Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: Giving gifts to one's sons)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اپنے بعض لڑکوں کو اگر کوئی چیز ہبہ میں دی تو جب تک انصاف کے ساتھ تمام لڑکوں کو برابر نہ دے، یہ ہبہ نہیں ہوگا اور ایسے ظلم کے ہبہ پر گواہ ہونا بھی درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عطایا کے سلسلہ میں اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اور کیا باپ اپنا عط یہ واپس بھی لے سکتا ہے؟ اور باپ اپنے لڑکے کے مال میں سے دستور کے مطابق جب کہ ظلم کا ارادہ نہ ہو لے سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک اونٹ خریدا اور پھر اسے آپ نے عبداللہ بن عمرؓکو عطا فرمایا اور فرمایا کہ اس کا جو چاہے کر۔ تشریح : اہل حدیث اور شافعی اور احمد اور جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ ہبہ میں رجوع جائز نہیں۔ مگر باپ جو اپنی اولاد کو ہبہ کرے، اس میں رجوع کرسکتا ہے۔ ترمذی اور حاکم نے روایت کیا اور کہا صحیح ہے۔ کسی شخص کو درست نہیں کہ اپنے عطیہ یا ہبہ میں رجوع کرے مگر والد جو اپنی اولاد کو دے اور حنفیہ نے اس میں اختلاف کیا ہے اور ان کے نزدیک قرابت دار مانع رجوع ہبہ ہے۔
2586.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس جیسا (غلام) دیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’اپنا عطیہ واپس لے لو۔‘‘
تشریح:
(1) یہ روایت اپنے مفہوم میں واضح ہے، البتہ فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کو عطیہ دیتے وقت فرق کر سکتا ہے یا نہیں؟ امام احمد ؒ اور دیگر کئی ائمہ کا موقف ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دینا جائز ہے، تاہم جمہور کا موقف یہ ہے کہ اولاد میں مساوات اور عدل و انصاف ضروری ہے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ فرق نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرق پر مبنی عطیہ واپس لینے کا حکم دیا، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2650) (2) اگر کوئی بیٹا وغیرہ معذور ہے، وہ کام کاج کے قابل نہیں تو عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی اولاد کو باپ امتیازی حیثیت سے کچھ دے۔ اگر مساوات کا خیال رکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں دے گا تو زندگی کے مسائل سلجھانے کے لیے اس نے معذور اولاد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ایسا کرنا دین اسلام کے خلاف ہے۔ باپ کو چاہیے کہ معذور اولاد کے لیے کوئی رقم یا جائیداد مختص کر دے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2496
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2586
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2586
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2586
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے چار مسائل ذکر فرمائے: ٭ کیا انسان اپنی اولاد کو کوئی چیز ہبہ کر سکتا ہے؟ اس مسئلے کی ضرورت اس لیے ہے کہ ایک حدیث کے مطابق اولاد اور اس کا مال والد کے لیے ہے، اس صورت میں اگر اولاد کو ہبہ دیا جائے تو اپنے آپ کو ہبہ کرنا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ ٭ اولاد کو ہبہ کرتے وقت ان میں مساوات اور عدل و انصاف کرنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ایک کو دے اور دوسرے کو محروم کر دے، یہ انصاف کے منافی ہے جبکہ اولاد کے معاملے میں عدل کا حکم ہے۔ ٭ والد اپنی اولاد سے اپنی ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ ایسا کرنا حدیث سے ثابت ہے اور جو اسے ناجائز سمجھتے ہیں ان کا موقف درست نہیں۔ ٭ والد اپنی اولاد کے مال سے کس حد تک لے سکتا ہے؟ اس بارے میں واضح فرمایا کہ دستور کے مطابق کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں۔ ظلم و زیادتی کسی صورت بھی جائز نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دو معلق روایات ذکر کی ہیں: پہلی روایت تو خود متصل سند سے بیان کر دی ہے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ۔۔۔۔،حدیث:2587) لیکن اس میں "عطیہ" کے الفاظ نہیں ہیں، البتہ امام طحاوی نے یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ اپنی اولاد کو عطیہ دیتے وقت مساوات کیا کرو۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:6/177) دوسری حدیث بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی موصولاً بیان کی ہے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ۔۔۔۔،حدیث:2610) اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیتے کہ تم اپنا اونٹ اپنے بیٹے کو دے دو تو ایسا کرنے سے اولاد میں مساوات نہ ہو سکتی، اس لیے آپ نے خرید کر اسے ہبہ کر دیا، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ مساوات کا اعتبار کرنا باپ کے لیے ہے دوسروں کے لیے نہیں وہ جسے چاہیں جتنا مرضی عطیہ دیں۔ (فتح الباری:5/261)
اور اپنے بعض لڑکوں کو اگر کوئی چیز ہبہ میں دی تو جب تک انصاف کے ساتھ تمام لڑکوں کو برابر نہ دے، یہ ہبہ نہیں ہوگا اور ایسے ظلم کے ہبہ پر گواہ ہونا بھی درست نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عطایا کے سلسلہ میں اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو، اور کیا باپ اپنا عط یہ واپس بھی لے سکتا ہے؟ اور باپ اپنے لڑکے کے مال میں سے دستور کے مطابق جب کہ ظلم کا ارادہ نہ ہو لے سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک اونٹ خریدا اور پھر اسے آپ نے عبداللہ بن عمرؓکو عطا فرمایا اور فرمایا کہ اس کا جو چاہے کر۔ تشریح : اہل حدیث اور شافعی اور احمد اور جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ ہبہ میں رجوع جائز نہیں۔ مگر باپ جو اپنی اولاد کو ہبہ کرے، اس میں رجوع کرسکتا ہے۔ ترمذی اور حاکم نے روایت کیا اور کہا صحیح ہے۔ کسی شخص کو درست نہیں کہ اپنے عطیہ یا ہبہ میں رجوع کرے مگر والد جو اپنی اولاد کو دے اور حنفیہ نے اس میں اختلاف کیا ہے اور ان کے نزدیک قرابت دار مانع رجوع ہبہ ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا: میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اس جیسا (غلام) دیا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’اپنا عطیہ واپس لے لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ روایت اپنے مفہوم میں واضح ہے، البتہ فقہاء نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بیٹوں کو عطیہ دیتے وقت فرق کر سکتا ہے یا نہیں؟ امام احمد ؒ اور دیگر کئی ائمہ کا موقف ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دوگنا دینا جائز ہے، تاہم جمہور کا موقف یہ ہے کہ اولاد میں مساوات اور عدل و انصاف ضروری ہے۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ فرق نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرق پر مبنی عطیہ واپس لینے کا حکم دیا، پھر دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم پر گواہی نہیں دے سکتا۔‘‘ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث:2650) (2) اگر کوئی بیٹا وغیرہ معذور ہے، وہ کام کاج کے قابل نہیں تو عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی اولاد کو باپ امتیازی حیثیت سے کچھ دے۔ اگر مساوات کا خیال رکھتے ہوئے اسے کچھ نہیں دے گا تو زندگی کے مسائل سلجھانے کے لیے اس نے معذور اولاد کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ایسا کرنا دین اسلام کے خلاف ہے۔ باپ کو چاہیے کہ معذور اولاد کے لیے کوئی رقم یا جائیداد مختص کر دے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
جب اپنے کچھ بچوں کو کوئی چیز بطور ہبہ دی تو جب تک انصاف کے ساتھ تمام اولاد کو برابر نہ دے تو یہ ہبہ جائز نہیں ہوگا، نیز اس طرح کے غیر منصفانہ ہبہ پر گواہی نہ دی جائے۔ نبی کریم ﷺکا ا رشاد گرامی ہے: "عطیہ دینے میں اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو۔ "کیا والد کے لیے جائز ہے کہ وہ ہبہ کرکے واپس لے لے؟باپ اپنی اولاد کے مال سے دستور کے مطابق کھا سکتا ہے جبکہ وہ حد سے تجاوز نہ کرے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک اونٹ خریدا پھر وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو دے دیا اور فرمایا: "اس سے تم جو چاہو کرو۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ابن شہاب سے، وہ حمید بن عبدالرحمن اور محمد بن نعمان بن بشیر سے اور ان سے نعمان بن بشیر ؓ نے کہا ان کے والد انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام بطور ہبہ دیا ہے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، کیا ایسا ہی غلام اپنے دوسرے لڑکوں کو بھی دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا کہ پھر (ان سے بھی) واپس لے لے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اولاد کے لیے ہبہ یا عطیہ کے سلسلے میں انصاف ضروری ہے جو دیا جائے سب کو برابر برابر دیا جائے، ورنہ ظلم ہوگا۔ والد کے لیے ثابت ہوا کہ وہ اولاد سے اپنا عطیہ واپس بھی لے سکتا ہے اور اولاد کے مال میں سے ضرورت کے وقت دستور کے موافق کھا بھی سکتا ہے۔ ابن حبان اور طبرانی کی روایت میں یوں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا۔ ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ کا یہی قول ہے کہ اولاد میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ نعمان کے باپ نے اس کو باغ دیا تھا اور اکثر روایتوں میں غلام مذکور ہے۔ حافظ نے کہا، طاؤس اور ثوری اور اسحاق بھی امام احمد کے ساتھ متفق ہیں۔ بعض مالکیہ کہتے ہیں کہ ایسا ہبہ ہی باطل ہے اور امام احمد صحیح کہتے ہیں پر رجوع واجب جانتے ہیں اور جمہور کا قول یہ ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں عدل اور انصاف کرنا مستحب ہے۔ اگر کسی اولاد کو زیادہ دے تو ہبہ صحیح ہوگا لیکن مکروہ ہوگا، حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں۔ (وحیدی) حافظ ابن حجر نے یہاں عمل الخلیفتین کو نقل کیا ہے اور بتلایا ہے کہ اولاد کو ہبہ کرنے میں مساوات کا حکم استحباب کے لیے ہے۔ مؤطا میں سند صحیح کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؒ نے اپنے مرض وفات میں حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا، إنی کنت نحلت نحلا فلولا کنت أخترتیي لکان لك و إنما هو الیوم للوارثیعنی میں نے تجھ کوکچھ بطور بخشش دیناچاہا تھا، اگر تم اس کو قبول کرلیتیں تو وہ تمہارا ہوجاتا اور اب تو وہ وارثوں ہی میں تقسیم ہوگا۔ حضرت عمر ؓ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ بطور بخشش دیا تھا۔ مانعین نے ان کا یہ جواب دیا ہے کہ شیخین کے ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے سب راضی تھے۔ اس صورت میں جواز میں کوئی شبہ نہیں۔ بہر حال بہتر و اولیٰ مساوات ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nu'man bin Bashir (RA): that his father took him to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "I have given this son of mine a slave." The Prophet (ﷺ) asked, "Have you given all your sons the like?" He replied in the negative. The Prophet (ﷺ) said, "Take back your gift then."