باب : غلام لونڈی اور سامان پر کیوں کر قبضہ ہوتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: To take over the slave and property (given as gift))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے تو اسے خریدا پھر فرمایا کہ عبداللہ یہ اونٹ تو لے لے۔
2599.
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کچھ قبائیں تقسیم کیں لیکن حضرت مخرمہ ؓ کو آپ نے کوئی قبانہ دی جس پر حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: بیٹے!تم رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے ہمراہ چلو۔ میں ان کے ہمراہ چلا گیا۔ پھر انھوں نے کہا: اندر جاؤ اور آپ ﷺ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ مسور ؓ کہتے ہیں: میں آپ ﷺ کو بلا لایا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو ان قباؤں میں سے ایک قبا آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: ’’ہم نے یہ قباتیرے لیے چھپا رکھی تھی۔‘‘ حضرت مسور کا بیان ہے کہ مخرمہ ؓ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہبہ میں دوسرے کی ملکیت اس وقت ثابت ہو گی جب وہ ہبہ اس کے قبضے میں آ جائے، اس سے پہلے پہلے اس میں تصرف نہیں کیا جا سکتا۔ غلام اور منقولات پر قبضے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ موہوب لہ کی طرف منتقل کر دیے جائیں جیسا کہ رسول اللہ ؤنے وہ قبا حضرت مخرمہ ؓ کے حوالے کی تو ان کا قبضہ مکمل ہوا۔ جمہور کا یہی موقف ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ صرف عقد سے ہبہ تمام ہو جاتا ہے۔ اگر قبضے سے پہلے ہبہ کرنے والا کسی اور کو ہبہ کر دے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔ لیکن یہ موقف محل نظر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2509
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2599
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2599
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2599
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
یہ حدیث اور اس کے فوائد کتاب البیوع میں بیان ہو چکے ہیں۔ (صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2155) قبضے کی صورت یہ ہے کہ ہبہ کرنے والا ہبہ شدہ چیز موہوب الیہ کے حوالے کر دے اور وہ اسے اپنی تحویل میں لے لے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اونٹ پر سواری کر کے اسے اپنے قبضے میں لیا تھا۔
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم ﷺ نے پہلے تو اسے خریدا پھر فرمایا کہ عبداللہ یہ اونٹ تو لے لے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کچھ قبائیں تقسیم کیں لیکن حضرت مخرمہ ؓ کو آپ نے کوئی قبانہ دی جس پر حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: بیٹے!تم رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے ہمراہ چلو۔ میں ان کے ہمراہ چلا گیا۔ پھر انھوں نے کہا: اندر جاؤ اور آپ ﷺ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ مسور ؓ کہتے ہیں: میں آپ ﷺ کو بلا لایا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو ان قباؤں میں سے ایک قبا آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: ’’ہم نے یہ قباتیرے لیے چھپا رکھی تھی۔‘‘ حضرت مسور کا بیان ہے کہ مخرمہ ؓ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہبہ میں دوسرے کی ملکیت اس وقت ثابت ہو گی جب وہ ہبہ اس کے قبضے میں آ جائے، اس سے پہلے پہلے اس میں تصرف نہیں کیا جا سکتا۔ غلام اور منقولات پر قبضے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ موہوب لہ کی طرف منتقل کر دیے جائیں جیسا کہ رسول اللہ ؤنے وہ قبا حضرت مخرمہ ؓ کے حوالے کی تو ان کا قبضہ مکمل ہوا۔ جمہور کا یہی موقف ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ صرف عقد سے ہبہ تمام ہو جاتا ہے۔ اگر قبضے سے پہلے ہبہ کرنے والا کسی اور کو ہبہ کر دے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔ لیکن یہ موقف محل نظر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں: میں ایک منہ زور اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریمﷺ نے اسے خرید کرفرمایا: "عبداللہ! یہ تمہارا ہے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن ابی ملیکہ سے اور وہ مسور بن مخرمہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ ؓ کو اس میں سے ایک بھی نہیں دی۔ انہوں نے (مجھ سے) کہا، بیٹے چلو، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں چلیں۔ میں ان کے ساتھ چلا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اندر جاو اور حضور اکرم ﷺ سے عرض کرو کہ میں آپ کا منتظر کھڑا ہوا ہوں، چنانچہ میں اندر گیا اور حضور اکرم ﷺ کو بلا لایا۔ آپ اس وقت انہیں قباؤں میں سے ایک قبا پہنے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی، لو اب یہ تمہاری ہے۔ مسور نے بیان کیا کہ (میرے والد) مخرمہ ؓ نے قبا کی طرف دیکھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، مخرمہ ! خوش ہوا یا نہیں؟
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے۔ والد نے کہا اب مخرمہ راضی ہوا۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ جب آپ نے وہ اچکن مخرمہ ؓ کو دی تو ان کا قبضہ پورا ہوگیا۔ جمہور کے نزدیک ہبہ میں جب تک موہوب لہ کا قبضہ نہ ہو اس کی ملک پوری نہیں ہوتی اورمالکیہ کے نزدیک صرف عقد سے ہبہ تمام ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر موہوب لہ اس وقت تک قبضہ نہ کرے کہ واہب کسی اور کو وہ چیز ہبہ کردے تو ہبہ باطل ہوجائے گا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Miswar bin Makhrama (RA): Allah's Apostle (ﷺ) distributed some cloaks but did not give anything thereof to Makhrama. Makhrama said (to me), "O son! accompany me to Allah's Apostle." When I went with him, he said, "Call him to me." I called him (i.e. the Prophet) for my father. He came out wearing one of those cloaks and said, "We kept this (cloak) for you, (Makhrama)." Makhrama looked at the cloak and said, "Makhrama is pleased," (or the Prophet (ﷺ) said), "Is Makhrama pleased?"