started replying to Zainab till she silenced her. The Prophet (ﷺ) then looked at 'Aisha (RA) and said, "She is really the daughter of Abu Bakr."