Sahi-Bukhari:
Gifts
(Chapter: The giving of a gift by one person to a group)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق سے کہا کہ میری بہن عائشہ ؓ سے وراثت میں مجھے غابہ ( کی زمین ) ملی تھی۔ معاو یہ رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا ایک لاکھ ( درہم ) دیا لیکن میں نے اسے نہیں بیچا، یہ ی تم دونوں کو ہد یہ ہے۔ یعنی مشاع کا ہبہ جائز ہے مثلاً ایک غلام یا ایک گھر چار آدمیوں کو ہبہ کیا۔ ہر ایک کا اس میں حصہ ہے۔ حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے، وہ کہتے ہیں جو چیز تقسیم کے قابل نہ ہو جیسے چکی یا حمام اس کا تو بطور مشاع ہبہ جائز ہے اور جو چیز تقسیم کے قابل ہو، جیسے گھر وغیرہ اس کا ہبہ بطور مشاع کے درست نہیں۔ ( وحیدی ) باب کا مطلب حضرت اسماءؓ کے اس طرز عمل سے نکلتا ہے کہ انہوں نے اپنی جائیداد بطور مشاع کے دونوں کو ہبہ کردی۔ قاسم بن محمد حضرت اسماءکے بھتیجے تھے اور عبداللہ بھتیجے کے بیٹے، غابہ مدینہ کے متصل ایک گاؤں تھا۔ جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی کچھ زمین تھی۔ حضرت اسماءنے ہر دو کو زمین ہبہ فرمائی۔ اسی سے ترجمۃ الباب نکلا۔
2602.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا جسے آپ نے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا اور بائیں جانب کچھ بزرگ تھے۔ آپ ﷺ نے اس لڑکے سے فرمایا: ’’اگر تم مجھے اجازت دوتو میں بچا ہوا پانی ان حضرات کو دےدوں؟‘‘ لڑکے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں آپ کے پس خوردہ (بچے ہوئے) سے اپنا حصہ کسی اور کو دینا پسند نہیں کرتا۔ آپ نے وہ پیالہ اس لڑکے کے ہاتھ میں تمھادیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکے سے کہا: ’’وہ اپنا حصہ بزرگوں کو ہبہ کر دے۔‘‘ اور بزرگ تعداد میں ایک سے زیادہ تھے۔ ان کا حصہ مشترک اور مشاع تھا، اس سے مشترکہ ہبہ کا جواز ثابت ہوا کہ ایک چیز کئی اشخاص کو مشترک طور پر ہبہ کی جا سکتی ہے۔ ابن بطال نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکے سے وہ حصہ طلب فرمایا جو مشاع تھا اور دوسروں سے الگ نہیں ہوا تھا۔ اس سے مشاع کے ہبہ کا جواز ثابت ہوا۔ (فتح الباري:277/5) اگر مشترک چیز کا ہبہ جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس لڑکے سے اجازت طلب نہ کرتے۔ (2) واضح رہے کہ حدیث میں ’’لڑکے‘‘ سے مراد حضرت ابن عباس ؓ ہیں جو بعد میں حبر الأمة اور ترجمان القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2512
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2602
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2602
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2602
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ ہبہ مصدر ہے جس کے معنی عطیہ دینے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں عوض کے بغیر کسی شخص کو تملیک اور تحفے کے طور پر کوئی مال یا حق دینا ہبہ کہلاتا ہے۔ اسے ہدیہ بھی کہتے ہیں۔ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہبہ کی تعریف یہ ہے: "کسی تک ایسی چیز پہنانا جو اسے نفع دے۔" حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ سے عام معنی مراد لیے ہیں۔ کسی کو قرض سے بری کرنا بھی ہبہ ہے۔ صدقہ کرنا بھی ہبہ ہے جس سے محض اخروی ثواب مطلوب ہو۔ ہدیہ وہ ہوتا ہے جس سے موہوب لہ کی تعظیم و تکریم مقصود ہو۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ہدایا کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے ہبہ کو عام معنی میں استعمال کیا ہے کیونکہ ہبہ تو یہ ہے کہ زندگی میں کسی شخص کو بلا عوض کسی چیز کا مالک بنا دیا جائے، جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تعریف سے بالاتر ہو کر بہت کچھ بیان کیا ہے، بلکہ آپ نے اس عنوان کے تحت منیحہ کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس سے مراد کسی کو دودھ والا جانور دینا ہے تاکہ وہ دودھ پی کر جانور واپس کر دے، یعنی منیحہ میں اصل کے بجائے صرف منافع کا عطیہ ہوتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ہبہ کے وسیع ترین مفہوم کے پیش نظر اس کے متعلق احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے ننانوے احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے تئیس معلق اور چھہتر متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں اڑسٹھ مکرر اور اکتیس خالص ہیں، نو احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی تیرہ آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر سینتیس عنوان قائم کیے ہیں۔ہبہ، ہدیہ اور صدقہ ضرورت مند حضرات سے تعاون کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کتاب و سنت میں اس کے متعلق بہت ترغیب دی گئی ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "آپس میں ہدایا اور تحائف کا تبادلہ کیا کرو ان سے محبت بڑھتی اور دلوں سے نفرت و کدورت دور ہوتی ہے۔" (الادب المفرد،حدیث:594) آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: ہدیہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو اسے قبول کرنا چاہیے۔ اسی طرح معمولی عطیہ بھیجنے میں بھی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ (صحیح البخاری،الھبۃ،حدیث:2566) ہبہ کرنے والے کو واہب، جسے ہبہ کیا جائے اسے موہوب لہ اور جو چیز ہبہ کی جائے اسے موہوب کہا جاتا ہے۔ ہبہ کے لیے ایجاب و قبول اور قبضہ ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر واہب اپنی رضامندی سے کوئی چیز دے اور موہوب لہ خوشی سے اسے قبول کر کے اس پر قبضہ کر لے تو اس طرح ہبہ کا معاملہ مکمل ہو جاتا ہے اور ہبہ کی ہوئی چیز واہب کی ملکیت سے نکل کر موہوب لہ کی ملکیت میں آ جاتی ہے۔لوگ چھوٹے بچوں کو عیدی یا عقیقہ کے موقع پر انعام وغیرہ کے نام سے جو روپیہ پیسہ دیتے ہیں، اس سے مقصود بچوں کو دینا نہیں ہوتا بلکہ ان کے والدین کا تعاون مقصود ہوتا ہے۔ چونکہ اتنی کم رقم والدین کو دینا مناسب نہیں ہوتا، اس لیے بچوں کو بہانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی تمام چیزیں والدین کی ملکیت ہوں گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرح کے دیگر مسائل پر بھی بحث کی ہے۔ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب فوت ہوئیں تو ان کے ترکے کے وارث دو ہمشیرگان حضرت اسماء، حضرت ام کلثوم اور حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کی اولاد تھی۔ حضرت قاسم چونکہ محمد بن ابی بکر کے بیٹے تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حقیقی بھتیجے نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وارث نہیں تھے، اس لیے حضرت اسماء نے ان کی حوصلہ افزائی کے لیے انہیں غابہ کی جائیداد ہبہ فرما دی۔ ان کے ساتھ ابن ابو عتیق کو بھی شریک کر لیا کیونکہ ان کے والد زندہ تھے، اس لیے والد کی موجودگی میں اپنی پھوپھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ترکے میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔ دونوں کو مشترک ہبہ دیا اور ایسا کرنا جائز ہے۔ اس قسم کے ہبے کو "مشاع" کہتے ہیں۔ (فتح الباری:5/277)
اور اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق سے کہا کہ میری بہن عائشہ ؓ سے وراثت میں مجھے غابہ ( کی زمین ) ملی تھی۔ معاو یہ رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا ایک لاکھ ( درہم ) دیا لیکن میں نے اسے نہیں بیچا، یہ ی تم دونوں کو ہد یہ ہے۔ یعنی مشاع کا ہبہ جائز ہے مثلاً ایک غلام یا ایک گھر چار آدمیوں کو ہبہ کیا۔ ہر ایک کا اس میں حصہ ہے۔ حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے، وہ کہتے ہیں جو چیز تقسیم کے قابل نہ ہو جیسے چکی یا حمام اس کا تو بطور مشاع ہبہ جائز ہے اور جو چیز تقسیم کے قابل ہو، جیسے گھر وغیرہ اس کا ہبہ بطور مشاع کے درست نہیں۔ ( وحیدی ) باب کا مطلب حضرت اسماءؓ کے اس طرز عمل سے نکلتا ہے کہ انہوں نے اپنی جائیداد بطور مشاع کے دونوں کو ہبہ کردی۔ قاسم بن محمد حضرت اسماءکے بھتیجے تھے اور عبداللہ بھتیجے کے بیٹے، غابہ مدینہ کے متصل ایک گاؤں تھا۔ جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی کچھ زمین تھی۔ حضرت اسماءنے ہر دو کو زمین ہبہ فرمائی۔ اسی سے ترجمۃ الباب نکلا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک مشروب پیش کیا گیا جسے آپ نے نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا اور بائیں جانب کچھ بزرگ تھے۔ آپ ﷺ نے اس لڑکے سے فرمایا: ’’اگر تم مجھے اجازت دوتو میں بچا ہوا پانی ان حضرات کو دےدوں؟‘‘ لڑکے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں آپ کے پس خوردہ (بچے ہوئے) سے اپنا حصہ کسی اور کو دینا پسند نہیں کرتا۔ آپ نے وہ پیالہ اس لڑکے کے ہاتھ میں تمھادیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکے سے کہا: ’’وہ اپنا حصہ بزرگوں کو ہبہ کر دے۔‘‘ اور بزرگ تعداد میں ایک سے زیادہ تھے۔ ان کا حصہ مشترک اور مشاع تھا، اس سے مشترکہ ہبہ کا جواز ثابت ہوا کہ ایک چیز کئی اشخاص کو مشترک طور پر ہبہ کی جا سکتی ہے۔ ابن بطال نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس لڑکے سے وہ حصہ طلب فرمایا جو مشاع تھا اور دوسروں سے الگ نہیں ہوا تھا۔ اس سے مشاع کے ہبہ کا جواز ثابت ہوا۔ (فتح الباري:277/5) اگر مشترک چیز کا ہبہ جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس لڑکے سے اجازت طلب نہ کرتے۔ (2) واضح رہے کہ حدیث میں ’’لڑکے‘‘ سے مراد حضرت ابن عباس ؓ ہیں جو بعد میں حبر الأمة اور ترجمان القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ نے قاسم بن محمد اور اب ابی عتیق سے فرمایا: مجھے غابہ کی جو جائیداد اور میری بہن حضرت عائشہ ؓ سے وراثت میں ملی تھی اور حضرت امیر معاویہ ؓ مجھے اس کے عوض ایک لاکھ دیتے تھے وہ حصہ تم دونوں کا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، وہ ابوحازم سے، وہ سہل بن سعد ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پینے کو کچھ لایا، ( دودھ یا پانی ) آپ نے اسے نوش فرمایا، آپ کے دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا اور بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اس بچے سے فرمایا کہ اگر تو اجازت دے ( تو بچا ہوا پانی ) میں ان بڑے لوگوں کو دے دوں؟ لیکن اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ کے جوٹھے میں سے ملنے والے کسی حصہ کا میں ایثار نہیں کرسکتا۔ آنحضرت ؓ نے پیالہ جھٹکے کے ساتھ اسی کی طرف بڑھادیا۔
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا، چونکہ آنحضرت ﷺ نے ابن عباس ؓ سے یہ فرمایا کہ وہ اپنا حصہ بوڑھوں کو ہبہ کردیں اوربوڑھے کئی تھے اور ان کا حصہ مشاع تھا، اس لیے مشاع کو ہبہ کا جواز نکلا اور ثابت ہوا کہ ایک چیز کئی اشخاص کو مشترک طور پر ہبہ کی جاسکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Sad (RA): A drink (milk mixed with water) was brought to the Prophet (ﷺ) who drank some of it while a boy was sitting on his right and old men on his left. The Prophet (ﷺ) said to the boy, "If you permit me, I'll give (the rest of the drink to) these old men first." The boy said, "I will not give preference to any one over me as regards my share from you, O Allah's Apostle! (ﷺ) " The Prophet (ﷺ) then put that container in the boy's hand. (See Hadith No. 541).